بدھ کی سہ پہر سے رات گئے تک
ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت گئی اور فوج آئی ۔۔۔خواہشات نے تجزیات کا لبادہ
اوڑھ کر”دن بھر کی تازہ ترین خبروں ، تبصروں اور تجزیوں کے ساتھ لمحہ بہ
لمحہ بدلتی صورتحال “رواں دواں کمنٹری جاری رہی۔رات گئے تک گلے پھاڑ پھاڑ
کر ٹرپل ون بریگیڈ کو اسلام آباد کی طرف ”خیالوں میں“ پیش قدمی کراتے کراتے
”دوست “آرام سے گھر جا کر خواب خرگوش کے مزے لینے لگے۔ سنجیدہ اوردرد دل
رکھنے والے افراد یہ سوچنے میں حق بجانب تھے کہ آخر ملک کو خطرناک افواہوں
میں لپیٹ کر کس سمت دھکیلا جا رہا ہے۔بحیثیت صحافی ہم تجزیہ نگاری اور کالم
نویسی سے زیادہ” بسیار نویسی “اور الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر سنجیدگی اور
مظاہرہ کرنے کی بجائے شاید منہ کے ڈائریا کے مرض میں مبتلا ہو چکے
ہیں۔بسیار خوری ، بسیار نویسی اور بسیار سخنی یہ سب امراض ہیں ہر چیز
اعتدال اور توازن میں ہی اچھی لگتی ہے۔
کل جو کچھ میڈیا پر ہوتا رہا اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔۔۔آرمی چیف اور
ڈی جی آئی ایس آئی پر سنگین الزامات دیکھیے صورتحال کس طرف جا رہی
ہے۔۔۔معاملہ انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔۔۔ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ وزیر اعظم
نے سیکریٹری دفاع کو بر طرف کردیا ہے۔۔۔اور اپنی با اعتماد ساتھی نرگس
سیٹھی کو سیکریٹری دفاع کا اضافی چارج دے دیا ہے۔۔۔ناظرین خدشہ یہ ظاہر کیا
جا رہا ہے کہ سیکریٹری دفاع کی تبدیلی کے ساتھ اگلے چند گھنٹوں میں آرمی
چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن کیا جا سکتا ہے۔
۔۔ناظرین تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مولوی اقبال حیدر نامی شخص نے اسلام
آباد ہائی کورٹ میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ممکنہ برطرفی کے
خلاف درخواست دائر کر دی ہے۔۔۔آپ کو انتہائی اہم پیش رفت سے آگاہ کرتے ہیں
کہ چیف آف آرمی سٹاف نے ٹرپل ون بریگیڈکے کمانڈر کو تبدیل کر دیا ہے۔۔۔اور
بتایا جا رہا ہے کہ ٹرپل ون کی کمانڈ بریگیڈئر سرفراز علی کو سونپ دی گئی
ہے۔ سرفراز علی چیف آف آرمی سٹاف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں۔۔۔ساتھ
ساتھ ایک اور انتہائی اہم پیش رفت ہو چکی ہے ناظرین کل چیف آرمی سٹاف نے جی
ایچ کیو میں تمام پرنسپل سٹاف آفیسر ز کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا
ہے۔۔۔حکومت اورفوج ایک دوسرے کے آمنے سامنے۔۔۔وزیر اعظم یا سپیکر کے خلاف
تحریک عدم اعتماد لائے جانے کا امکان۔۔۔ان ساری اطلاعات پر ہونے والے تبصرے
واضع طور پر یہ تاثر دے رہے تھے کہ کسی وقت بھی ٹرپل ون بریگیڈ متحرک ہوگا
اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اسلام آباد کی طرف روانہ ہو جائے گایا
حکومت آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی رات کے پچھلے پہر برطرفی کو
نوٹیفکیشن جاری کر دے گے ۔۔۔مگر ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی تبصروں کا گرم
گرم موضوع تھا کہ کیا اس طرح کی کس بھی کاروائی کو عسکری قیادت قبول کرے گی
؟
میڈیا کے کردار اور ذمہ داریوں کے تناظر میں لکھا گیا راقم کا ایک پرانا
کالم یقینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
”میڈیا کو کسی قوم یا معاشرے کے مستقبل کے بارے میں لکھی جانے والی تاریخ
کا پہلا ڈرافت بھی کہا جاتا ہے ....اطلاعات ....رحجانات....معلومات....
تجزیے .... تبصرے جو کچھ شائع یا نشر ہوتا ہے .... تاریخ بنا رہا ہوتا
ہے.... واقعات کی رپورٹنگ موجود حقائق کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے ۔ دستیاب
اور مصدقہ اطلاعات کے سیاق و سباق کے ساتھ تجزیہ اور ٹھیک ٹھیک رہنمائی
صحافت کا فرض ہے .... ہم اکثر و بیشتر ارادی یا غیر ارادی طور پر پروپیگنڈا
اور ڈس انفارمیشن کا شکار ہوجاتے ہیں یاحقائق کے انتخاب میں جانبداری سے
کام لیتے ہیں ....ابلاغ کے ذرائع جس قدر تیز ہوتے جارہے ہیں....ذمہ داریوں
میں اسی قدر اضافہ ہورہا ہے.... ایک خلیج دکھائی دیتی ہے جس میں تجربے
....اہلیت کا فقدان.... مصلحت کوشی اور من پسند ایجنڈے اور خواہشیں حاوی
نظر آتی ہیں.... اگرچہ ہمارا میڈیا سیکھنے اور اصلاح کے عمل سے گزر رہا ہے
مگر رفتار بہت سست ہے.... بریکنگ نیوز کی دوڑ پورے میڈیا کے مجموعی عوامی
تاثر کو خراب کررہی ہے .... ہم آئے روز اس کا مشاہدہ کرتے ہیں....گزشتہ
ہفتے پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے حکومت علیحدگی کا اعلان
کیا.... میڈیا پر خبر نشر ہوئی اور ساتھ ہی مشروم کی طرح "تجزیہ نگار"ٹی وی
چینل پر امڈ آئے۔ اگلے ہی دن قومی اسمبلی کا اجلاس تھا .... ہر طرف تبصرہ
یہ ہورہا تھا کہ کل دس بجے اسمبلی سیشن ہوگا.... حکومت عددی اکثریت کھوچکی
ہے .... لہٰذا یقینی طور پر کل بارہ بجے تک حکومت ختم ہوجائے گی ....عدم
اعتماد کی تحریک پیش بھی ہوگی اور کامیاب بھی ہوجائے گی ....یہ سوچنے کی
زحمت ہی کسی نے گوارا نہیں کی کہ کیا اپوزیشن کی ساری جماعتیں تحریک عدم
اعتماد پیش کرنے کے لیے متفق ہیں ؟ کیا وزیر اعظم خود مستعفی ہونے کے لیے
تیار ہیں ؟ کیا صدر وز یر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کریں گے ؟
کیا اپوزیشن نے عدم اعتماد کی متفقہ تحریک لانے اور متبادل وزیر اعظم سامنے
لانے کے لیے کوئی مشترکہ اجلاس اور لائحہ عمل طے کیا؟ میں حیران تھا کہ
اتنے سنجیدہ سوالات کو ہمارا میڈیا کیوں نظر انداز کررہا ہے اور ہمارے
"تجزیہ کاروں "اور "تبصرہ کاروں "کو اتنی کیا جلدی ہے ....
سچ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے اسی قدرذمہ
داریوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے .... ذمہ داری غیر جانبداری کے بغیر
ممکن نہیں ....جس طرح ہر ادارے.... حکومت .... جماعت میں سب اچھا نہیں اسی
طرح صحافت اور میڈیا میں بھی سب اچھا نہیں ہے .... ہر ادارے کے اندر خود
احتسابی کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے .... بالکل بھی نہیں
.... بی بی سی کے وسعت اللہ خان نے اس صورت حال کا تجزیہ کچھ اس طرح سے کیا
ہے اور بہت خوب کیا ہے ...."سنا تھا کہ مقابلے اور مسابقت کا رحجان مصنوعات
کے معیار کو بہتر سے بہتر بناتا ہے....ا گر یہ مفروضہ درست ہے تو اس سے
پاکستانی میڈیا کی صحت کیوں بہتر نہیں ہورہی .... مثلاً پرنٹ میڈیا کو ہی
لے لیجیے....ایک زمانہ تھا کہ اخباری دفاتر میں اشتہار .... خبر .... تبصرے
اور خواہش کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں رکھا جاتا تھا .... آج خبر اسے کہتے
ہیں جو نامہ نگاری .... کالم نویسی اور ذاتی تمناﺅں کا ملیدہ ہو اور
اشتہاروں سے بچ جانے والی جگہ پر شائع ہونے میں کامیاب ہوجائے "پہلے قاری
صرف اخبار خریدتا تھا .... آج اسے اخبار کے ساتھ ایک چھلنی بھی خریدنی پڑتی
ہے تاکہ وہ خبری کالم میں موجود ملیدے میں سے حقیقت ....فسانہ اور تمنا الگ
الگ کرسکے .... یہ مسائل اس لیے پیدا ہوئے کہ عرصہ ہوا زبان و بیان....
ادارتی پالیسی ، غیر جانبداری اور خبر نگاری کی بنیادی تربیت کو اخباری
دفاتر سے کان پکڑکر نکال دیا گیا....صلاحیت اور پیشہ وارانہ طرز عمل ....
مالک اور شعبہ اشتہارات کی دو پاٹی چکی میں سرمہ ہوچکے.... معاشی
جبر....سیاسی .... سماجی اور ذاتی مصلحتوں نے صحافت کو پیشہ نہیں رہنے دیا
بلکہ صحافی کو پیشہ کرنے پر مجبور کردیا ہے .... اخباری معیار کو آپ دس سے
ضرب دے کر الیکٹرانک میڈیا پر لاگو کردیں .... ٹھوس مواد کی قلت کے سبب
مباحثوں اور ٹاک شوز کی اس قدر بھر مار ہوگئی ہے کہ گفتگو باز اس طرح کم پڑ
گئے ہیں جیسے بکرا عید پر قصائی قلیل ہوجاتے ہیں ....پٹی جرنلزم اور فی
البدی جرنلزم کے کوڑوں نے معیاری رپورٹنگ کو نیلا کردیا.... اب یہ خبر
معمول کی نشریات روک کر بریکنگ نیوز کے نام پر سنائی جاتی ہے کہ نیو کراچی
کے ایک مکان میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی ....بریکنگ نیوز کی دوڑ نے میڈیا
کو مار ڈالا....
گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے میں ایک اور مافیا انوسٹر کی شکل میں آیا جس
نے صحافت کے مقدس پیشے کو بہت زیادہ پراگندہ کردیا.... ایک نئی روایت ڈال
دی کہ ایڈیٹر اور رپورٹر رکھنے سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ بزنس کتنا لاﺅ گے
....گویا ایڈیٹوریل کی کوئی اہمیت نہیں مافیا کو صرف کمرشل ایڈیٹر چاہیے
.... ایک اوربدترین شکل جرنلزم کی سامنے آئی ہے جو عرصے سے موجود تھی مگر
اس قدر عیاں نہیں تھی وہ ہے پی آر جرنلزم .... میں ذاتی طو ر پر جرنلزم کی
اس خباثت کو اچھے طریقے سے جانتا ہوں ....کئی سال میڈیا مینجمنٹ سے متعلق
کام کرتے ہوئے راقم نے بہت قریب سے صحافت کے بہت بڑے بڑے ناموں کو دیکھا ہے
....ایک سیاسی جماعت کے (سابق) مرکزی سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے بہت سے
سیاسی اتحادوں کے بننے ٹوٹنے کے عمل کو اندر رہ کر میڈیا کے کردار کے تناظر
میںبھی دیکھنے کا موقع ملا ہے .... یہ جاننے میں بھی بہت مدد ملی کی خفیہ
ایجنسیاں کس طرح کتنے بڑے بڑے ناموں سے .... جو بظاہر جمہوریت کے بھی
چیمپئن بنتے ہیں ....سے" استفادہ" فرماتی ہیں .... یہ بھی اپنی آنکھوں سے
دیکھا کہ سیاستدانوں کو لکھے لکھائے بیانات دیئے جاتے ہیں اور قلم کاروں کو
لکھے لکھائے کالم....جرنلزم کے اس چہرے کو میں نے بہت قریب سے دیکھا....
مگر یہ صرف پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ایک بھارتی صحافی سنتوش
بھارتیہ نے بھارتی میڈیا کے بارے میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے "پہلے کہا
جاتا تھا تھوڑی سی شراب پلا دو جو چاہو لکھوا لو.... آہستہ آہستہ بات
ٹھیکیداری تک پہنچ گئی ....آج ہمارے ہی پیشے کے کئی بڑے اور چھوٹے نام کام
کرانے کا ٹھیکہ لینے لگے ہیں .... لفظوں کی دنیا ہو یاتصویروں کی .... گندی
مچھلیاں ہر جگہ موجود ہیں .... پی آر جرنلزم کا یہ طبقہ سیاسی جماعتوں اور
بڑے گھرانوں کو صلاح دیتا ہے کہ کیسے اپنی طاقت اور اثر رسوخ کو بڑھانا
چاہیے .... اپنی ٹولیاں بناتے ہیں او ر خود کو جماعتوں کی پالیسیوں میں
تبدیل کردیتے ہیں .... ایک ایڈیٹر جو خود مالک بھی ہیں .... نے اپنے
صحافیوں سے بھری میٹنگ میں کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ لکھنے کے پیسے لیتے
ہیں ....اب آپ ہمارے بتائے ہوئے ریٹ پر پیسہ لیجیے اور اپنا کمیشن اس میں
سے لیجیے ".... یہی کچھ اور بہت کچھ ہمارے ملک میں بھی ہورہا ہے ....لیکن
اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد صحافیوں کی اپنی معاشی بقا کی جدوجہد میں
کھپ رہی ہے اور غیر یقینی کی اذیت میں مبتلا ہے.... اربوں....کھربوں کے
مالک میڈیا مالکان کے دفتروں میں کام کرنے والے صحافی اور معاون سٹاف کئی
کئی ماہ تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں .... کئی خود کشیوں کے واقعات بھی
رونما ہوئے.... یہ سب تشویشناک بھی ہے اور سنجیدہ غور و خوض کا متقاضی
بھی.... ایک پی آر کلاس بھی ہے جو اپنے اثاثوں کی بدولت ملک کی اشرافیہ میں
شامل ہوچکی ہے ....“
مگر اس کے باوجود سچ لکھنے اور بولنے والے موجود ہیں....اس امر کا شدت سے
احساس پایا جاتا ہے کہ میڈیا اپنے احتساب کا کوئی معقول انتظام کرے بصورت
دیگر مجموعی ساکھ کو شدید دھچکے لگیں گے۔ہمارا کام غیر جانبداری سے عوام کی
ٹھیک سمت میں راہنمائی کرنا ہے نا کہ لوگوں کے اعصاب پر سوار ہونا۔ |