بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ایک معرکة الآراءکتاب ہے جو علم حدیث،
فقہ دین اور اسرار شریعت کا انمول و یکتا خزینہ ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے اکابر اس کتاب کو سبقاً سبقاً پڑھایا کرتے تھے اور اب
بھی اس مرکز علم و عمل میں اس کتاب کی تدریس و تعلیم کا سلسلہ کسی نہ کسی
طور سے چلتا رہتا ہے۔
حضرت شاہ صاحبؒ نے اس کتاب میں اسلامی تعلیمات کو ایسے خوبصورت انداز اور
جچے تلے معقولانہ اسلوب میں پیش کیا ہے جس کو پڑھ کر دل و دماغ اس قدر
متاثر ہوتے ہیں کہ ان تعلیمات و احکامات اور اسلامی شریعت پر یقین کامل،
قلبی اطمینان اور ذہنی آسودگی میسر آجاتی ہے۔
مولنا شمس الحق افغانیؒ نے اس کتاب اوراس کی دیگر تالیفات کی اجمالی
خصوصیات بیان کرتے ہوئے درج ذیل پانچ باتوں میں پورا خلاصہ رکھ دیا ہے۔
(۱) دینی احکام کی ایسی تشریح کرنا جس سے دل و دماغ متاثر ہوسکے۔
(۲) احکام شریعیہ کے عمیق فلسفہ(گہری باتیں) اور اصولِ دین کی غامض(پیچیدہ)
حکمتوں سے پردہ ہٹانا۔
(۳) عقل پرستوں کی عقل کجی کو دور کرنا اور ان کو صحیح راہ پر لانا۔
(۴) دور حاضر کی ضروتوں کے مقتضیات کے مطابق اسلامی حقائق کی تعمیر کرنا۔
(۵) بیان میں تفہیم و تعلیم دونوں پہلوﺅں کو پیش نظر رکھنا کہ اسلامی مسئلہ
کو سمجھایا بھی جائے۔ صرف مناظرانہ انداز میں مخاطب کو لاجواب کرنے کی کوشش
نہ کی جائے کہ ایسا کرنے میں کوئی خاص فائدہ نہیں، اور یہی اسلوب کتاب وسنت
کا ہے۔
فی الحال ہمارا مقصود اس کتاب کا تعارف پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ چند سطور
صرف اس لئے تحریر کردی ہیں کہ جو حضرات اس کتاب سے واقف نہ ہوں ان کو آئندہ
پیش کئے جانے والے مضمون سے کچھ مناسبت ہوجائے کیونکہ اس مضمون کی بنیاد
یہی کتاب ہے۔ ہم نے اس تحریر کے لئے درج بالا کتاب کی ”جہادی مباحث“ کو
منتخب کیا ہے اور کوشش یہ ہوگی کہ وہ مباحث آسان اور عام فہم انداز میں
قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائیں۔
وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم
حضرت شاہ صاحبؒ نے جہادی مباحث کا آغاز ایک نہایت منفرد انوکھے اور الہامی
اسلوب سے کیا ہے، فرماتے ہیں:
”جان لو! شریعتوں میں تمام تر اور قوانین میں کامل تر وہ شریعت ہے جس میں
جہاد کا حکم دیا گیا ہو“۔
یہ عبارت بہت جامع اور بہت سی تفصیلات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس میں تو کوئی شک
نہیں کہ دیگر تمام ادیان و شرائع کے مقابلے میں ”اسلام“ ایک کامل دین اور
کامل شریعت ہے۔ اس کی تکمیل کا اعلان خود رب العالمین نے اپنی مقدس کتاب
میں ان الفاظ میں کردیا ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناo
”آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی
نعمت عام کردی اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا ہے“۔
یہ آیت کریمہ تکمیل دین اور اتمام نعمت الٰہی کی صاف، صریح اور واضح دلیل
ہے۔ علاوہ اس کے نبی کریم ﷺ کا ”منصب نبوت“ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اب
نہ پہلے والوں میں سے کسی کا سکہ رائج ہوگا اور نہ ہی بعد میں کوئی سکہ
جاری کیا جائے گا۔ خود قرآن کریم نے دوسری جگہ یہی مفہوم یوں بیان کردیا ہے
کہ:
و من یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ و ہو فی الآخرة من الخاسرینo
”جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے گا، وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا
جائے گا اور وہ شخص آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں شمار ہوگا“۔
اہلِ اسلام کو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ”اسلام عالمگیر و دوام پذیر“
دین ہے اور یہ اس کا وہ نمایاں و امتیازی وصف ہے کہ دوسرا کوئی دین اس میں
اس کا ہم پلہ نہیں ہے، یعنی اسلام کے علاوہ جتنے بھی دیگر ادیان و شرائع
دنیا میں آئی ہیں وہ نہ تو ”عالمگیر“ تھیں اور نہ ہی ”دوام پذیر“۔ وہ سب کی
سب محدود مدت اور مخصوص اقوام و افراد تک رسائی رکھتی تھیں اور وہی محدود
زمانہ اور مخصوص قوم و علاقہ ان کے دائرہ کار میں داخل تھا۔
اب دوسری بات یہ سمجھئے کہ جب دین اسلام عالمگیر و دائمی ہونے کا اعلان کرے
گا تو لامحالہ دیگر ادیان والوں کی طرف سے اس کی مخالفت ہوگی اور وہ اسلام
کے دائرہ اثر کو روکنے اور محدود سے محدود تر کرنے کے لئے اپنے وسائل اور
زور و قوت استعمال میں لائیں گے، وہ اپنی قوم اور ملت کی بقاءاور اپنی
صدیوں پر پھیلی تہذیب و ثقافت، مذہبی شعائر و رسومات اور قومی و ملی آثار و
نشانات کے تحفظ کے لئے ”اسلام“ کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے یوں اگر اسلام ان
رکاوٹوں کے سامنے جاکر رک جائے تو اس کی اپنی پہچان و امتیاز ختم ہوتا ہے
اور اس کا ”ہدایت عالمین“ والا دعویٰ ناقص ٹھرتا ہے اور قرآن میں جو بارہا
”ہدی للعالمین“، ”رحمة للعالمین“ کی صدا سنائی گئی ہے اور رسول کریم ﷺ کی
زبان اقدس سے ”اتیٰ رسول اللہ الیکم جمیعا“ وغیرہ جیسے اعلانات کی صداقت
پر(معاذ اللہ) حرف آتا ہے۔
ان حالات میں ضروری ہوگا کہ ان رکاوٹوں کو ہٹانے، اور مخالفین کے زور و قوت
کو توڑنے کے لئے ”اسلام“ میں قتال والا حکم اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود
ہو، تاکہ اس کی شان کمال آشکار ہوسکے اور شاید یہی حکمت ہے کہ قرب قیامت
میں حضرت امام مہدی و حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی طرف سے قتال و جہاد کے
بعد یہی آسمان و زمین اس منظر کا نظارا کریں گے کہ روئے زمین پر ”لاالہ الا
اللہ محمد رسول اللہ“ کہنے والے کے سوا کوئی نہ ہوگا۔
اس طرح یہ دین اسلام ”دائمی“ بھی ہے تو اس کے دوام کو باقی رکھنے کے لئے
تاکہ مخالفین و دشمنان کی سازشوں سے شروع میں نہ سہی شاید کچھ عرصہ بعد
اپنا وجود کھو نہ بیٹھے، ضروری ہوا کہ اس کے تحفظ کا انتظام کردیا جائے اس
پر کچھ پہریدار مقرر کردیئے جائیں جو وقت آنے پر اپنی جان کی بازی بخوشی
لگادیں لیکن اس دین پر کوئی آنچ نہ آنے دیں تاکہ یہ دین اپنا سفر قیامت تک
جاری رکھ سکے اور ظاہر ہے کہ یہ تحفظِ دین کا فریضہ بھی ”جہاد“ کہلاتا ہے
کیونکہ اگر جہاد نہ ہو تو خدشہ ہے کہ کہیں کچھ عرصہ بعد دشمنانِ دین کی
سازشیں اس کے وجود کو نابود نہ کریں۔ اس پہلو پر نظر رکھیے پھر یہ حدیث
مبارک پڑھیے اور اپنے دل سے ایمانی لذت پوچھئیے! حدیث یہ ہے:
میری امت کی ایک جماعت حق کی حمایت(اور دفاع میں) ہمیشہ لڑتی رہے گی، اپنے
مخالفین پر غالب رہے گی، کسی کی مخالفت انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے
گی۔(یہ جماعت طبقہ در طبقہ) اس طرح حق کی حمایت میں قتال کرتی رہے گی، یہاں
تک کہ قیامت آجائے گی۔ (قیامت سے مراد قربِ قیامت کا زمانہ ہے کیونکہ قیامت
سے پہلے تمام ایمان والوں کو اٹھالیا جائے گا اور زمین پر صرف بدکردار لوگ
باقی بچیں گے اور انہی پر قیامت قائم ہوجائے گی)
اس تفصیل کو سامنے رکھنے کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ قدس سرہ کا یہ دعویٰ دوبارہ
ملاحظہ کریں جو صرف دو سطروں پر مشتمل ہے:
”شریعتوں میں تمام تر اور قوانین میں کامل تر وہ شریعت ہے جس میں جہاد کا
حکم دیا گیا ہو“۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک اعتراض کا جواب دینا ضروری ہے جو درج بالا دعوے
اور تفصیل پر وارد ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ بعض دیگر ادیان
میں بھی جہاد کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے تو پھر اس اعتبار سے اسلام کی کیا
خاصیت و امتیاز باقی رہا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دیگر جن ادیان میں حکم جہاد کا پتہ چلتا ہے ان میں وہ
تاکید، تصریح اور اہتمام نہیں ہے جو اسلام اور جہاد کے باہمی خاص ربط و
تعلق میں موجود ہے، گویا ان میں حکم جہاد عارضی نوعیت کے ساتھ تھا جبکہ
اسلام میں پوری آب و تاب، شان و عظمت، تاکید و تصریح اور دوام و استمرار کے
ساتھ ہے۔ اور یہ تاکید و اہتمام اس حقیقت سے نمایاں ہوتا ہے کہ صرف قرآن
کریم میں 500 سے زائد آیات ربانی اس موضوع کے ارد گرد گردش کرتی ہیں جبکہ
احادیث نبویہ کا وسیع ذخیرہ اس کے علاوہ ہے!!
جہاد کی مصالح و حکمتوں کو خود قرآن کریم نے متعدد مقامات پر عیاں کیا ہے
اور سب کا آخری نچوڑ فقط یہی نکلتا ہے کہ وہ سراپا خیر ہی خیر ہے۔ آیت
کریمہ عسیٰ ان تکرہو شیا وہو خیر لکم اس کی طرف رہنمائی کر رہی ہے۔
حضرت شاہ صاحبؒ نے ان حکمتوں کا نچوڑ تین چیزوں کو قرار دیا ہے:
(۱) جہاد ایمان کا ذریعہ ہے (۲) جہاد کے ذریعے اللہ تعالیٰ دنیا سنوارتے
ہیں (۳) جہاد کے ذریعے اللہ تعالیٰ انقلاب رونما کرتے ہیں۔
ان تین مصلحتوں کی تفصیل و تشریح میں مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ نے اس
کتاب کی ”اردو تشریح“بنام”رحمة اللہ الواسعة“ میں جو کچھ تحریر کیا ہے وہ
بہت ہی آسان اور عام فہم ہے۔ |