امریکہ ۔پاکستان کو عراق ،افغانستان
اور عرب ممالک کی طرح اس کو تباہ و برباد کرنے کی جستجومیں بے چین و بے
قرار ہے۔مگر اس کی یہ خواہش ابھی باقی ہے۔ کیونکہ وہ پاکستان کے کندھے پر
سوار ہوکر چین، ایران اورہندوستان کو کمزور کرنے اور ان میں افراتفری
پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے حدف تک پہنچنے کیلئے اس کے ناز
و نخرے اپنے مفاد کی خاطر برداشت کررہاہے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ وہ کسی
کا بھی دوست نہیں۔ اور ناہی آئندہ میں ہوگا۔ اس کو صرف اپنے مفا د سے مطلب
ہے اس کا اگلا نشانہ فی الحال ایران ہے۔ یہ صاف دیکھائی پڑتا ہے۔ اس کی حسد
یائی نظریں خصوصی طور پر چین اور ہندوستان پر بھی ہیں۔ دوسرے ملکوں میں
افراتفری و بد امنی پھیلانا اس کے مفا د کا حصہ ہے۔ دلائی لامہ ، اناہزارے
اور علی شاہ گیلانی جیسے لوگوں سے ان کے مفا دا ت کو تقویت ملتی ہے۔ کیونکہ
یہ لوگ امن کے نام پر ، انصاف کے نام پر، حق پرستی کے نام پر گھناﺅنے چہرے
ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ’رائے شماری امریکی خنجر ‘پکڑایا جاتا ہے۔
ان کی خفیہ و اعلانیہ مد د کی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو امریکہ عزت کی نگاہ
سے دیکھتا ہے۔ ان کی خوب آﺅ بھگت کرتا ہے۔ اس لئے یہ امن کے فرشتے اس کے
خصوصی مفاد کا خاص حصہ ہوتے ہیں۔ دلائی لامہ کے ذریعہ چین کو کمزور کرنا ہے۔
جبکہ سید علی شاہ گیلانی اور انا ہزارے کے ذریعہ ہندوستان کے عوام پریشانی
میں مبتلاکرنا ہے۔ پاکستان کے عوام ۔ امریکہ کی ظلم بربریت کا مشاہد ہ
کرچکے ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ القاعدہ ، طالبان ،لشکر طیبہ و دیگر جہاد کا
جذباتی نعرہ بلند کرنے والے لوگ امریکہ کی حکمت کا حصہ ہیں۔ اور یہ لوگ
مذہبی لباس میں اسلام و مسلمانوں پر حملہ آور ہیں۔ امریکہ نے یہ سب کھیل
مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے، جہادکا جذباتی نعرہ بلند کرنے
والوں دھشت گرد کا خطا ب دلانے کیلئے کھیلا ہے۔ جو مذہبی حلیہ میں تخلیقی
کیسٹوں سے پید ا کئے جاتے ہیں۔ ان کی نکیل امریکہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ان
سے امریکہ کو دوسرے ملکوں میں مداخلت کا راستہ ملتا ہے۔ جب افغانستان میں
طالبان کے عنوان سے مکھوٹے بنائے گئے ۔ اور پھر ان کو برسراقتدار لایا گیا۔
ان کی سرکار کو تسلیم کرانے کیلئے امریکہ نے سعودی عرب اور پاکستان کوہدایت
و درخواست کی تھی کہ وہ ان کی حکومت کو تسلیم کرے ،۔ کندھار میں ہندوستان
کا جہاز اغوا کرکے اس کو وہا ں لیجا کر ہندوستان پر دباﺅ ڈالاگیا تھا کہ وہ
اسلام کا لباس پہنے اِن امریکی ایجنٹوں کو تسلیم کرے ۔القاعدہ ، لشکر طیبہ
، یہ خوبصورت نام دنیا کی تباہی کیلئے ایک خاص مقصد سے تیار کئے جاتے ہیں۔
ان کی تخلیقی کیسٹوں سے تشہیر کی جاتی ہے۔ اس کی خبروں کی تشہیر کیلئے
الجزیرہ کا عربی چینل وجود میں لایا گیا۔ مسٹر جارج بش کے دور اقتدار میں
الجزیرہ کے انگریزی چینلوں کا امریکہ و برطانیہ میں وجود بخشا گیا ۔ ان
انگریزی چینلوں کیلئے امریکی القاعدہ کے لوگ پید ا کئے گئے عظام الاامریکی
کو انگریزی زبان میں ان چینلوں سے خبریں پڑھنے کیلئے تیار کیا گیا۔ ان
الجزیزہ چینلوں کے منظر عام پر آتے ہیں امریکہ کی پالیسی و حکمت پوری طرح
بے نقاب ہوگئی کہ القاعدہ ،طالبان ،لشکر طیبہ اور جذباتی جہاد کا نعرہ
لگانے والے لوگوں کو، مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے
تیار کیا گیا ہے۔ ان کا مذہب اسلام ومسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ ان
کو صرف مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے اسلامی لباس و حلیہ بنا یا جاتا ہے۔
جس کی تشہیر تخلیقی کیسٹوں سے کی جاتی ہے۔ ان کے اس حلیہ کا سہارا لیکر
دنیا میں بدامنی و دھشت گردی پھیلائی جاتی ہے۔ ان کے حوالہ سے بم دھماکہ
کرائے جاتے ہیں۔ اور پھر حملوں کے بعد ہمدری کا ناٹک کیا جاتا ہے۔ دنیا میں
القاعدہ، طالبان ،لشکر طیبہ کے حملے جو ان کے نام سے کروائے جاتے ہیں۔ یہ
حملے اسلام دشمنوں کی چالاک حکمت ہوتی ہے۔ پاکستان کے پرویز مشرف نے امریکی
مفاد کا حصہ بن کر ان کی خوف پبلِسٹی کی۔ امریکہ کو پاکستان کے وہ لیڈر
پسند ہیں۔ جو دھشت گردوں کی پبلسٹی کیلئے کام کرتے ہوں۔ القاعدہ وطالبان کے
حوالہ سے دھشت گردی کی باتیں اجاگر کرنے کی مہم امریکی سیاست ایک خاص حصہ
ہے ۔ تخلیقی کیسٹوں سے تخلیقی مکھوٹے دیکھائے جاتے ہیں۔ پھر عملی دھشت گردی
وجود میں لائی جاتی ہے۔ اہم مقصد اسلام و مسلمانوں کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔
جس طرح جارج بش نے دوبارہ امریکی صدارت کے حصول کیلئے تخلیقی کیسٹوں کو
سہار ا لیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے اس کام میں مدد جنرل پرویز
مشرف سے لی تھی۔ جن کو ناجائز طور پر پاکستان کا حکمراں اسی لئے ہی بنایا
گیا تھا کہ تورا بورا کی پہاڑیوں میں اوسامہ بن لادن کی موجوگی کی پبلسٹی
کی مہم چلائیں۔ اور دنیا کو یہ احساس کرائیں کہ وہ پاکستان میں ہی ہیں۔ اسی
لئے جنرل صاحب نے کبھی اس کو امریکی بمباری میں مارا ہوا دیکھا کر جارج بش
کی چناوی مدد کی ۔” اوسامہ بن لادن “ امریکن ری پبلیکن پارٹی کا ایک چناوی
مشن تھا۔اسی کے ذریعہ انہوں نے اپنے حریفوں کو پریشان کرکے ان کو شکست
دی۔انہوں نے صدارتی چناﺅ میں اسلامی حلیہ مکھوٹوں کا سیاسی استعمال کرکے
اپنے مدمقابل جان کیری کو پٹخنی دی۔ جب ڈیموکریٹ ان کی اس چال کو سمجھے تو
اس وقت کافی دیر ہوچکی تھی۔ ری پبلیکن نے پاکستان کا اقتدار نوازشریف سے
چھین کر پرویز مشرف کے اس لئے ہی حوالہ کیا تھا کہ وہ ان کیلئے زیادہ کارگر
تھے۔ نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہی عراق و افغانستان کی تباہی کی
مہم تیار ہوئی۔ری پبلیکن کو اپنی مہم کی تکمیل کیلئے پوری دنیا میں القاعدہ
و طالبان ہی نظر آنے لگے۔حالانکہ ان کا وجود سیاسی مقاصد کے تحت ازخود ری
پبلیکن نے ہی تیار کیا تھا۔ اور پبلسٹی کا کام پرویز مشرف کے بھی سپرد کیا
تھا۔ جس میں پاکستان کو صدر رہتے ہوئے وہ ان کا آلہ کار بن کر ان کی کافی
سیاسی مدد کرنے لگے۔ری پبلیکن اپنے چناوی مشن سے اسامہ بن لادن کی موجودگی
پاکستان میں درج کراتے رہے اس لئے ڈیموکریٹ نے اوسامہ بن لادن کے سیاسی قتل
کا تخلیقی ڈرامہ بھی پاکستان کی سرزمین میں رچ کر ری پبلیکن کے چناوی مشن
کا خاتمہ کردیا۔ دوسرے عراق سے امریکی فوجوں کا انخلاءکرکے عراق کو دھشت
گردی سے پاک کرکے دیکھا دیا ۔ امریکی سیاست جو مسلمانوں کی تباہی سے شروع
ہوتی ہے۔ اور ان کو برباد کرکے ختم کی جاتی ہے۔ ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ
دونوں ہی اپنی پالیسوں سے دنیا پر اپنی بالادستی کی مہم چلاتے ہیں۔ ایک
تخلیقی کیسٹوں سے دھشت گردی کا عنوان سجا یا جاتا ہے۔ تو دوسر ا کرائے کے
احتجاج کا سہارا لیکر دیگر ملکوں کو کمزور کرنے کی تحریک چلاتا ہے۔ مسلم ،عرب
ودیگر ملکوں کے حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ’کرایہ کے احتجاج کی
مہم‘ ڈیموکریٹ کی ہے۔یہ مہم ری پبلیکن کی مہموں سے زیادہ کارگر ہے۔کسی بھی
حکمران کو ایک ہفتہ کے اندر۔ اندر اقتدار سے بے دخل کرنے کا کارنامہ مصر
میں ظہور پذیر ہوا ۔ جس کو سب نے دیکھا۔ جبکہ عراق کے حکمران کو ہٹانے میں
ایک طویل عرصہ لگ گیا۔لیکن کرائے کااحتجاج ہندوستان میں چوٹ کھاگیا۔انا
ہزارے کی کرپشن کے عنوان سے چلائی جارہی مہم ۔کے اکاﺅنٹ میں اس دوران بیالس
(42) لاکھ روپیہ آگئے۔ اس مہم کو کرائے کی مہم بنانے کوشش کی گئی ۔مگر
حکومت ہند نے سیکورٹی فورس کو نہتا کرکے ان کی اس مہم کو ناکام بنادیا۔جس
احتجاج میں حکومتوں کی جانب سے چند احتجاجی لوگ مرجائیں۔ تو وہ تحریک کرایہ
کی تحریک بن جاتی ہے۔ اور یہ ڈیموکریٹ کی پالسی کا ایک نایاب حصہ ہوتاہے؟؟
پاکستان میں جنرل مشرف کی واپسی نہیں ہورہی ۔ بلکہ امریکہ کی واپسی ہورہی
ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اب ری پبلیکن کیلئے کام کرنے کیلئے تیار
ہوگئے ہیں۔ ان کو غالباً پرویز مشرف کی طرح اقتدا ر کا لالچ دیا گیا ہے۔
ماضی کے اوراق پر نظر ڈالیں کہ مشرف کی موجودگی میں عراق و افغانستان تباہ
ہوئے ۔ شاید عمران خان کے اقتدار پر قبضہ کے بعد ایران کی تباہی میں وہ
امریکہ کی مدد کریں گے۔ عمران خان کی مشرف کی جماعت سے متوقع اتحاد و
مفاہمت صرف اس لئے کرائی جارہی ہے کہ نواز شریف کو اقتدار میں آنے سے کسی
طرح روکا جائے۔ اس کام میں امریکہ کی مخصوص جماعت کی مدد عمران خان کو
ہے۔اسی لئے مشرف میاں پاکستان اآنے کی جسارت کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں خاص
کر نواز لیگ کے دباﺅ میں شمشی ائر بیز امریکہ سے خالی کرایا گیا۔ اس کا
بدلہ امریکی انتظامیہ پاکستانی عوام سے لینا چاہتی ہے۔ سیاست دانوں کو سبق
سیکھانے کیلئے فوجی بغاوت کا بھی سہار ا لیا جاسکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ پاکستان میں القاعدہ ،طالبان کی تازہ دھشت گردی پھر سیاسی مفاد کا حصہ
لگ رہی ہے۔ اب پاکستان میں مزید دھشت گردی پھیلائی جائے گی۔ کیونکہ عمران
خان اور مشرف کی جماعت متحد ہوکر شمشی ائربیز دوبارہ امریکہ کو واپس کرنے
کا کوئی خفیہ معاہدہ کرلیا ہے؟ اس لئے جنرل پرویز مشرف کو امریکی مفادات کا
تحفظ کرنے کیلئے پاکستان میں بھیجا جارہا ہے۔ اب پاکستان میں مشرف میں نہیں
آرہے بلکہ جن کو پاکستانی عوام نے بھگایا تھا۔ وہ واپس نہیں آرہے بلکہ ان
کو لایا جارہا ہے۔ عمران خان امریکی مفادات کی نگہبانی و تحفظ اسی طرح کریں
گے۔ جس طرح ماضی میں مشرف میاں کر چکے ہیں۔ عمران خان نے اپنے فوجیوں کی
شہادت کا کوئی مخلص غم نہیں۔ گویا یہ ان کی شہادت پر خاموش جشن ہے۔ مشرف کی
جماعت سے مفاہمت ہورہی ہے۔ ان کو شاید پاکستان کے عوام کا وقار عزیز نہیں ۔
ان کو اپنا اور امریکہ کا وقار عزیز ہے۔ لعنت ہے۔ ان پر اور ان کی جماعت پر
جو صرف دشمنوں کا فائدہ دیکھتی ہے۔ اور ان کی گود میں بیٹھنے کا ارادہ
رکھتی ہے۔ بہر حال دیکھنا ہے کہ عمران خان ۔پاکستان کو اس کے عوام کو
امریکہ کے پاس گروی رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے
گا۔ مگر اب پاکستان میں کوشیش یہ کی جارہی ہے کہ عمران کی جماعت کو
برسراقتدار لانے کیلئے وہاں ایک فوجی بغاوت پیدا کرکے ایک آسان راستہ عمران
کو فراہم کردیا جائے۔ پاکستان میں تازہ اتھل پتھل صرف نواز لیگ کو اقتدار
کے گلیاروں میں پہنچ نے روکنے کی نئی مشق کے طور پر کی جارہی ہے۔ اس کا
اختتام کب ہوتا ہے۔ اس کا انداز ابھی لگانا مشکل ہے۔ |