عجیب بات

انسان کی زندگی میںبے سمت پروزاوں اور بے سمت ٹھکانوں کا تسلسل اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک سمت و پرواز اور ٹھکانے کا تعین نہیں ہوتا پرواز اور ٹھکانے سے کئی گنا زیادہ سمت کے تعین کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اگر سمت کا تعین درست نہیں ہو گاتو پروازاورٹھکانے کے درمیان والی مسافت صدیوں تک ختم نہیں ہو گی شائد اسی لیئے عقل مندوں کا سنہری قول ہے کہ غلط سمت کی موجودگی میں درست ٹھکانے کی تلاش ایسے ہی ہے جیسے صحرا کے بے سمت راستے!!!اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور سابق بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے درمیان کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو آپس میں ملنے کیلئے جب راستے کھولے گئے تو بہت ساری باتیں سامنے آئیں کچھ لوگوں نے اسے کشمیریوں کے ساتھ غداری قرار دیاتو کچھ نے کنٹرول لائن کی خونی لکیر کو تسلیم کرنا قرار دیا اور ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اس کو جنوبی ایشاءکے اندر قیام امن کیلئے عظیم پیش رفت قرار دیا جوں جوں حالات اور وقت کے گرد تبدیلی کا حصار قائم ہوتا گیا تبدیلیاں نظر آنے لگی سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردارعتیق احمد خان کے دور حکومت میں انٹرا کشمیر ٹریڈ کو فروغ دینے کیلئے بس سروس کے بعد ٹرک سروس شروع کر دی گئی تاکہ اندروں کشمیر تجارت کو فروغ دیکر کشمیریوں کے معیار زندگی کو بلند کیا جائے بحرحال بس سروس توجاری ہے مگر انٹرا کشمیر ٹریڈنگ کو پیپلز پارٹی کی موجودہ دور حکومت کے اندر کچھ خدشات اور تحفظات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے فی الحال ٹرک سروع معطل ہے سناہے کہ چیف سیکرٹری آزاد کشمیر ارباب شہزاد معاملے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اب یہ تمام حقائق اپنی جگہ پر جب آزاد کشمیر کے لوگ دونوں اطراف کے راستے کھلنے کے بعد بس سروس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں اپنے بچھڑے بہن بھائیوں کو ملنے کیلئے گئے وہاں پر دو فائدے ہوئے ایک کئی سالوں سے بچھڑے انسانوں کو آپس میں ملنے کا موقع ملا وہاں دونوں اطراف سے کشمیریوں کو اپنے اپنے حالات پر بھی غور و فکر کرنے کا موقع ملا میرے شفیق دوست ڈاکٹر مقبول حسین کے بھائی مشتاق احمد کو راستہ کھلنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں متعدد بار جانے کا موقع ملا جہاں پر ان کو اپنے بچھڑے بہن بھائیوں سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی گزشتہ روز اچانک ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے تین چار باتوں کا انکشاف کرکے چوکنا کر دیا کہنے لگے ممتاز صاحب آزاد کشمیر کی نسبت مقبوضہ کشمیر کے اندر بہت ساری چیزیں سستی اور معیاری ہیں انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر کے اندر جو چاول ہم کو50روپے فی کلو میں مل رہا ہے وہی چاول اڑھائی روپے فی کلو میں مقبوضہ کشمیر کے اندر دستیاب ہے اور20کلو آٹا کا بیگ جو آزاد کشمیر کے اندر ساڑے پانچ سو کا مل رہا ہے وہی20کلو آٹے کا بیگ مقبوضہ کشمیر کے اندر 50روپے میں دستیاب ہے اسی طرح آزاد کشمیر کے لوگ ہر ماہ بعد15روپے فی یونٹ کے حساب سے ہزاروں روپے بجلی کا بل ادا کرتے ہیں جبکہ پورے مقبوضہ کشمیر کے اندر بجلی کا میٹر ہی نصب نہیں بلکہ فی گھرانہ ہر ماہ بعد 70روپے فکس بجلی کا بل دے رہا ہے اسی طرح کی انہوں نے مجھے اور بھی باتیں بتائی 12کلو کا سلنڈر آزاد کشمیر میں1600روپے میںہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے اندر 15کلو کا سلنڈر375روپے کا ہے بحرحال مشتاق بھائی بڑے فخر کے ساتھ مجھے مقبوضہ کشمیر کے حالات بنا رہے تھے مگر ان تما م باتوں کے بعد میں نے عرض کی جناب ان کے پاس ہر چیز ہونے کے باوجود ایک چیز نہیں ہے اور وہ ہے آزادی اور دنیا کے اندر عظیم ترین نعمت انسان کیلئے آزادی ہے اللہ کرے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھی آزادی کی نعمت نصیب ہو اور پھر آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان یکجا ہو کر معاشی بحران کا مقابلہ کریں یہاں پر ایک بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر مشتاق بھائی کی بتائی ہوئی باتیں درست ہیں تو آزاد کشمیر کے اندر بھی حکومت کو تجدید عہد کرنا ہو گا -
Mumtaz Ali Khakasr
About the Author: Mumtaz Ali Khakasr Read More Articles by Mumtaz Ali Khakasr: 49 Articles with 34883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.