گیلانی کا خطرناک کھیل

پاکستان کی لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہونے والی سیاسی صورت حال میں آتی تیزی اگرچہ اب قدرے تھم گئی ہے تاہم فوج اور حکومت کے درمیان دوریاں بڑھ چکی ہیں جس کے باعث وطن عزیز شدید بے یقینی کے مراحل سے گزررہا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے صدر کو بچانے کے لیے جو خطرناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اس کا انجام سیاسی ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں۔ پرائم منسٹر صاحب ایک طرف عدلیہ کو آنکھیں دکھارہے ہیں تو دوسری جانب فوج کو بھی گھوررہے ہیں۔ حکمرانوں کی انہی پالیسیوں نے پیپلزپارٹی کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم گیلانی کے پے درپے متضاد بیانات اور اقدامات خود انہی کے لیے باعث خطرہ ہیں۔ سپریم کورٹ اُنہیں بادی النظر میں بددیانت کہہ چکی ہے۔ اب اس پر افسوس کرنے سے کیا حاصل!

سپریم کورٹ کو مورد الزام ٹھہرانے سے قبل اپنے طرز عمل کا جائزہ تو لیتے، اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھتے۔ عدالت اور اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے سے پہلے سوچا تو ہوتا کہ ریاستی اداروں پر آئین اور قانون کی خلاف ورزی کے الزامات لگانے والے پرائم منسٹر صاحب! یہ جوکچھ آپ کررہے ہیں، یہ کون سے آئین اور قانون کی تشریح ہے؟ عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اڑانا اور ان پر عمل درآمد سے مسلسل گریز کرنا محاذ آرائی نہیں تو اور کیا ہے؟

کبھی کہا جاتا ہے ”ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔“

پھر وضاحت پر مجبور ہو کر بہانا تراشا جاتا ہے کہ یہ تو سیکرٹری دفاع کے بارے میں کہا تھا۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے ”اسامہ 6 سال تک کس کے ویزے پر پاکستان میں رہا۔“ پھر پینترا بدلتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ پرویز مشرف کی طرف اشارہ تھا۔ 16 دسمبر 2011ءکو وزیراعظم نے آرمی چیف سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں عدالت میں پیش کیے گئے جوابات کو مروجہ طریق کار اور رولز آف بزنس کے مطابق قرار دیا۔ لیکن گزشتہ ہفتے انہوں نے اپنے ہی بیان کی نفی کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کے جوابات کو غیر آئینی اور غیر قانونی کہہ دیا۔ جس پر پاک فوج کے سخت رد عمل سے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی اور افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔

آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے میمو معاملے پر سپریم کورٹ میںجمع کرائے گئے جوابات کی مجاز اتھارٹی سے اگر منظوری نہیں لی تھی تو وزیراعظم گیلانی کو ان کے خلاف بیان دینے کی بجائے ضابطے کی کاروائی کرنا چاہیے تھی۔ جبکہ یہ بیان عین اس وقت سامنے آیا جب جنرل کیانی چین کے دورے پر تھے۔ ایسے وقت چینی اخبار کو دیے گئے وزیراعظم کے انٹرویو سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا جبکہ اس وقت تک سپریم کورٹ میں بیاناتِ حلفی اور جواب الجواب داخل ہوئے بھی ڈھائی ہفتے گزرچکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے دونوں فوجی افسروں کے داخل کرائے گئے بیانات کو ضابطے کے مطابق قرار دیا ہے۔ جس سے ایک جانب وزیراعظم کا طرزِ عمل موضوع ِبحث بن رہا ہے تو دوسری جانب یہ تاثر بھی تقویت پارہا ہے کہ میمو کیس میں ایوان اقتدار کا کسی نہ کسی سطح پر عمل دخل ضرور ہے۔ جب ہی تو تحقیقات سے قبل ہی اسے سبوتاژ کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ اگر دال میں کچھ کالا نہیں تو پھر حکمران اتنا واویلا کیوں مچارہے ہیں؟ اگر میمو گیٹ واقعی صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے توپھر عدالتی کمیشن کی تحقیقات میں روڑے اٹکانے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر حکمران خوف زدہ کیوں ہیں اور حکومت نے اسے اپنی ”انا“ کا مسئلہ کیوں بنایا ہوا ہے؟ عدالتی کمیشن کی تحقیقات سے دودھ کا دودھ اور پانی پانی کا ہوجائے گا۔

اس وقت ملک میں پیدا ہونے والی غیر یقینی کی فضا کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ پل پل بدلتے بیان اور موقف سے وزیراعظم کی ساکھ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ پیپلزپارٹی مخصوص ایجنڈے کے تحت عدلیہ اور فوج سے ٹکراﺅ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ فوج کی طرف سے آئین کی پاسداری اور جمہوری عمل کی حمایت کا واضح موقف بار بار سامنے آنے کے باوجود حکمران جماعت کی جناب سے ایسے شوشتے چھوڑے جارہے ہیں جن سے حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ حالات سے لگتا ہے کہ ملک میں تبدیلی آنا تو یقینی ہے لیکن یہ جمہوری انداز میں ہی آئے گی۔ فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیوں کہ بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ موجودہ صورت حال میں فوج آئینی طریقے سے تبدیلی لانے کی خواہاں ہے اور وہ سپریم کورٹ کے ذریعے حکومت پر سوالات اٹھانے کو ترجیح دے گی۔ جبکہ سیاسی جماعتیں آنے والے دنوں کے لحاظ سے صف آرائی میں مصروف ہیں۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں عوام کو سڑکوں پر لانے کا اشارہ دیا ہے جبکہ تحریک ا نصاف کے سربراہ عمران خان بھی اپنے حامیوں کو سڑکوں پر نکل آنے کا بیان دے چکے ہیں۔

اس سارے قضیے میں قوم کی نظریں میمو گیٹ اوراین آر اوعمل درآمد کیسپر لگی ہوئی ہیں کیونکہ ملک میں جاری بحران اور حکومت کی عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی کے تناظر میں اہم شخصیات کے مستقبل کا فیصلہ بہت جلد ہو جائے گا۔ اب آنے والے دنوں اور ہفتوں میںسیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ منحصر ہے مختلف اداروںاور پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوںپر کہ وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں اور اپنے اپنے پتے کیسے کھیلتی ہیں؟
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 83719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.