بھارت اور بھگوا دہشتگردی

بھارت کو بھگوا دہشتگردی سے نجات کی ضرورت ہے

ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں اور یہ بات سچ بھی ہے مگر دہشت گردوں پر مذہب و نظریات کے اثرات ضرور ہوتے ہیں۔ انہی اثرات کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردی کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں انتہا پسندی اور دہشت کے مختلف رنگوں میں سرخ اور بھگوا رنگ سب سے نمایاں ہیں‘سرخ دہشت استحصال کے جواب میں جنم لینے والی دہشت کا نام ہے۔ اس میں ماہ نواز اور نکسلی گروپ شامل ہیں جو سماج اور اسٹیبلشمنٹ سے استحصال و محرومی کا انتقام لینے کے درپے ہوگئے ہیں۔ سرخ دہشت نظریات کے تابع ہے کمیونسٹ مائسٹ نظریات کے حامل افراد اس گروپ میں موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح بھگوا دہشت مذہبی نظریات کے تابع ہے جو جمہوری ملک ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے مصروف نظر آتی ہے اور سماجی تقسیم و داخلی انتشار کے ذریعے دائیں بازو کی سیاسی جماعت کو اقتدار میں دیکھنا اس کا خواب ہے جو ایک دوبار پورا بھی ہوچکا ہے۔ یہاں دہشت گردی ان کے اقسام اور رنگوں کے تعلق سے بحث کی نوبت کیوں آئی؟ یہ بھی ایک سوچنے والی بات ہے۔ دراصل ممبئی میں26 نومبر کو ہونے والے بھیانک دہشت گردانہ حملوں کے بعد گو کہ بھارت نے ان کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اسے امپورٹیڈ دہشتگردی اور اس کا رنگ سبز قراردیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود اس دہشتگردی کا شکار ہے جس کی وجہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے جس نے ایسے گروپوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جنہوں نے بیرونی معاونت و سرمائے کے سہارے پاکستان میں دہشت و بربریت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ یہاں کا امن و سکون برباد ہوگیا جس کی بنا پر پاکستان اس معاشی و اقتصادی بحران سے دوچار ہوا کہ آئی ایم ایف جیسا استحصالی ادارہ ایک بار پھر پاکستان کی گردن دبوچنے میں کامیاب ہوچکا ہے جبکہ پاکستان کو امریکہ کی دوستی اور دہشت گردی کے خلاف نہاد جنگ میں اپنا کردارادا کرنے کی جو قیمت چکانی پڑی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے بیشتر شہروں میں جہاں اندرونی طور پر جاری دہشتگردی اس کیلئے وبال جان بنی ہوئی ہے وہیں امریکی و بھارتی طیاروں کی فضائی خلاف ورزیاں اور سرحدی علاقوں پر بمباری کے ذریعے اس کے عوام کا قتل عام بھی معمول بن چکا ہے

 جبکہ اس بیرونی جارحیت کو برداشت کرنے کی غلطی نے پاکستان کو دنیا کے سامنے ایسا آسان شکار بھی بنادیا ہے کہ بھارت جیسے پڑوسی ملک نے بھی اس کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی شروع کردی ہے اور اگر پاکستان ان فضائی خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکام رہا تو پھر شاید بھارت کے بعد نیپال ‘بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے ساتھ اسرائیلی طیارے بھی اس کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی کر کے مارٹر بموں سے اس کی شہری آبادیوں کو نشانہ بناتے دکھائی دیں گے گو کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود ان نان اسٹیٹ پلیئرس دہشتگرد تنظیموں کے خلاف پوری نیک نیتی سے کاروائی کرتا آرہا ہے مگر پھر بھی بیرونی قوتیں اور عالمی برادری اس کے اس کردار کو سراہنے کے باوجود اس پر دباؤ ڈالنے اور دھمکیاں دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ اس ساری کہانی میں ہندوستان کے لئے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ ہندوستان میں مختلف رنگوں کی دہشت سے نمٹنے کے معیار جدا جدا ہیں ‘ نام نہاد سبز دہشت کی بیخ کنی کے سلسلے میں حکومتیں اور خصوصاً بعض سیاسی جماعتیں پروایکٹیو کارروائی میں یقین رکھتی ہیں مگر سرخ دہشت جس میں امپورٹیڈ دہشت بن جانے اور عالمی برادری کے سامنے بھارت کا سر جھکانے کے سارے لوازمات موجود ہیں اس کو نیوٹرالائز کرنے کے بھارت کے پیمانے الگ ہیں۔ اسی طرح بھگوا دہشت کا معاملہ بھارت کے لئے بالکل ویسا ہی ہے جیسا پاکستان کے لئے سبز دہشت ہے لیکن بھارت میں سبز دہشت کا رونا روکر بھگوا دہشت پر پردہ ڈالنے کی جو پالیسی روا رکھی جارہی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب یہ اس دہشت کا دائرہ کار بھارت سے نکل دیگر ممالک تک منتقل ہوجائے گا اور بھارت کو بھی انہی حالات سے دوچار ہونا پڑے گا جس کا شکار آج پاکستان ہے ۔ لہٰذا بھارت کو ہر دہشت گردی کا الزام مسلمانوں٬ پاکستان یا آئی ایس آئی پر ڈالنے کی بجائے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے اپنے پیمانے اور معیار کودرست کرلینا چاہئے تاکہ عالمی برادری بھارت کو بھی پاکستان کی طرح مجبور کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا خصوصی اتحادی رہا ہے مگر آج اسی امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی کے لئے پاکستان کی گردن دبوچ رکھی ہے اور اب امریکہ بھارت کا بہت اچھا دوست بن چکا ہے اسلئے اگر بھارت نے بھگوا دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے اقدامات نہیں کئے تو ہوسکتا ہے کہ کل اس کی گردن بھی امریکی شکنجے میں ہو٬ سرحدوں پر مارٹر بموں سے حملے ہورہے ہوں اور اندرون ملک افراتفری و نفسانفسی کی آگ لگی ہوئی ہو ۔

Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 5 Articles with 5065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.