امریکہ کی صیہونی شکنجے سے آزادی

نسل پرستی سے آزادی حاصل کرنے والا امریکہ کیا صیہونی شکنجے سے بھی آزاد ہوسکے گا

مساوات کی نئی تاریخ رقم کرنے والی امریکی عوام خواب غفلت سے جاگ گئی ہے اور اس دہشت اور نفرت سے امان چاہتی ہے جو دنیا بھر میں جارحیت کے نتیجہ میں ان کے اوپر مسلط ہو کر رہ گئی ہے
 
بارک اوبامہ کی امریکی صدارتی انتخابات میں فتح ‘امریکی عوام نے بش کی پالیسیوں سے آزادی کےلئے ایک کالے کو اپنا صدر بنا لیا ہے

یوں تو امریکہ کی جنگِ آزادی4 جولائی1776 ءمیں کامیابی سے ہمکنارہوئی تھی۔ یہ آزادی اس نے برطانوی اور فرانسیسی سامراج کے خلاف حاصل کی تھی۔ گوکہ پرتگال اور اٹلی نے بھی اس ”نئی دنیا“ میں اپنی کالونیاں قائم کر رکھی تھیں مگر سب سے بڑی تعداد برطانوی کالونیوں کی ہی تھی ۔4جولائی1776ءکو امریکہ میں برطانوی سامراج کا سورج غروب ہوا تھا مگر یہ بھی یاد رہے کہ نئی دنیا کو آباد کرنے کا کام اس کے اصل باشندوں کو برباد کئے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا تھا اسلئے امریکہ میں بسنے والی قدیم قوم یعنی ریڈ انڈین کو سنگین ترین مظالم کے ذریعہ صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا گیا۔ یہ کام”نئی دنیا “ کی دریافت کا سہرا اپنے سرباندھنے والوں نے کیا اور یورپی قوموں نے وہاں ڈیرے جمالئے۔ کچھ عرصہ تک ان کالونیوں کو قائم کرنے والی حکومتیں یہاں اپنی من مانی کرنے میں کامیاب رہیں مگر بعد میں نو آبادیوں نے اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا اور تھامس جیفر مین نے نئے امریکہ یا ”ریاستہائے متحدہ امریکہ “ کے Declaration of Independendence کوترتیب دیا۔ یہ آزادامریکہ دنیا کی تاریخ میں جارحیت کا سرغنہ اس وقت بن گیا جب اس نے دوسری جنگ عظیم میں شکست خوردہ جاپان (جو اپنی شکست قبول کرنے پر آمادہ بھی تھا ) پر اپنی طاقت کا اس قدر سفاکانہ استعمال کیا جس کی نظیر انسانی تاریخ نہیں پیش کرسکتی۔ یہاں تک کہ ہیروشیما اور ناگاساکی میں انسانی زندگیوں کو کروڑوں کی تعداد میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح مسل دینے والے بمبار طیاروں کے پائلٹ خود ان مناظرکی تاب نہ لا کر ہوش کھو بیٹھے۔ یہ دنیا میں ایک سپرپاور کی حیثیت سے امریکہ کا ’ ’داخلہ “تھا۔ ایک تاریخی داخلہ ! یوں تو دنیا کے سبھی سپرپاورس نے تشدد و جارحیت کوایک لازمی اصول کے طور پر اپنائے رکھا۔ مگرامریکہ کی مثال جارحیت میں سب سے زیادہ بھیانک اور خطرناک تھی۔ امریکی تاریخ کا تیسرا اہم دور روس کے ساتھ سرد جنگ والا دور ہے۔ جب دنیا کو جبراً دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری کے پالے میں۔ ان دنوں جو لوگ ناوابستگی کا دم بھرتے رہے وہ بھی حقیقی معنوںمیں ناوابستہ رہ نہیں سکے۔ اور اپنے وعدوں پر انہیں خود بھی کبھی اعتماد نہیں رہا۔ پھر دنیا نے وہ تاریک ترین دور بھی دیکھا جب وہ ایک قطبی ہو کررہ گئی۔ ایسے میں صرف افغانستان ‘ایران اور وینزویلا جیسے ممالک تھے جو اس یک قطبی دنیا میں اپنا رخ مخالف سمت میں برقرار رکھنے کی کوشش میں سرگرداں رہے اور افغانستان کو تباہ کرنے کی لاکھ کوشش کے باوجود وہ اس سپرپاور کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوا جبکہ عراق بھی امریکہ کے گلے کی ہڈی بن کر رہ گیا۔
 
انسانی دنیا کے عروج وزوال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کا سنہری دور گزرچکا ہے۔ مشیت ایزدی نے دنیا میں سپرپاورس کو مہلت ِ عمل دینے کے بعد ان کی رسی اس طرح کھینچی ہے کہ اکثر یا توان کا نام ونشان مٹ گیا ہے یا وہ زمین کے ایک مختصر سے خطہ میں محدود طاقت کی حیثیت میں سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ آج برطانیہ کی حیثیت یورپ میں بھی کچھ مرکزی نہیںرہ گئی ہے؟

اور پھر ”یونان ومصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے “کی حقیقت کو فراموش کیسے کیاجاسکتا ہے ؟
دنیا کی دونوں عظیم جنگوں کے بعدہی امریکہ کوسپرپاوروالی حیثیت ملی تھی اوران جنگوںمیں یہودی لابی کا کیا رول رہا ہے ؟

کس طرح سے انہوں نے نازی ازم اور صیہونیت کے درمیان تنازعہ کھڑا کیا؟
کس طرح ہولوکاسٹ کا تماشہ کرکے دنیابھرکی ہمدردیاں سمیٹیں؟

کس طرح یہودی ذہن نے دنیا کا بدترینWMDیعنی عام تباہی کا ہتھیار تیار کر کے دنیا کو دہشت زدہ کردیا ؟
اور کس طرح تاریخ تقریباً نصف صدی تک مسلسل اسی دہشت کے سائے میں زندگی گزارتی رہی‘ کس طرح مختلف ممالک کے اندرونی حالات او رخارجہ پالیسیوں پر امریکی بھوت سوار رہا ہے بلکہ اب بھی سوار ہے۔ اس کا اندازہ کریں مگر جب یہ دہشت War on Terror کی شکل میں ملکوں پر ملک تباہ کرتی چلی گئی اور اس نے دنیا کی تاریخ کے ساتھ اس کے جغرافیہ میں خطرناک حد تک دَراندازی شروع کردی تو یہ جنگ اسے مہنگی پڑنے لگی۔اس کی ترجیحات جب تبدیل ہوگئیں اوراس کے خزانے خالی ہونے لگے تو جس معاشی نظام کو دنیا پرمسلط کر کے اس کا فائدہ خود بٹورنے کے لئے جنگوں پر جنگیں ہوتی رہیں وہ نظام خود اس کی اپنی سرزمین پر شکست خوردہ ہوکر رہ گیا۔

صہیونی گروہ مدینہ منورہ کی بستیوں سے لے کر امریکی ریاستوں تک منافع خوری اور انسانیت کے استحصال کے لئے مسلسل سرگرم رہے ہیں!

یہ سوال بارہا پوچھا جاتا رہا ہے کہ امریکہ اوراسرائیل میں سے کون کس کا بغل بچہ ہے؟

لیکن واقعہ ہے کہ صہیونی لابی نے امریکہ کوایک عرصہ سے یرغمال بنا رکھا ہے۔ انہوں نے امریکہ کو لوٹا اور اس کا استحصال کیا ہے۔ پہلے بھی یہ حقائق میڈیا کے ذریعہ اڑائی گئی پروپیگنڈے کی گرد سے جھانکتے رہے ہیں کہ War On Terrorامریکی عوام کی اُمنگوں کے مطابق نہیں ہے۔ امریکی عوام کی معتدبہ تعداد ہے جو9/11کو بڑے وثوق کے ساتھ Inside Job قرار دیتی ہے۔ عراق و افغانستان سے مسلسل امریکہ آنے والے تابوتوں نے بھی امریکی عوام کومشتعل کر کے رکھ دیا۔ عام امریکیوں کی یادداشت ہی نہیں بین الاقوامی معاملات میں ان کی فہم وفراست بھی تیسری دنیا کے عام باشندوں سے کم سمجھی جاتی ہے۔ وہ دنیا کے بیشتر ممالک کے نام بھی یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ دراصل ایک ایسی قوم ہیں جو اپنی خوشحالی اور فارغ البالی میںمست رہنے کو پسند کرتی ہے۔ وہ بنیادی طور سے جنگوں یا قتل وغارت گری میں یقین رکھنے والی قوم نہیں ہے۔ وہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال تو دیکھنا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے دوسرے ملکوں کے ساتھ جارحیت کا رویہ اپنانے کے روادار کبھی نہیں رہے۔ رابرٹ فسک اور نوم چومسکی جیسے امریکی دانشوروں کے ذریعہ امریکی عوام کے احساسات دنیا کے سامنے آتے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اوبامہ نے امریکیوں سے یہ سوال کیا کہ
”کیا ہم نہیںچاہتے کہ ہمارے بچے نئی صدی کودیکھ سکیں ؟“
جو امریکی عوام نے اس کا جواب نوے فیصد پولنگ کے ذریعے دیا۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہرامریکی اپنی بقا ءکو لے کر فکرمند ہے

جس ملک نے دنیا میں اتنی نفرت بوئی ہو‘اس کی فصل کاٹنے کے تصور ہی سے وہ کانپ جاتے ہونگے؟ ایک عرصہ تک امریکیوں کا حال یہ رہا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی اور ملک کے وجود کا احساس تک نہیں رکھتے تھے۔امریکہ کے نو منتخب صدر بارک حسین اوبامہ نے انتہائی حقیقت پسندی کے ساتھ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ”دنیا میں صرف ہم نہیں ہیں بلکہ ہم کئی قوموں میں سے ایک ہیں “۔

امریکہ اس حقیقت کا اعتراف جتنی جلدی کرسکے اس کے حق میں بہتر ہوگا کہ دنیا امریکہ نہیں!
اور امریکہ کی غلام بھی نہیں!

البتہ امریکہ خود آج بھی ایک غلام ملک ہے۔ جس نے اوبامہ کی شکل میں نسل پرستی سے تو آزادی حاصل کرلی ہے۔ مگرصہیونی شکنجوں سے یہ آزاد ہوسکے گا یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ امریکی عوام تبدیلی چاہتے ہیں وہ War On Terror یا اس کے اثرات سے نجات چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کو لوٹنے اور اس کا استحصال کرنے کے جنون میں خود دیوالیہ ہوجانے کی خطرناک معاشی پالیسیوں سے نجات چاہتے ہیں۔ وہ اس دہشت اور نفرت سے امان چاہتے ہیں جو دنیا بھرمیں جارحیت کے نتیجہ میں ان کے اوپر مسلط ہو کر رہ گئی ہے

امریکی عوام نے ووٹ دے کر اپنا فرض ادا کردیا ہے

اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور جمہوری ملک اپنے مسائل کو حل کرنے میں جمہوریت کے ذریعہ کامیابی حاصل کرسکے گا یا نہیں؟

وہ الیکشن کے ذریعہ یہودی لابی سے نجات حاصل کرنے میں سرخرو ہوگا یا نہیں؟
وہ نفرت و دہشت کی سیاست سے خود کو بچاسکے گا کہ نہیں ؟

اندیشے اس لئے سر اٹھائے ہیں کہ امریکی یہودی لابی اس سے قبل دنیا کے اس طاقتور ملک کو یرغمال بنائے رکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہی ہے اوراس کے لئے اس نے امریکی صدور کو بھی بلی چڑھانے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی!

امریکہ کا حالیہ الیکشن دراصل ایک نئی جنگ آزادی سے کم نہیںتھا ۔

جس میں امریکی عوام نے بارک اوبامہ کے حق میں فیصلہ دے کر اپنی ہی نہیں بلکہ دنیا کی آزادی کے حق میں بھی فیصلہ دیا ہے اور اپنے اس فیصلے کے ذریعے امریکہ کی عوام نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ افغانستان ہو یا عراق وہ کہیں بھی جنگ کے شعلے بھڑکانا نہیں چاہتے۔ وہ امریکہ کے اس فیصلہ میں حصہ دار بننا نہیں چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں انہیں وحشی اور جنگلی سمجھا جائے۔ اسی لئے انہوں نے جارج بش کے ذریعہ زبردستی اپنے گلے میں ڈالے گئے جنگ کے قلاوے کو اتار پھینکا ہے اور بارک اوبامہ کے حق میں ووٹ ڈال کر عوام نے بالکل واضح فیصلہ دے دیا کہ وہ ان وحشیوں کے ساتھ نہیں ہیں جو آج کے ترقی یافتہ دور میں دنیا کو جنگ کے شعلے میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔ ایک طرح سے امریکہ میں نئی صبح کا طلوع ہوا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح 600برس قبل کولمبس نے امریکہ کو دریافت کیا تھا۔ آج پھر اوباما نے ایک نئے امریکہ کو دریافت کیا ہے۔ بلا شبہ اوباما اس سلسلہ میں تنہا نہیں ہیں۔ سیاہ فام اقوام نے گذشتہ نصف صدی میں وہاں بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ مار ٹن لوتھر کنگ نے جو جدو جہد شروع کی تھی اس کا اختتام اوباما پر ہوا ہے۔ لیکن یہ اختتام نہیں ہے۔ دراصل یہ شروعات ہے اور بالکل نئی شروعات۔ ایک نئے عہد کا آغاز ہو رہا ہے۔

یقینا امریکی ووٹروں نے ایک سیاہ فام افریقی نژاد امریکی کو ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کر کے جہاں رنگ و نسل کے تعصبات کا بت پاش پاش کردیا وہاں اپنے ملک کی داخلی و خارجی پالیسیوں میں تبدیلیاں لانے کی خواہش کا بھی پوری شدت سے اظہار کیا ہے۔ امریکی عوام کا یہ فیصلہ وہاں کے سیاسی نظام کے بالغ نظری کے اس مقام پر پہنچنے کا مظہر ہے جس کے تحت کسی زمانے میں نسلی امتیاز کا شکار رہنے والے ملک کی اکثریت نے2008ءمیں نسلی مساوات اور انسانی اقدار کی سربلندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس بنیاد پر یہ توقع بے محل نہیں ہوگی کہ اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے خلاف شروع کی گئی نفرت کی مہم کو بھی امریکی قوم مسترد کردے گی اور بارک اوباما نے تبدیلی کے جس نعرے کے ساتھ اپنے عوام کے دل جیتے ہیں وہ امریکہ کے داخلی معاملات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان سے فوجیں واپس بلانے اور افغان عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دینے کی منصوبہ بندی بھی کی جائے گی۔ مشرق وسطیٰ، افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے متعدد ملکوں میں امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں عام لوگوں کی جن مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، ان کے باعث دنیا بھر میں اوباما کے تبدیلی کے نعرے میں کشش محسوس کی جاتی رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے امریکی صدر خود اپنے ملک کے لوگوں اور عالمی برادری کی توقعات پر کس طرح پورے اترتے ہیں۔4/ نومبر 2008ءکے انتخابات میں امریکی رائے دہندگان کی جتنی بڑی تعداد نے غیرمعمولی جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا، وہ خود ایک بڑا واقعہ ہے۔ امریکی عوام نے عراق اور افغانستان کی جنگ کے اثرات، نائن الیون کے بعد اختیار کی گئی پالیسیوں، پیٹریاٹ ایکٹ جیسے قوانین سے پیدا ہونے والے مسائل اور مالیاتی بحران پر اپنے ردعمل کا بھرپور اظہار کیا ہے۔تاہم ان انتخابات کی اہمیت صرف ریاست ہائے متحدہ کے لوگوں تک محدود نہیں۔امریکہ کے سپر پاور ہونے کی بناءپر وہاں کے انتخابات کوپوری عالمی برادری میں توجہ اور دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ واشنگٹن کے طرز عمل میں نظر آنے والی تکبر اور رعونت کی کیفیت میں کمی کی جانی چاہئے۔ امریکی بھی اسی سیارے کی مخلوق ہیں۔ خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کا طرز عمل انسانیت کی اعلیٰ اور ارفع اقدار سے میل نہیں کھاتا۔ یہ صحیح ہے کہ امریکہ ایک طاقتور ملک ہے۔ اس کی معیشت طویل عرصہ سے مستحکم چلی آ رہی ہے۔ وہاں لوگوں کو مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہیں۔ باہر سے آنے والوں کو بھی مقامی باشندوں جیسی سہولتیں میسر ہیں۔ بلاشبہ ریاست ہائے متحدہ نے یہ مقام انصاف کی سربلندی اور تعلیم کے فروغ کی وجہ سے حاصل کیا ہے۔ ان اعلیٰ اقدار کی پاسداری کر کے ہی اس مقام کو قائم و برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی داخلی و خارجی پالیسیوں میں جو تبدیلیاں آئیں ان سے وہاں کے لوگ تو نالاں ہیں ہی، دوسری اقوام بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ عراق اور افغانستان کی جنگ کے باعث امریکی معیشت سنگین بحران کی زد میں آ چکی ہے اور بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے 700 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج دینا پڑا۔ دوسری جانب صدر بش کی پالیسیوں کے باعث دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف نفرت بڑھی ہے۔ امریکی عوام نے انتخابی نتائج کے ذریعے اس صورت حال پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اگر دنیا بھر میں ووٹنگ کرائی جاتی تو عالمی برادری بھی بارک اوباما کو بھاری اکثریت سے منتخب کرتی۔ یہ احساس اس بات کا متقاضی ہے کہ نئی قیادت تمام حالات کا تجزیہ کر کے ضروری اقدامات کرے۔

بارک اوباما شروع سے صدر بش کی عراق پالیسی کے مخالف رہے ہیں۔ 2003ءمیں جب صدر بش صدام حسین کو 48 گھنٹوں میں عراق چھوڑنے کا الٹی میٹم دے رہے تھے اس وقت اوباما شکاگو میں عراق جنگ کے خلاف ایک بڑی ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔ اسی ریلی اور خطاب سے اس وقت کی ریاستی سینیٹ کے رکن اوباما کے سیاسی مستقبل کا رخ متعین ہوا تھا۔ اب بارک اوباما کے صدر منتخب ہونے کے بعد عراق سے قابض فوجوں کی واپسی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ افغانستان میں نیٹو افواج یہ اعتراف کرچکی ہیں کہ ان کے لئے جنگ جیتنا ممکن نہیں۔ اس دلدل سے امریکہ کو نکالنے کے لئے طالبان سے بالواسطہ مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا گیا ہے جسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ملکوں میں طاقت کے زور پر اپنی پسند کا نظام لانے اور امریکی مفادات کے لئے کہیں بھی فوج بھیجنے کی باتیں دنیا میں بے چینی کا سبب بن رہی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران امریکیوں نے یقیناً یہ محسوس کیا ہوگا کہ ان کے ملک کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کیوں بڑھ رہی ہے اور خود امریکی کس طرح اپنے حقوق سے محروم ہو رہے ہیں؟ اب تبدیلی کے حق میں امریکی قوم کے فیصلے کے بعد ایسی پالیسیوں پر نظرثانی کی راہ ہموار ہو جانی چاہئے۔ عالمی برادری، خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک یہ محسوس کرتے ہیں کہ جدید علوم کے ذریعے ترقی کرنے والے امریکہ کو عالمی برادری کی قیادت کا حق ہے۔ اس کی بڑائی کا مظہر وہ پالیسیاں رہی ہیں جن کے ذریعے وہ غریب ممالک کو معاشی، علمی اور تحقیق کے میدانوں میں مدد دیتا رہا ہے۔ ان روایات کی پاسداری ہی اسے عالمی قیادت کے منصب پر فائز رکھ سکتی ہے۔ اپنی برتری کے زعم میں دوسروں کی آزادیاں کچلنا کسی طرح بھی عالمی امن اور خود امریکہ کے مفاد میں نہیں۔

امریکی کہاوت ہے کہ جیتنا آسان ہوتا ہے مگر جیت کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس مثال کی روشنی میں اگر بش انتظامیہ کے 8 سالہ اقتدار کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان 8 سالوں میں دو دفعہ انتخابات جیتنے کے بعد بھی وہ امریکہ کے غیرمقبول صدر ثابت ہوئے۔ جیسا کہ آج کل سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں سنیٹر باراک اوباما کی کامیابی اپنی جگہ مگر اس میں بہت کچھ بش انتظامیہ کی حماقتوں کا دخل بھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ باراک اوباما کی صدارتی کامیابی میں بش انتظامیہ کی پالیسیوں میں ناکامی اور امریکی عوام میں ناامیدی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور اب یہی مثال باراک اوباما پر بھی لاگو ہوتی ہے!

باراک اوباما نے صدارتی انتخابات میں جیت کے ساتھ ہی اپنی کابینہ سازی کا کام شروع کردیا ہے اور سب سے پہلے ایک اسرائیلی یہودی شکاگو کے کانگریس مین راہم امینول (Rahm Emanuel) کو وہائٹ ہاؤس کا چیف آف سٹاف مقرر کیا، نامزد کیا اور اسی وقت سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ راہم امینول جس نے اسرائیلی آرمی میں اپنی ڈیوٹی دی ہے، کیا وہ اسرائیل کا زیادہ وفادار ہے یا امریکہ کا، کیا مشرق وسطیٰ پھر دفن ہوگیا، کیا اسرائیلی مفادات کو اہمیت حاصل رہے گی! اور اب ایک اسرائیلی شہری امریکہ کے صدر کا رائٹ ہینڈ ہوگا، وہ فیصلہ کریگا کہ کون صدر اوباما سے ملاقات کرے، کون وہائٹ ہاؤس بلایا جائے اور کس کو وقت دیا جائے؟

دوسری طرف ایک اچھی اور دلچسپ بحث جاری ہے کہ ہلیری کلنٹن کو وزارت خارجہ کا منصب عطا کیا جائے! اچھی بلکہ بہت اچھی بات ہے۔ ہیلری کلنٹن گروپ اور اوباما گروپ میں ایک بار پھر دوستی ہوجائیگی۔ ہلیری ایک تجربہ کار خاتون ہیں اور امریکہ کی خاتون اوّل رہ چکی ہیں لہٰذا بحیثیت وزیر خارجہ وہ ایک بھرپور اور اہم کردار ادا کرسکتی ہیں مگر اس سے پہلے ان کو نامزد کیا جائے، یہ انکوائری ہورہی ہے کہ ان کے شوہر اور سابق صدر امریکہ بل کلنٹن جو تقاریر کرکے، کتابیں لکھ کر اور اہم مسائل کو حل کرنے میں جو کردار ادا کررہے ہیں اور ان کاموں کو کرکے جو پیسہ بنا رہے ہیں، وہ اخلاقی طور اور قانونی طور پر انکی بیوی ہلیری کلنٹن کے وزیر خارجہ نامزد ہونے میں حائل تو نہیں ہوگا! کہیں دونوں کے ”کام“ ایک دوسرے کو پیسہ بنانے یا کتابیں لکھنے میں ”طرفداری“کا شکار تو نہیں بنے گا!

یہ سب باتیں تیسری دنیا کے ممالک کے صاحب اقتدار یا عوام کیلئے اہم نہ ہوں مگر امریکہ کے عوام کیلئے بہت اہم ہیں لہٰذا اوباما کی ٹیم اس وقت تک ہلیری کلنٹن کی وزارت خارجہ کی نامزدگی کا اعلان نہیں کریگی جب تک ان کو سابق صدر بل کلنٹن کے صدارت کے بعد انہوں نے کس طرح ”پیسہ بنایا“ انکوائری مثبت انداز میں مکمل نہ ہوجائے۔

نومنتخب صدر ان دو تین ہفتوں میں اپنی کابینہ سازی مکمل کرلیں گے اور ان تمام مسائل کو جو ان کو ورثے میں مل رہے ہیں، ان کو حل کرنے کی پوری پوری کوشش کرینگے۔ ان کی کابینہ بتدریج مکمل ہورہی ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ سابق کلنٹن انتظامیہ کے تجربہ کار ڈیموکریٹ اور تھوڑے بہت ری پبلکن افراد کو بھی کابینہ میں شامل کرینگے۔ سابق امریکی چیف آف سٹاف ان آرمی جنرل کولن پاول جو کہ ری پبلکن ہیں، مگر انتخابات سے پہلے سنیٹر باراک اوباما کو Endorse کرچکے تھے، بہت امید کی جا رہی ہے کہ وہ وزیر دفاع یعنی پینٹاگون کے انچارج کا عہدہ سنبھالیں گے۔

امید ہے کہ نومنتخب صدر ایک اچھی اور منظم کابینہ بنانے میں کامیاب ہونگے۔ 20 یا 25 افراد کی ٹیم کو مضبوط اور سمارٹ کپتان کی صورت میں باراک اوباما مل چکے ہیں مگر مختلف صائب الرائے افراد کو اصل رابطہ چیف آف سٹاف راہم امینول ہی سے کرنا ہوگا۔ دیکھئے امریکہ کے خفیہ پروجیکٹ کب تک خفیہ رہتے ہیں۔

دوسری جانب اگر باراک اوباما اقتصادی مسائل کو قابو کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر یقینی طور پر ان کا منشور اور خاص طور پر داخلی منشور بھی لاگو ہوگیا تو ہم امریکہ کو ایک سپرپاور دوسری مرتبہ بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور اوباما کو ایک تاریخی صدر جو کہ امریکہ کو ایک اصل امریکہ جہاں سب اقوام کے ساتھ انصاف ہوگا، بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

بارک حسین اوباما اگر اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق دنیا میں واقعی مثبت اور خوشگوار تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں کیا کرنا ہوگا،اس کی ایک مختصر فہرست ممتاز برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے یوں پیش کی ہے ”: اوباما کو گوانتامو کا عقوبت خانہ بند کرنا ہوگا۔ انہیں اپنے پیش رَو کے جرائم پر دنیا سے معافی مانگنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اگرچہ یہ اس آدمی کے لیے آسان کام نہیں ہے جسے اپنے ملک کے حوالے سے لازماً فخر کا اظہار کرنا ہو۔تاہم جس تبدیلی کی وہ ملک کے اندر بات کررہے ہیں، اگرامریکاکی سرحدوں سے باہر بھی اسے کچھ بامعنی بنانا ہے تو بین الاقوامی سطح پر انہیں یہ معافی مانگنی ہوگی۔انہیں پوری وار آن ٹیرر کو ازسرنو سوچنا اور اسے جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔انہیں عراق سے نکلنا ہوگا۔ انہیں عراق میں دیوہیکل امریکی فضائی اڈوں اور چھ سو ملین کی لاگت سے بنائے جانے والے سفارتخانے کی تعمیر کو روکنا ہوگا۔ انہیں ان خونی فضائی حملوں کو ختم کرنا ہوگا جو پاکستان کی شمالی سرحدوں اور جنوبی وزیرستان میں امریکی و نیٹو افواج کررہی ہیں اور انہیں اسرائیل کو یہ داخلی حقائق بتانے ہوں گے کہ امریکا اسرائیلی افواج کی درندگی اور عرب سرزمین پر صرف اور صرف یہودیوں کی آبادکاری پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔اوباما کو بالآخر اسرائیلی لابی کے مقابلے میں اٹھنا ہوگا(جو درحقیقت اسرائیل کی لیکود پارٹی کی لابی ہے) اور 2004 ءمیں بش کی جانب سے مغربی کنارے کے اہم حصے پر اسرائیل کے دعوے کے تسلیم کیے جانے سے اظہار برات کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں امریکی حکومت کو ایرانی حکام اور حماس کے ذمہ داروں سے بات کرنا ہوگی اور اوباما کو پاکستان اور شام پر حملے بند کرانے ہوں گے۔ “

دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی معاشی بحران نے یورپ سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہےاور جرمنی و فرانس کا معاشی قلعہ بھی امریکی اقتصادی آندھی میں ڈھے چکا ہے۔ دنیا بھر میںاقتصادی صورتحال نے ہر مسئلہ پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔ مارکیٹ میں Panic پھیلی ہوئی ہے‘ بیروزگاری اور مہنگائی نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ یورپ اور امریکہ کی صورتحال بھی تیسری دنیا کے ممالک کی طرح ہوتی جا رہی ہے کلوراگا کے صدر نے امریکی معاشی بحران کا مذاق اٹھاتے ہوئے بڑا اچھا جملہ کہا ہے ”کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے امریکہ سے Dictation نہیں لیا ورنہ ہماری حالت بہت بری ہوتی۔ اب امریکہ کو چاہئے کہ وہ دوسرے ممالک کی معاشی پالیسی میں دخل انداز نہ ہو“۔
 
ہر ماہرمعاشی ماہر 1935ءکا Depression یاد دلا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ موجودہ Depression ہزاروں لوگوں کو لیکر ڈوبے گا

آج جو کچھ امریکہ میں ہو رہا ہے اسکا بیج گذشتہ چھ سالوں سے بویا جا رہا تھا۔ دنیا پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھنے والے اب دنیا کے سامنے شرمندہ ہیں۔ دنیا پر حکومت کرنے والے اب اپنے ملک پر حکومت کرنے کے بعد شرمندہ ہیں۔ خدا کے بھید خدا ہی جانے۔ مگر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان چند سالوں میں امریکہ جوکہ دنیا کا واحد سپر پاور ہے اسکا امیج اسکی عزت ‘ اس کا وقاراس کے اپنے رہنماؤں کی پالیسیوں کی وجہ سے زائل ہوتا جا رہا ہے اور نئے آنے والے صدر کو تقریباً ان حالات کو درست کرنے میں اتنا ہی عرصہ چاہئے جتنا کہ حالات کو خراب کرنے میں لگا ہے۔

امریکہ نے جتنی تیزی سے اپنا وقار کھویا ہے اب شاید اسکو بحال کرنے کے لئے آدھی صدی درکار ہے!دوسری طرف ایک اچھی اور دلچسپ بحث جاری ہے کہ ہلیری کلنٹن کو وزارت خارجہ کا منصب عطا کیا جائے! اچھی بلکہ بہت اچھی بات ہے۔ ہیلری کلنٹن گروپ اور اوباما گروپ میں ایک بار پھر دوستی ہوجائیگی۔ ہلیری ایک تجربہ کار خاتون ہیں اور امریکہ کی خاتون اوّل رہ چکی ہیں لہٰذا بحیثیت وزیر خارجہ وہ ایک بھرپور اور اہم کردار ادا کرسکتی ہیں مگر اس سے پہلے ان کو نامزد کیا جائے، یہ انکوائری ہورہی ہے کہ ان کے شوہر اور سابق صدر امریکہ بل کلنٹن جو تقاریر کرکے، کتابیں لکھ کر اور اہم مسائل کو حل کرنے میں جو کردار ادا کررہے ہیں اور ان کاموں کو کرکے جو پیسہ بنا رہے ہیں، وہ اخلاقی طور اور قانونی طور پر انکی بیوی ہلیری کلنٹن کے وزیر خارجہ نامزد ہونے میں حائل تو نہیں ہوگا! کہیں دونوں کے ”کام“ ایک دوسرے کو پیسہ بنانے یا کتابیں لکھنے میں ”طرفداری“کا شکار تو نہیں بنے گا!

یہ سب باتیں تیسری دنیا کے ممالک کے صاحب اقتدار یا عوام کیلئے اہم نہ ہوں مگر امریکہ کے عوام کیلئے بہت اہم ہیں لہٰذا اوباما کی ٹیم اس وقت تک ہلیری کلنٹن کی وزارت خارجہ کی نامزدگی کا اعلان نہیں کریگی جب تک ان کو سابق صدر بل کلنٹن کے صدارت کے بعد انہوں نے کس طرح ”پیسہ بنایا“ انکوائری مثبت انداز میں مکمل نہ ہوجائے۔

نومنتخب صدر ان دو تین ہفتوں میں اپنی کابینہ سازی مکمل کرلیں گے اور ان تمام مسائل کو جو ان کو ورثے میں مل رہے ہیں، ان کو حل کرنے کی پوری پوری کوشش کرینگے۔ ان کی کابینہ بتدریج مکمل ہورہی ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ سابق کلنٹن انتظامیہ کے تجربہ کار ڈیموکریٹ اور تھوڑے بہت ری پبلکن افراد کو بھی کابینہ میں شامل کرینگے۔ سابق امریکی چیف آف سٹاف ان آرمی جنرل کولن پاول جو کہ ری پبلکن ہیں، مگر انتخابات سے پہلے سنیٹر باراک اوباما کو Endorse کرچکے تھے، بہت امید کی جا رہی ہے کہ وہ وزیر دفاع یعنی پینٹاگون کے انچارج کا عہدہ سنبھالیں گے۔

امید ہے کہ نومنتخب صدر ایک اچھی اور منظم کابینہ بنانے میں کامیاب ہونگے۔ 20 یا 25 افراد کی ٹیم کو مضبوط اور سمارٹ کپتان کی صورت میں باراک اوباما مل چکے ہیں مگر مختلف صائب الرائے افراد کو اصل رابطہ چیف آف سٹاف راہم امینول ہی سے کرنا ہوگا۔ دیکھئے امریکہ کے خفیہ پروجیکٹ کب تک خفیہ رہتے ہیں۔

دوسری جانب اگر باراک اوباما اقتصادی مسائل کو قابو کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر یقینی طور پر ان کا منشور اور خاص طور پر داخلی منشور بھی لاگو ہوگیا تو ہم امریکہ کو ایک سپرپاور دوسری مرتبہ بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور اوباما کو ایک تاریخی صدر جو کہ امریکہ کو ایک اصل امریکہ جہاں سب اقوام کے ساتھ انصاف ہوگا، بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

بارک حسین اوباما اگر اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق دنیا میں واقعی مثبت اور خوشگوار تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں کیا کرنا ہوگا،اس کی ایک مختصر فہرست ممتاز برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے یوں پیش کی ہے ”: اوباما کو گوانتامو کا عقوبت خانہ بند کرنا ہوگا۔ انہیں اپنے پیش رَو کے جرائم پر دنیا سے معافی مانگنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اگرچہ یہ اس آدمی کے لیے آسان کام نہیں ہے جسے اپنے ملک کے حوالے سے لازماً فخر کا اظہار کرنا ہو۔تاہم جس تبدیلی کی وہ ملک کے اندر بات کررہے ہیں، اگرامریکاکی سرحدوں سے باہر بھی اسے کچھ بامعنی بنانا ہے تو بین الاقوامی سطح پر انہیں یہ معافی مانگنی ہوگی۔انہیں پوری وار آن ٹیرر کو ازسرنو سوچنا اور اسے جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔انہیں عراق سے نکلنا ہوگا۔ انہیں عراق میں دیوہیکل امریکی فضائی اڈوں اور چھ سو ملین کی لاگت سے بنائے جانے والے سفارتخانے کی تعمیر کو روکنا ہوگا۔ انہیں ان خونی فضائی حملوں کو ختم کرنا ہوگا جو پاکستان کی شمالی سرحدوں اور جنوبی وزیرستان میں امریکی و نیٹو افواج کررہی ہیں اور انہیں اسرائیل کو یہ داخلی حقائق بتانے ہوں گے کہ امریکا اسرائیلی افواج کی درندگی اور عرب سرزمین پر صرف اور صرف یہودیوں کی آبادکاری پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔اوباما کو بالآخر اسرائیلی لابی کے مقابلے میں اٹھنا ہوگا(جو درحقیقت اسرائیل کی لیکود پارٹی کی لابی ہے) اور 2004 ءمیں بش کی جانب سے مغربی کنارے کے اہم حصے پر اسرائیل کے دعوے کے تسلیم کیے جانے سے اظہار برا ¿ت کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں امریکی حکومت کو ایرانی حکام اور حماس کے ذمہ داروں سے بات کرنا ہوگی اور اوباما کو پاکستان اور شام پر حملے بند کرانے ہوں گے۔ “

دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی معاشی بحران نے یورپ سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہےاور جرمنی و فرانس کا معاشی قلعہ بھی امریکی اقتصادی آندھی میں ڈھے چکا ہے۔ دنیا بھر میںاقتصادی صورتحال نے ہر مسئلہ پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔ مارکیٹ میں PANIC پھیلی ہوئی ہے‘ بیروزگاری اور مہنگائی نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ یورپ اور امریکہ کی صورتحال بھی تیسری دنیا کے ممالک کی طرح ہوتی جا رہی ہے کلوراگا کے صدر نے امریکی معاشی بحران کا مذاق اٹھاتے ہوئے بڑا اچھا جملہ کہا ہے ”کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے امریکہ سے Dictation نہیں لیا ورنہ ہماری حالت بہت بری ہوتی۔ اب امریکہ کو چاہئے کہ وہ دوسرے ممالک کی معاشی پالیسی میں دخل انداز نہ ہو“۔
ہر ماہرمعاشی ماہر 1935ءکا DEPRESSION یاد دلا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ موجودہ DEPRESSION ہزاروں لوگوں کو لیکر ڈوبے گا!

آج جو کچھ امریکہ میں ہو رہا ہے اسکا بیج گذشتہ چھ سالوں سے بویا جا رہا تھا۔ دنیا پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھنے والے اب دنیا کے سامنے شرمندہ ہیں۔ دنیا پر حکومت کرنے والے اب اپنے ملک پر حکومت کرنے کے بعد شرمندہ ہیں۔ خدا کے بھید خدا ہی جانے۔ مگر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان چند سالوں میں امریکہ جوکہ دنیا کا واحد سپر پاور ہے اسکا امیج اسکی عزت ‘ اس کا وقاراس کے اپنے رہنماؤں کی پالیسیوں کی وجہ سے زائل ہوتا جا رہا ہے اور نئے آنے والے صدر کو تقریباً ان حالات کو درست کرنے میں اتنا ہی عرصہ چاہئے جتنا کہ حالات کو خراب کرنے میں لگا ہے۔

امریکہ نے جتنی تیزی سے اپنا وقار کھویا ہے اب شاید اسکو بحال کرنے کے لئے آدھی صدی درکار ہے

Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 5 Articles with 4445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.