دور جدید کا ہر کام تقریباً
انٹرنیٹ کے ذریعے سے ہورہا ہے بلکہ یوں کہنا بجانہ ہوگا کہ ہر کام میں انٹر
نیٹ کا دخل ہے ۔ اب آیا یہ انٹرنیٹ کہاں تک فائدہ مند ہے اور کہا ں تک
نقصان دہ ۔ یہ تو اک لازمی امر ہے کہ نیکی کے مقابلے میں گناہوں کی نحوست
بہت ہی زیادہ ہوتی ہے۔ برُے لوگوں کی وجہ سے نیک لوگ بھی اُ ن کی نحوست کا
شکار ہوکر برائی کی راہ پے آجاتے ہیں۔ انٹرنیٹ جہاں تک ہمارے لئے نافع ہے
اتنا ہی ہمارے معاشرے کے لئے مضر ہے ۔ انٹرنیٹ کا استعمال نصف فیصد تک ٹھیک
اور نصف فیصد تک غلط ہوتا ہے ہماری نوجوان نسل تو اس میں اتنی گہرائی تک جا
چکے ہیں کہ ان کے لئے اب واپس آنا نا ممکن سا ہوگیا ہے بہت سوں نے تو اپنی
زندگیاں ہی برباد کرلی ہیں ۔پہلے تو یہ وبا شاذ و نادر جگہوں پر ہی پھیلی
ہوئی تھی لیکن اب تو محلے کے کونے کونے میں نیٹ کیفوں کی بدولت یہ وبا عام
ہو چکی ہے۔ اور تو اور کچھ نیٹ کیفوں میں تو کھلم کھلا صرف یہی بے ہودہ
چیزیں ہی ہوتی ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلامی ملک ہونے کے ناطے یہاں وہ تمام چیزیں
جو ایک اسلامی معاشرے کے لئے نقصان دہ ہو ان چیزوں پر مکمل طور پر پابندی
ہونی چاہئے۔ ایک سرے کے مطابق دنیا میں بے ہودہ اور غیر اخلاقی ویب سائٹس
دیکھنے والے ممالک میں انڈیا پہلے اور پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ تو غیر
مسلم قوتوں کی چالیں ہیں جس میں وہ کامیاب ہوچکے ہیں اور ہورہیں ہیں ۔ وہ
اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک پاکستان کو صرف برائے نام ہی رکھنا چاہتے
ہیں ۔ اور وہ آپ کے سامنے ہے کہ ہم کہاں کے مسلمان ہیں نام کے؟ یا کام کے؟
انٹرنیٹ پر بعض سائٹس پر تو کافی معلومات فراہم کی جاتی ہیں لیکن ان میں
بھی بعض ایڈز ایسے ہوتے ہیں کہ اس پر صرف کلک کرنے کی دیر ہوتی ہے باقی
وہاں سب کچھ خود بخود ہو تا چلاجائے گا اور بعض مرتبہ اس سائٹ پر ایسی
پروگرامنگ ہوئی ہوتی ہے کہ اس کو بند کرنے پر بھی خود بخود دوبارہ کھل جاتی
ہے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک معلوماتی ویب سائٹس میں ایسے ایڈ کا کیا
کام جو انسانیت کے لئے مضر ہو۔ بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں بلکہ میں تو
یوں کہوں گا کہ بعض ایسے متقی و پرہیزگار لوگ بھی اب اپنے متقی اور پرہیز
گاری کو کھو چکے ہیں ۔ پہلے تو وہ انٹرنیٹ کو صرف اچھے کاموں کے لئے
استعمال کرتے تھے لیکن بعدمیں آہستہ آہستہ وہ اس گناہوں کی دلدل میں پھنس
جاتے ہیں اور دوبارہ ان کو وہاں سے نکلنا مشکل ہوجاتاہے۔
کچھ دن پہلے کی بات ہے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ایک ویب سائٹ کھولی تو
کچھ دیر بعد اس صفحہ پر ایک ایڈ جگمگارہا تھا میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس
پر کلک کیا ۔ پھر میں نے کیا دیکھا کہ خدا کی پناہ اب تک اِ س بات پر
شرمندہ ہوں اور بار بار توبہ کر رہا ہوں۔یہ بات ان لوگوں کو بھی ذہن نشین
کر لینی چاہئے جو گھروں میں انٹرنیٹ لگا کراپنے اولاد سے بے فکر ہوجاتے ہیں
۔ وہ انٹرنیٹ پر کیا کرتے ہیں ان کی خبر گیری نہیں کرتے اسی طرح یہ بچے بھی
ان غیر اخلاقی برائی میں گر کر وقت سے پہلے ہی جوان ہونے کی کوشش کرتے ہیں
۔
انٹرنیٹ کے فوائد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن اسکے استعمال کرنے کی بھی
ایک حد ہونی چاہئے اور جو اسے استعمال کر رہا ہوتو خدار ا اس کی نگرانی کی
جائے اور انٹرنیٹ کے برے پہلوﺅں کو اسے ذہن نشین کرائے اور اس برائی کو
نحوست کو ختم کرنے کے لئے ہر ایک دل میں یہ عزم کرے کہ خواہ کچھ بھی ہواس
برائی کو ختم کرینگے ۔ اگر ہر ایک اسی طرح دل میں یہ عزم کرلے تو ان
شاءاﷲوہ دن دور نہیں جب غیرمسلموں کی چالوں اور سازشوں کو پیروں تلے روندھا
جائےگا۔
ایک گزارش اُ ن اداروں سے بھی کروں گا جو انٹرنیٹ چلانے والے ہیں کہ
خداراکچھ فکر اس جانب بھی کرو کہ اسلامی معاشرہ غلط راہ پر چل نکلا ہے ،
اسے روکو، جتنے بھی غیر اخلاقی ویب سائٹس اور دوسری چیزیں ہیں ان پر پابند
لگادی جائے تاکہ ہمارے نوجوان اور آنے والی نسل اس برائی سے محفوظ ہوجائے
اور ملک میں ایک اسلامی معاشرہ قائم ہوسکے ۔ |