تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان
نے 22جنوری کو سرگودھا میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جہاں اپنے مخالفین پر
تنقید کی اور ملک سے 90روز میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کیا ،اس کے ساتھ
ساتھ ہی انہوں نے اپنے مستقبل کے ارادوں سے بھی قوم کو آگاہ کیا اور انہوں
نے کہا کہ ” بھارت سے برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں مسئلہ کشمیر کا
حل سیاسی ہے فوجی نہیں،اقتدار میں آکر بھارت کے خلاف دہشت گردی ختم کرادوں
گا ، پاکستانی سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہونی چا ہئے۔“
قارئین کرام بھارت سے برابری کی بنیاد پر تعلقات ہونے چاہئیں اس میں کوئی
شک نہیں ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل بھی پر امن طریقے سے ڈھونڈنا چاہئے لیکن
خان صاحب نے یہ کیا کہہ دیا کہ ”اقتدار میں آکر بھارت کے خلاف دہشت گردی
ختم کرادوں گا ، پاکستانی سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہونی چا
ہئے“کیا عمران خان صاحب غاصب قوتوں کے خلاف جہاد کو دہشت گردی اور مجاہدین
و حریت پسندوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں؟ اور ان کی باتوں کا مطلب یہ نکلتا
ہے کہ اب تک پاکستان کی سرزمین بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال
ہوتی رہی ہے۔
قارئین کرام یہ جملے نئے تو نہیں ہیں بلکہ یہی باتیں ،یہی پالیسی سابق صدر
جنرل (ر) پرویز مشرف کی بھی تھی ۔حیرت انگیز بات ہے کہ عمران خان جنرل مشرف
کے بہت بڑے ناقد بنتے ہیں ہیں لیکن ان ہی کی پالیسیز کو اپناتے جارہے ہیں۔
یہی باتیں،یہی جملے،یہی پالیسی تو جنرل مشرف کی بھی تھی ۔
آج سے ٹھیک ایک ماہ قبل ہم نے ایک مضمون ”عمران خان کا انقلاب:حقیقت یا
ٹوپی ڈرامہ “ کے نام سے لکھا تو یہ مضمون 23دسمبر کو آن لائن ہوا تھا۔ اس
میں ہم نے کچھ باتیں کہی تھیں جن پر عمران خان صاحب کے حامیوں نے بہت شدید
ردعمل کا اظہار کیا تھا۔کرنا بھی چاہئے کیوں کہ کوئی فرد اپنے لیڈر،اپنی
پارٹی کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہیں کرے گا۔بہر حال ہم نے اس مضمون میں
لکھا تھا کہ ”نمبر تین یہ کہ مشرف اور دیگر سیاسی جماعتوں پر عمران خان کی
تنقید محض ایک ڈھکوسلا ہے وقت آنے پر یہ بھی جنرل مشرف ہی کی پالیسیوں کو
بر قرار رکھیں گے اور چوتھی بات کہ یہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تنقید
کرتے ہیں وہ بھی وقت آنے پر غلط ثابت ہوگی اور لگتا یہ ہے کہ فی الحال
چونکہ ان کے پاس اقتدار نہیں ہے اس لئے وہ ان ایشوز پر عوامی امنگوں کے
مطابق بات کررہے ہیں لیکن حالات یہ بتا رہے ہیں کہ اقتدار ملنے پر یہ اپنے
اس موقف سے بھی پلٹ جائیں گے۔ شواہد اور حالات یہ بتا رہے ہیں کہ ن لیگ، ق
لیگ، پی پی پی ،متحدہ اور عمران خان کی تحریک انصاف میں کوئی فرق نہیں رہے
گا۔ ہاں انقلاب کے جھوٹے نعرے ضرور لگائے جاسکتے ہیں۔“
قارئین کرام غور کیجئے کہ ہمارا اندازہ غلط نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ ان کا
مطلب و مقصد کچھ اور ہو لیکن بادی النظر میں انہوں نے جنرل مشرف کی پالیسیز
کو ہی برقرار رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی جنگ آزادی کو دہشت گردی اور
مجاہدین کو دہشت گرد کہہ دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی سرزمین کو
انڈیا کے خلاف دہشت گردی کا مرکز بنا دیا ہے۔تو اس طرح عمران خان صاحب کے
انقلاب اور سونامی کی حقیقت آہستہ آہستہ کھلتی جارہی ہے،اس انقلاب کے چہرے
سے نقاب اترتی جارہی ہے۔
ہم نے اس وقت بھی ایک بات کہی تھی آج پھر وہی بات کررہے ہیں کہ ”انقلاب وہی
کامیاب اور حقیقی انقلاب ہوگا جو دین سے دوری نہیں بلکہ دین سے جڑا ہوا
ہوگا،وہ انقلاب جس کی قیادت واقعتاً مخلص اور دین دار ہوگی۔ وہ انقلاب جس
کا رابطہ دنیا بھر کی تحریکوں سے جڑا ہوا ہوگا۔ وگرنہ یہ انقلاب کے نعرے
لگتے رہیں گے اور وقتی طور پر ایسا لگے گا کہ واقعی انقلاب آبھی چکا ہے
لیکن مفادات کے تحت اکٹھے ہونے والے کبھی انقلاب نہیں لاسکتے، ہاں وقتی طور
پر ایک ہلچل ضرور مچا سکتے ہیں اور یہ عناصر جب دیکھیں گے کہ مفادات پورے
نہیں ہورہے تو پھر کسی طرف نکل جائیں گے۔ انقلاب آئے گا اور کامیاب بھی
ہوگا لیکن صرف اسلامی انقلاب اور کوئی انقلاب نہیں-“
بظاہر حالات بہت حوصلہ شکن ہیں لیکن ہم اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہیں،یہ
انقلاب آئے ہماری زندگی میں نہ سہی لیکن آئے گا ضرور ،مصر میں پچاس سال سے
زائد عرصے تک اخوان المسلمون اور دیگر مذہبی جماعتوں کو کارنرکیا جاتا رہا
لیکن جب جبر کے بادل چھٹے،عوام کو حقیقتاً اپنی رائے دینے کی آزادی دی گئی
تو وہاں کے انتخابات میں اخوان المسلمون نے پچاس فیصد سے زیادہ نشستیں حاصل
کرلی ہیں اور سلفی جماعت نے بیس فیصد سے زائد نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ وہ
سیکولر ازم،وہ لادینی سیاست جو وہاں کے عوام پر جبراً مسلط تھی اب وہ نہیں
ہے۔ انشا ءاللہ یہاں بھی ایسا ہوگا۔ جب مافیاز کا زور ٹوٹے گا،جب جبر کے
کالے بادل چھٹیں گے۔جب پولنگ اسٹیشنز کو یرغمال نہیں بنایا جاسکے گا اور
عوام کو حقیقتاً اپنی رائے کی آزادی میسر آئے گی تو یہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔
انشا ءاللہ |