اس سال یوم جمہوریہ کے موقع پر
ترنگا جھنڈا قومی دیہی صحت مشن کی بدعنوانی کے ڈنڈے پر لہرایا جائیگا۔ اتر
پردیش کے انتخاب میں کانگریس پارٹی اس لاٹھی سے اپنے تینوں حریفوں کی جم کر
دھنائی کرے گی ۔کانگریس پارٹی پر بجا طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس
نے ایوانِ بالا میں جان بوجھ کر منصوبہ بند طریقے پر لوک پال بل کو پاس
ہونے نہیں دیا اس طرح گویا بدعنوانی کے خلاف بننے والے قانون کو روک کر
کرپشن کی حمایت کی ۔ اپنی جانب سے توجہ ہٹانے اور مایا وتی کو گھیرنے کی
خاطر کانگریس پارٹی نے این ایچ آر ایم کی بدعنوانی سے متعلق کنٹرولر جنرل
کی رپورٹ شائع کروا دی جس کے مطابق پانچ ہزار سات سوپچاس کروڑ روپئے کا
کوئی حساب کتاب نہیں پایا جاتا۔ مایا وتی نے اس سے پیچھا چھڑانے کی خاطر
وزیرِصحت بابو سنگھ خشواہا کو برخواست کردیا لیکن بی جے پی کی مت ماری گئی
جو اس نے خشواہا کو اپنی پارٹی میں لے لیا اور اس حقیقت کو بھول گئے کہ یہ
وہی صاحب ہیں جن کے خلاف ان کے ایم پی کیرٹ سومیا نے چند روز قبل۱۵۰۰ صفحات
پر مشتمل بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے ۔اس خبر نے کانگریس کے وارے نیارے
کر دئیے اس لئے کہ اپنی اس حماقت سے بی جے پی نے خود اپنے ہی پیروں پر
کلہاڑی مارنے کا کام کر دیا ۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ بی جے پی کی ریاستی شاخ نے یہ کارنامہ اسی دن کیا جب
ان کے ممبران پارلیمان بدعنوانی اور لوک پال کا رونا لے کر کانگریس کے خلاف
مگر مچھ کے آنسو بہانے کی خاطرایوان صدارت پر دستک دے رہے تھے ۔اس ناٹک کے
بعدراشٹر پتی بھون کے آنگن میں جب اخبار نویسوں نے بابو سنگھ خشواہا کے
متعلق سوال کیا تو اڈوانی اور جیٹلی دونوں کو منہ چھپا کر بھاگنے کے سوا
کوئی چارۂ کار نہ رہا ۔خیر اب کانگریس نے مزید طول دے کر سماجوادی پارٹی
کو بھی اس معاملےمیں گھسیٹ لیا ہے ۔اس پر بھی اپنے دور اقتدار میں ہزار
کروڑ سے زیادہ کا معاملہ بنتا ہے گویااب مایا ،اوما اورملائم سب اسکی لپیٹ
میں آگئےہیں۔اس کے علاوہ مسلمانوں کیلئے سلمان خورشید کے ذریعہ ریزرویشن
کا گاجر ایسے وقت میں دکھلایا گیا کہ الکشن کمیشن اسے باآسانی چھین لیا
گویا دیا بھی اور نہیں بھی ۔ فی الحال اتر پردیش کے اندر ۱۹ فی صد مسلم
آبادی کانگریس کیلئے امید کی ایک کرن بنی ہوئی ہے ۔اجیت سنگھ کوساتھ لے کر
مغربی یو پی کے جاٹوں کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا گیا ہے، ایک زمانہ تھا کہ
جاٹ ووٹ کے کئی دعویدار ہوا کرتے تھے لیکن اب حالت یہ ہے کہ یوپی میں اجیت
اور ہریانہ میں چوٹالہ کے سوا کسی کا نام ہی سنائی نہیں دیتا گویا اتر پر
دیش کے الکشن میں اس بار کانگریس نے اپنے پتے بڑی ہو شیاری کے ساتھ کھیلے
ہیں ۔
کانگریس پارٹی کیلئے اتر پر دیش اس قدر اہم نہیں ہے جتنا کہ نہرو گاندھی
خاندان کیلئے ہے ۔ یہ حقیقت ہے الہ باد ہائی کورٹ سے اندرا گاندھی کے مقدمے
کا کالعدم قرار دیا جانا ہی ایمر جنسی کا اصلی سبب تھا جس کے باعث پہلی بار
کانگریس اور اندرا جی کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا ۔ اسی کے ساتھ یہ حسنِ
اتفاق ہے کہ جب سےوی پی سنگھ نے کانگریس کو یو پی سے دیس نکالا دیا کانگریس
دوبارہ مرکز میں اقتدار پر تو آئی لیکن نہرو گاندھی خاندان کے حصے میں
وزارتِ عظمیٰ کی کرسی نہیں آئی ۔ باوجود اس کے کہ رائے بریلی اور امیٹھی
کے حلقۂ انتخاب سے یہ لوگ کامیاب ہوتے رہے لیکن دوسرے مقامات سے ان کا
صفایا ہوتا رہا ۔۲۰۰۷ کے اسمبلی انتخابات میں جہاں بہوجن سماج پارٹی ۲۰۶
سیٹوں پر کامیاب ہوکر اول نمبر پر آئی وہیں سماجوادی کو اس سے تقریباً نصف
۹۷ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا بی جے پی اس سے بھی نصف یعنی ۵۱ مقامات پر اپنی
جیت درج کروا سکی اور تیسرے نمبر پر آئی ۔ کانگریس کی نشستیں گئی گزری بی
جےپی سے بھی آدھی یعنی ۲۲ تھیں اور اجیت سنگھ اس سے نصف ۱۰ نشستوں پر
کامیاب ہو سکے تھے ۔ گویا ہر دو جماعت کے درمیان لگ بھگ پچاس فی صد نشستوں
کا فرق تھا۔ ان اعداو شمار نے سارے تجزیہ نگاروں کو حیرت زدہ کر دیا تھا
لیکن کانگریس اور اجیت سنگھ کے نتائج بعینہ ٰتوقع کے مطابق تھے لیکن ۲۰۰۹
کے پارلیمانی انتخاب میں ایک اور چمتکار ہو گیا چوتھے نمبر کی کانگریس
چھلانگ لگا کر اول نمبر کی سماجوادی کے برابر ہوگئی اور دونوں نے ۲۲ نشستوں
پر کامیابی درج کروائی ۔تیسرے نمبر پر پی ایس پی تھی جسے تقریباً اتنی ہی
یعنی ۲۰ سیٹیں ملی تھیں لیکن بی جے پی نے بڑی مشکل سے دہائی کے عدد میں قدم
رکھا اور نصف یعنی دس نشسیں جیتیں اس سے نصف آر ایل ڈی تھی جسے پانچ
کامیابیاں ملیں ۔
اتفاق سے یہ انقلاب ایسے وقت میں آیا جب گاندھی خاندان کے چشم و چراغ راہل
گاندھی سنِ رشد کو پہنچ گئے تھے گویا اگر اس بار یوپی کانگریس اپنے بل بوتے
پر اقتدرا میں نہ بھی آئے مگر سماجوادی یا بہوجن کی مخلوط حکومت میں شامل
بھی ہوجائے تو اگلے انتخاب سے قبل وزیر اعظم منموہن کو ریٹائر ہونے کا نادر
موقع ہاتھ آجائیگا اور وہ راہل کے سر پر تاج رکھ کر خود سنیاس آشرم میں
چلے جائیں گے ۔ آئے دن مرکزی وزراء کے خلاف لگنے والے بدعنوانی کے الزامات
اور فوج کے ساتھ جاری ان بن کے چلتے منموہن کیلئے اپنا راستہ ناپنے کااس سے
زیادہ بہتر موقع کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ وزیر
داخلہ کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ پر بھی بدعنوانی کے معاملات عدالت کی چوکھٹ
پر دستک دے رہے ہیں ۔بیرونی سرمایہ کاری کے معاملے میں وزیر خزانہ کو رسوا
ہونا پڑا تو کمانڈران چیف کے ریٹائر منٹ پر وزیر دفاع بغلیں جھانک رہے ہیں
لوک پال بل کے معاملے خود کانگریس اور اس کے حامیوں کی لوک سبھا سے غیر
حاضری نیز راجیہ سبھا میں رچائے گئےاوچھے ڈرامے کی سرپرستی اس وزیر اعظم
کیلئے شرمناک ہے جس نے یوم آزادی کے موقع پر لال قلع کی دیوار پر کھڑے ہو
کر قوم کو ایک طاقتور لوک پال بل دے کر بدعنوانی پر لگام لگانے کا وعدہ کیا
تھا ۔ یوم ِ جمہوریہ کے موقع پر یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم کی
اس تقریر کو یاد کر لیا جائے جس میں انہوں نے سب سے زیادہ وقت بدعنوانی پر
صرف کیا تھا ۔
ڈاکٹرمنموہن سنگھ ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں علم معاشیات میں انہوں نے
ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اوروہ نہ صرف وزیر خزانہ بلکہ عالمی بنک کے
گورنر بھی رہے ہیں اس لئے انہوں نے اس موضوع پر اپنی گفتگو کا آغاز بڑے
عالمانہ انداز میں کیا اور قوم کی کامیابیوں کو بیان کرنے کے بعد بولے یہ
کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔آج دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ ہم میں عالمی
سطح ایک بڑی معاشی طاقت بننے کی صلاحیت موجود ہے لیکن اس تبدیلی میں
بدعنوانی ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔گزشتہ چند ماہ کے اندر بدعنوانی کے بڑے معاملات
روشنی میں آئے ہیں جن کے اندر مرکز و ریاستی حکام ملوث ہیں ہم ان پر سخت
ترین کارروائی کریں گے ۔اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ مختلف بدعنوان لوگ جو
یومِ آزادی کے وقت تہاڑ جیل میں بند تھے ضمانت پر رہا کر دئیے گئے ہیں ۔
چندمبرم کو سی بی آئی نے کلین چٹ دے دی اور کرشنا کے بارے میں بھی یہی
امکان ہے ۔ اس پر یہ اعتماد کے ہمیں دنیا کو کو یقین دلانا چاہئے کہ اس
بدعنوانی کے آسیب کو ہم قابو میں کر سکتے ہیں مضحکہ خیز لگتا ہے ۔ وزیر
اعظم نے اس کے بعد بدعنوانی کی کئی قسمیں بتلائیں جن میں سرِ فہرست عوامی
فلاح وبہبود کی رقوم کا حکام کی جیب میں چلا جانا تھا اور اسکی واضح ترین
مثال قومی دیہی صحت کمیشن گھوٹالہ ہے ۔ دیہات کے غریب لوگ طبی سہولتوں کے
بغیر ایڑیاں رگڑ رگڑکر دم توڑ رہے ہیں اور ان کے نام نہاد نمائندے نہایت بے
حیائی کے ساتھ جمہوریت کے نام پر ان کا جامِ صحت نوش فرما رہے ہیں ۔
وزیر اعظم نے اعتراف کیا تھا کہ کسی ایک اقدام سے بدعنوانی کا خاتمہ ممکن
نہیں ہے بلکہ اس کیلئے بیک وقت کئی محاذ پر متعدد اقدا مات کرنے ہوں گے اور
ان میں سے سب سے اہم نظام عدالت میں بہتری ہے ۔اگر بدعنوان افسران کو پتہ
چل جائے کہ ان کوجلد سزا ہو سکتی ہے تو وہ حرص وہوس یا سارسی دباو کت تحت
غلط کام کرنے سے قبل دو بار سوچیں گے ۔اس گفتگو میں ساری توجہ سرکاری
افسران کی بدعنوانی پر مرکوز رہی لیکن جو سیاستداں ان پر دباو ڈالتے ہیں یا
انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں نیز خود سر سے پیر تک بدعنوانی میں ملوث ہیں ان
کے بارے میں وزیر اعظم نے لب کشائی کی زحمت نہیں کی ۔انہوں نے یہ ضرور کہا
کہ اعلیٰ مقامات کی بدعنوانی پر لگام لگانے کی خاطر ہم لوک پال بل لاچکے
ہیں جس پر فیصلہ صرف پارلیمان کر سکتی ہے ۔ جو حضرات اس بل کی تفصیلات سے
اتفاق نہیں کرتے وہ اپنےاختلاف کا اظہار ایوان،سیاسی جماعتوں اور ذرائع
ابلاغ میں کر سکتے ہیں لیکن انہیں بھوک ہڑتال نہیں کرنی چاہئے۔ اس موقع پر
چند سوالات نہایت اہم ہیں:
•وہ ایوان سیاست جس کے پاس الہامی معیار ِحق نہ ہو کیا کوئی ایسا قانون بنا
سکتا ہے جس سے خوداس کی اپنی جڑیں کمزور ہوتی ہوں ؟ اس لئے کہ ایوان
پارلیمان میں منتخب ہونے کیلئے جس دولت کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے اس کا
بیشتر حصہ بدعنوانی کے راستے سے آتا ہے ۔
•اگر ایوان پارلیمان کے ارکان کے دلوں میں اپنے سے زیادہ طاقتور خالق و
مالک کے سامنے جوابدہی کا عقیدہ و احساس نہ ہو تو کیا ان کیلئے بدعنوانی سے
اپنے آپ کو روکنا ممکن ہے ؟
•ایسے میں لوک پال کے قانون کا وہی حشر ہوگا جو گزشتہ پارلیمانی اجلاس میں
ہوا نیز اگر خدا نخوا ستہ کوئی لوک پال آبھی جائے تو وہ کیا کر لے گا؟
ہندوستان میں الکشن کشنرک موجود ہے کیاوہ انتخابی بدعنوانی پر روک لگا سکا
ہے؟ آڈیٹر جنرل آئے دن نت نئے گھوٹالوں کا انکشاف کرتے رہتے ہیں لیکن کیا
اس سے یہ سلسلہ رک رہا ہے ؟
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں جو ممکن ہے لال قلعہ سے ان کی آخری تقریر ہو
بدعنوانی کے خاتمے کیلئے کئی قوانین بنانے کے اپنے عزم کو دوہرایا لیکن آج
ہمارا مسئلہ قانون کی کمی کا نہیں ان پر عملدرآمد میں کوتاہی کا ہے جب تک
اس پر توجہ نہیں کی جاتی قوانین بنتے رہیں گے اور ٹوٹتے رہیں گے بقول شاعر:
جامِ مئے توبہ شکن توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
اس باب وزیر اعظم نے اعتراف کیا تھا کہ ہمارے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں
تمام سیاستدانوں کو اس کیلئے متحد ہونا پڑے گا سو تو ہوا سب نے مل جل کر
لوک پال کو ٹھکانے لگا دیا انہوں نے بدعنوانی کے خلاف جنگ میں ہر شہری کو
شامل ہونے کی دعوت دی لیکن یہ جنگ آخر عوام لڑیں گے کس کے خلاف؟ کیا یہ
جہاد ان جمہوری بتوں کے خلاف ہوگا جو بدعنوانی کا سر چشمہ ہیں مگر اس کے
باوجودجمہوری نظام سیاست نے انھیں تقدس کے ایسے مقام پر بٹھا دیا گیا ہے کہ
ان کی جانب نگاہ ِغلط انداز بھی گناہ کبیرہ سے کم نہیں ہے ۔
سنا ہےمغلوں کے زمانے میں ہندوستان سونے کی چڑیا ہوا کرتے تھے پھر انگریزوں
نے اپنے غلامی کے دام ہندوستانیوں کو ایسا پھنسایا کہ وہ میاں مٹھو بن
گئے۔اپنے آقا کی ہر بات پر ہاں جی ہاں جی کرنا اور سرخ امرود سے اپنی چونچ
لال کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہو گیا۔مگر جب اس طوطے نے دیکھا کہ جنگ عظیم
میں ہٹلرنے اس کے عظیم آقا کی حالت پتلی کردی ہے تو اول تو اس نے آنکھیں
پھیر لیں اور آگے چل کر آنکھیں دکھلانے لگا۔ انگریز بھی جہاں بانی سے تنگ
آچکے تھے ان کا اپنا ملک ان سے سنبھل نہیں پارہا تھا اس لئے ۱۵ اگست۱۹۴۷
کو وہ اس سونے کے انڈے کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اس انڈے کو ستائیس ماہ
سینکنے کے بعد اس میں سے جمہوریت کا چوزہ برآمد ہوا تو یاد آیا کہ دوماہ
بعد یعنی ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ کو لاہور میں کئے گئے مکمل انقلاب کی بیسویں سالگرہ
ہے اس لئے فیصلہ کیا گیا نومولود دستور کو مزید دوماہ کیلئے موقوف کر دیا
جائے اور جس انگریز بادشاہ غلامی سو سال تک برداشت کر رہے ہیں اسے دو ماہ
اور سہا جائےاس طرح ایک اور قومی تہوارہندوستان کی عوام کو میسر آگیا ۔ اب
ان کے پاس آزادی و جمہوریت کے نام پر دو عدد قومی تعطیلات رہ گئیں باقی سب
کچھ ان کے نمائندوں کی جانب منتقل ہو گیا ۔
یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے سیاستدانوں نے بد عنوانی کا آغاز کرنے
کیلئے دستورہند کے نفاذ کا انتظار تک نہیں کیا اور۱۹۴۸ہی میں فوج کی خاطر
کئے گئے جیپ کے سودےمیں بدعنوانی کے الزامات سامنے آگئے ۔برطانیہ میں
ہندوستان کے ہائی کمشنر وی کرشنا مینن نے ۸۰ لاکھ کے اس سودے پر دستخط کرنے
کیلئے سرکاری ضابطے کو پامال کیا ۱۹۵۵ میں اس کیس کو حکومت نے بند کردیا
اور کرشنا مینن وزارت کا حلف اٹھا لیا۔کرشنا مینن تو خیر بڑے آدمی تھے سزا
سے بھی بچے رہے اور وزیر بھی بن گئے لیکن وزارت صنعت و حرفت کے سکریٹری
وینکٹ رمن نے ۱۹۵۱ میں سائیکل کی خرید میں رشوت لی اور انہیں سزا سنائی
گئی گویا ابتدا ہی چھوٹے موٹے لوگوں کو پکڑو اور بڑے بڑوں کو چھوڑو کی
روایت قائم ہو گئی جو اب ہنوزجاری و ساری ہے ۔
ہمارے ملک میں بدعنوانی کے حوالے سے ظاہر ہونے والے اعداو شمار چونکا دینے
والے ہیں ۔ ۱۹۹۲ میں جب سے نرسمھا راو نے آزاد معیشت کا نظریہ اپنایا
بدعنوانیوں کا ایک ایسا سیلاب ا مڈ پڑا ہے کہ جس نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ
میں لے لیا ہے ۔ ان دس سالوں میں بڑے بڑے گھوٹالوں مثلاً ٹوجی ، سی ڈبلیو
جی اور آدرش وغیرہ کے علاوہ سامنے آنے والی بدعنوانیوں کی رقم ۷۳ لاکھ کروڈ
بنتی ہے۔اس فہرست میں پانچ ہزار کروڈ کا گھپلہ کرنے والےرام لنگم راجو کا
نام سرِ فہرست ہے اور اسکے بعد چار ہزار کروڈ کے گھپلے باز ہرشد مہتا کا
نام آتا ہے ۔اس معاملے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ جو جمہوری نطام اس کو پال
پوس کر پروان چڑھاتا ہے اسی سے اس کے خاتمے کی توقع کی جاتی ہے ۔دراصل
ہمارے ملک میں انتخابات کو بہت بڑی نعمت سمجھا جاتا ہے یہ عوام کیلئے تو
نہیں لیکن سیاستدانوں کیلئے ضرور عظیم نعمت ہے اس لئے اس گنگا میں ان کے
سارے پاپ دھل جاتے ہیں اور انتخاب جیتنے کے بعد بڑا سے بڑا بدعنوان
سیاستدان پوتر ہو جاتا ہے اور اسے آگے کیلئے بدعنوانی کرنے کا لائسنس مل
جاتا ہے ۔ حقیقت تو یہی ہے کہ جب تک اس نظام کوتبدیل نہیں کیا جاتا
بدعنوانی کا خاتمہ نہ ہی لوک پال کے بنانے سےہو گا اور نہ ہی یوم جمہوریہ
کی تقریبات سے دل کو بہلانے سے۔ |