ہندوستانی سماج اور ہندوستانی
معاشرہ آزادی سے قبل" لڑاﺅ اور راج کرو" کی پالیسی سے نبرد آزما رہا ہے۔اس
کے باوجود ہند میں ہندﺅں اور مسلمانوں نے اتحاد و یگانگت کی زندہ مثالیں
قائم کرکے تخریب کاروں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنادیا ۔یہی وجہ تھی کہ
انگریز اپنی تمام تر عیاریوں،مکاریوں اور دھوکہ دہی کے باوجود کامیاب نہیں
ہو سکے اور آخر کار وہ ذلیل و خوار ہوکر ملک سے دربدر کئے گئے۔یہ سلسلہ نہ
کل بند ہوا تھا اور نہ ہی آج بلکہ تخریب کاروں کی ہمیشہ اور ہر دور میں یہی
کوشش رہی ہے کہ وہ جذباتیت کو فروغ دے کر لوگوں کو اکسائیں،دو فرقوں اور دو
گھرانوں کے درمیان نفرت کی خلیج قائم کریں اوران نامناسب بنیادوں پر دوریاں
پیدا کردیں۔یہ حقیت ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے آنے والے انسان آدم ؑتھے
لہذا ایک ماں باپ کی اولاد کو اکسانے والے اکساتے رہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ
نے جوالفت و محبت دو بھائیوں کے درمیان پیدا کر دی ہے اس کو ئی ختم نہیں کر
سکتااِلّا یہ کہ وہ خود ہی ایک دوسرے کے درمیان دوریاں رکھنا چاہیں۔
چند مثالیں تاریخ کے صفحات سے!
تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام اس ملک میں پہلی صدی کے آخرمیں خشکی کے راستہ سے
سندھ تک او ر کچھ دنوں بعد کیرل او رکوکن کے ساحلی علاقوں تک پہنچا
تھا۔ہندوستان میں دیگر مذاہب کے اختیارکرنے والوں نے اسلام کو جس قدر مقبول
عام بنایا یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔یہ وہ مذہب ہے جس کو ہندوستان کی
ہر برادری نے کم و بیش قبول کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج گوجر ، راجپوت ،جاٹ
،ٹھاکر ،برھمن،لالہ ، تیاگی اور بے شمار فرقوں و برادریوں میں ہندوستان کے
ہر شہر و قصبہ اور گاﺅں میں مسلمان موجود ہیں۔اور یہ بھی ایک ناقابل انکار
حقیقت ہے کہ مذہب کا یہ اختلاف رہن سہن میں تفریق کا باعث نہیں بنا بلکہ
اختلاف مذاہب کے باوجود ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہے اسی طرح جس طرح
ایک گھر کے دو بھائی غم اور خوشی کے مواقع پر ایک دوسرے کی مزاج پرسی کرتے
ہیں۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ یہ پیارومحبت کا رشتہ ہندوستانی قوم کے رگ
وریشہ میں پیوست تھا او رہر سطح پر پایا جاتا تھا تو اس میں مبالغہ نہیں
ہوگا ، کیونکہ ہمیں ہندومسلم راجا ﺅں اوربادشاہوں کی حکومتوں میں بھی
انتہائی حساس عہدوں پر بلاتفریق مذہب ہندومسلم دونوں ملتے ہیں۔ہندوستان
کبھی بھی سیاسی او رملکی معاملات میں ہندومسلم تفریق وامتیاز کا قائل نہیں
ہوا۔اس کی حکومتیں خواہ مسلم حاکم کے زیر اثر رہی ہوں یا ہندوفرمانرواﺅ ں
کے وہ کبھی افتراق وامتیاز سے آشنا نہیں ہوئیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ جیسے
کٹر مذہبی راجہ کی وزارت میں ہندواور سکھوں کی طرح مسلمان شریک تھے۔پیر
زادہ عزیز الدین وزیر تھے او رالہی بخش توپخانہ کے سردارتھے ،مرہٹوں کے
توپخانہ کا اعلیٰ افسر ابراہیم کردی تھا۔اکبر بادشاہ کی قوم پرستی کسی
تحریر اور تفصیل کی محتاج نہیں۔جہانگیر بادشاہ کا عدل ومساوات بھی تاریخ
میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اس کے تو پخانہ کے افسراعلیٰ راجہ بکرماجیت تھے
جن کے ماتحت پچاس ہزار توپچی او ر تین ہزار توپیں رہتی تھیں۔اور نگزیب
عالمگیر کو کٹر مذہبی کہاجاتا ہے مگر جب اس سے کہا گیا کہ حکومت کا منصب
کسی غیر مسلم کو سپردنہ کیا جائے تو اس نے نہایت تعجب اور حیرت سے اس
اعتراض کو سنا او ربڑی بے نیازی سے جواب دیا۔دنیا کے انتظامی امور میں منصب
کا مدار قابلیت ہوتی ہے مذہب کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ اس کے بڑے بڑے
منصب داروں میں ساہو پسر راجہ سبتا ،جے سنگھ ،جسونت سنگھ ،سیواجی کے
دامادراجندرجی اور ان کے علاوہ بڑے بڑے راجپوت او رہندوتھے جن کی تعداد
بقول منشی کیول رام بٹالوی سوسے زیادہ تھی۔اور حضرت سید احمد صاحب شہیدؒ نے
اپنے توپخانہ کا افسر راجہ رام راجپوت کو بنایا۔لارڈ ولیم بیٹگ نے ۲۸۸۱ءکی
تقریر میں، ڈبلیو ایم ٹارنس نے اپنی کتاب "ایشیاءمیں شہنشاہیت" سربی رام آف
بنگال نے اپنی تصنیفات میں او ر پنڈت سندرلال آف الہ آباد نے اپنی کتاب”
بھارت میں انگریزی راج“ میں ایسی بہت سی مثالیں او رنظیریں پیش کی ہیں جن
سے ہندو مسلمانوں کے باہمی بہتر تعلقات او رآپس کے اعتماد پر روشنی پڑتی ہے
واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے حکمراں ہمیشہ اس اصول کے حامی رہے کہ ملاﺅاو ر
حکومت کرو۔حتی کہ سلطنت مغلیہ کے بانی بابر بادشاہ نے اپنے بیٹے ہمایوں کو
وصیت کی تھی۔اے بیٹے ہندوستان مختلف مذاہب سے پرہے۔ الحمدللہ کہ اس نے اس
کی بادشاہت تمہیں عطا فرمائی تمہیں چاہئے کہ تمام تعصبات مذہبی کو لوح دل
سے دھوڈالو۔او رعدل وانصاف کرنے میں ہرمذہب وملت کے طریق کا لحاظ رکھو۔جس
کے بغیر تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ نہیں کرسکتے۔
انتخابی میدان میں تخریبی پالیسی کے علمبردار:
حالیہ دنوںمیں ہونے والے چند واقعات ایک مخصوص نظریۂ اور فکر سے تعلق
رکھنے والوں کے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تخریبی پالیسی ہی کارگر ہو سکتی ہے
۔شاید اسی لیے وہ اس طریقہ کارکواختیار کرتے ہیں جس سے امن و امان ختم ہو ،
ناچاقی پیدا ہو، نفرت و کدورت عام ہو اور وہ اس طرح کامیاب ہو جائیں۔ذیل
میں تین واقعات درج کئے جا رہے ہیںجن کی بنیاد تفرقہ و تخریب کاری ہے۔
سبرامنیم سوامی کا نفرت آمیز مضمون:
گزشتہ جولائی میں ممبئی بم دھماکے کے دو روز بعد سبرامنیم سوامی نے ایک
انگریزی اخبار میں لکھے گئے اپنے ایک کالم میں اس کے لیے مسلمانوں کو ذمہ
دار ٹھہرایا تھا۔سبرامنیم سوامی کے اس مذکورہ مضمون کا عنوان تھا ’ہاؤ ٹو
وائپ آؤٹ اسلامک ٹیرر‘ یعنی اسلامک دہشت گردی کو کیسے ختم کیا جائے۔ یہ
مضمون انگریزی اخبار ڈی این اے میں شائع ہوا تھا۔سبرامنیم سوامی نے اپنے
کالم میں لکھا تھا کہ دہشتگردانہ کاروائیوں سے نمٹنے کے لیے ہندوؤں کو
متحد ہوکر جواب دینا چاہیے اور اگر ضرورت پڑے تو مسلمانوں کو ووٹ دینے کے
حق سے محروم کر دیا جانا چاہیے۔اپنے مضمون میں سوامی نے لکھا تھا کہ مندروں
کی جگہ بنی تمام مساجد کو منہدم کر دینا چاہیے اور اس بات کی وکالت کی تھی
کہ جو لوگ اپنے آباؤ اجداد کو ہندو نہیں مانتے انہیں بھی ووٹ دینے کے حق
سے محروم کردینا چاہیے۔سبرامنیم سوامی نے اس موقف کی بھی وکالت کی تھی کہ
بھارت میں اسلامی دہشتگردی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔نتیجہ یہ
نکلا کہ سوامی کی سوچ کو قابل مذمت قرار دیا گیا اور ان موضوعات کو
یونیورسٹی کے نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان کا پرچم لہرانے پر گرفتاری:
ہندوستان کی جنوبی ریاست کرناٹک میں پولیس نے ایک سرکاری عمارت پر پاکستان
کا جھنڈا لہرانے کے الزام میں چھ افراد کو گرفتار کیا ہے جن کا تعلق ہندو
قوم پرست تنظیم شری رام سینا سے بتایا گیا ہے۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان
لوگوں نے نئے سال کے موقع پر بیجاپور ضلع میں سندھگی کے تحصیلدار کے دفتر
پر پاکستان کا پرچم بلند کیا تھا تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ مسلمانوں کا کام
ہے اور علاقے میں مذہب کی بنیاد پر کشیدگی پیدا ہوجائے۔اخباری اطلاعات کے
مطابق بیجاپور کے پولیس سربراہ ڈی سی راجپا نے گرفتاریوں کا اعلان کرتے
ہوئے کہا کہ ان لوگوں کا خیال تھا کہ مذہبی کشیدگی سے ان کی تنظیم کی
مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔شری رام سینا ایک قدامت پسند تنظیم ہے جو ملک کی
تہذیب اور سماجی اقدار کے تحفظ کے نام پر نوجوانوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
پھر یہ ہو اکہ وہ کامیاب نہ ہو سکے اور آخر کار ان کے کارکن گرفتار ہوئے۔
اُپیننگڈی میں اشتعال انگیز بیان:
منگلور سے قریب 45میل دور اُپیننگڈی میں ہندو سماج اُتسو میں آر ایس ایس
لیڈر کلڈکاپربھاکر کے اشتعال انگیز بیان سے ماحول کشیدہ ہو گیا۔خطاب کے
دوران مسلمانوں پر حملہ کرنے کی دھمکی دی اور ہندو نوجوانوں پر زور دیا کہ
مسلم نو جوانوں پر گولیاں برسائیں۔تقریر میں پربھاکر نے اسلامی شریعت اور
اسلامی قوانین کا مذاق اڑایا اور ہندوﺅں پر زور دیا کہ جیسے ہی کسی مسلم
لڑکے کو کسی ہندو لڑکی کے ساتھ بات کرتا ہوا دیکھیں تو مسلم نوجوانوں پر
فوری حملہ کریں۔مزید کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایسے نوجوانوں کو
ناقابل فراموش سبق سکھانا ہے،ہمیںمعلوم ہے کہ ان مسلمانوں کو کس طرح سزا
دینا چاہیے۔پربھاکر نے کہا کہ ہم مسلمانوں کو گولی مار دیں گے۔کلڈ کا
پربھاکر نے دعویٰ کیا کہ وہ ہندو لڑکیوں کو لو جہاد کے نام پر پیاراور محبت
کے چکر میں پھنساکر مسلم نوجوان انہیں اپنے مذہب میں تبدیل کرتے ہیں، ایسا
کرنے کے عوض انہیں باہر سے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا
کہ اگر کشمیر کی لڑکی کو مسلمان بنایا جاتا ہے تو اس نوجوان کو 9لاکھ روپے
اور دیگر کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے انعام دیا جاتا ہے۔نتیجتاً دو فرقوں
کے درمیان کشیدگی بڑھائی گئی ، مسجد پر پتھراﺅ کرایا گیا،7لوگ زخمی ہوئے
اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کو حوالات کے حوالہ کیا گیا اور کل ملا کر
علاقے اور صوبے کے امن و امان کو برباد کیا گیا۔فائدہ؟ اس کے سوا کچھ نہیں
کہ شاید اس بہکاوے میں آکر چند لوگ شر پسندوں کو اپنا ہم نوا سمجھنے
لگیں۔لیکن حقیقت جب آشکارا ہوگی اور یہ دعوے جھوٹے ثابت ہوں گے تو لازماً
یہ شر پسند بھی ناکام ہی ٹھہریں گے۔
پیار و محبت کے دیئے جلائیے!
وہ خیال اور فکر جو تخریب پر مبنی ہو اور جس کامقصد لوگوں کے دلوں اور
تعقات میں دوریاں پیدا کرنا ہووہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔بس ضرورت ہے کہ
افواہوں اور بے بنیاد باتوں اور حوالوں پر عوامی گرفت کی جائے۔جو لوگ ملک
میں امن و امان کے خواہاں ہیں ان کے درمیان اتحاد و الفت کا ماحول پروان
چڑھے۔جس طرح آگ کو آگ سے نہیںبجھایا جا سکتا ہے ،اسی طرح خوب سمجھ لیجئے کہ
فرقہ پرستی او رنفرت کو فرقہ پرستی او ر نفرت سے نہیں مٹایا جاسکتا ہے،اگر
اس ملک کو امن وامان اور صلح وآشتی کا گہوارہ بنانا ہے تو اپنی پرانی روایت
کو پھر زندہ کرنا ہوگا او رپیارومحبت کے دئے جلانے ہوںگے یہ ایک جہد مسلسل
ہے۔ جوکٹھن ضرور ہے پر ناممکن ہر گز نہیں! |