مصالحت والا قانونی دماغ

پاکستان تاریخ ساز دور سے گزر رہا ہے روز کوئی نہ کوئی تاریخی واقعہ رونما ہو رہا ہے ،حالیہ دنوں کا اہم ترین واقعہ 19 جنوری 2012 کو سپر یم کو رٹ میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا پیش ہونا تھا ۔عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کو این آر او عملدرآمد کیس کے حوالے سے توہین عدالت کا نوٹس دیا جس پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد طے پایا کہ وزیرا اعظم آئین اور قانون کا” احترام“ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں پیش ہوں ،بیرسٹر اعتزاز احسن کو وزیراعظم نے اپنا وکیل منتخب کیا ۔پیشی کے روز جہاں پاکستان مخا لف ریاستیں اور میڈیا حکومت کے خاتمے یا کم از کم وزیراعظم گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کی آس لگائے بیٹھے تھے، وہیں قومی میڈیا کا چھوٹے سے چھوٹا سرخیل بھی مطمئن تھا کہ کچھ نہیں ہو گا اور ہوا بھی نہیں ۔وزیراعظم نے جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ کے سامنے روسٹرم پر اپنا موقف پیش کیا اور پھر اعتزاز احسن نے دلائل دیئے ،کمند یہاں ٹوٹی کہ اعتزاز احسن یکم فروری کی سماعت میں ثابت کریں گے کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے گویا وہ نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے پلے پڑ گئے۔

پیشی پر ایک اور اہم بات جو نوٹ کی گئی وہ 2صوبوں کے گورنرز3 صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت 15 کے قریب وفاقی وزراءسماعت پر موجود تھے جس کا وزیراعظم نے یہ جواز پیش کیا کہ وہ الزام میں عدالت آئے ہیں اور یہ عدلیہ کے احترام میں یہاں آئے ہیں ،وزیر اعظم نے حاضری کو مزید غیر جانبدار بنانے کے لئے لینڈ کروزر گاڑی کی خود ڈرائیونگ کی یہ الگ بات ہے کہ ایل آر زیڈ 786 نامی نمبر پلیٹ جعلی تھی بہر حال سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے گئے تھے اور وزیراعظم جو اب کہتے ہیں کہ لندن سے منصور اعجاز آ رہے ہیں یا کوئی وائسرائے ،جس کیلئے سکیورٹی کا اتنا زیادہ بندوبست کیا گیا ہے حالانکہ انکی بطور ملزم سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر سکیورٹی بھی کسی وائسرائے سے کم نہ تھی ۔اس کے باوجود وزیراعظم گیلانی کی حاضری نے عدلیہ انتظامیہ محاذ آرائی میں وقتی طور پر ہی سہی کمی کر دی ہے جبکہ ملکی سٹاک مارکیٹ پر بھی اس کا مثبت اثر ہوا اور تیزی دیکھنے میں آئی۔

صدر، وزیر اعظم سمیت حکومتی ٹیم نے چوہدری اعتزاز احسن کا چناؤ کرکے مستحسن فیصلہ کیا ہے ۔اعتزاز نے عدلیہ بحالی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا اس سے قبل انہیں پی پی کا ایک معتدل رہنما کا درجہ حا صل تھا، لیکن اس کے ساتھ وہ پیشہ ور وکیل بھی ہیں جنہوں نے تحریک کے دوران اپنی جماعتی وابستگی کو بالاتر رکھا اور ججز کی بحالی کیلئے شب وروز کام کیا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی گاڑی بھی ڈرائیو کرتے رہے غرض ہر وہ قانونی کام کیا جس نے انکے وقار میں اضافہ کیا یہی وجہ ہے کہ وکلاءبرادری میں سے جو نمایاں نام عدلیہ بحالی تحریک میں اوپر آیا وہ اعتزاز احسن کا نام ہی تھا ۔

فروری 2008 ءکے انتخابات کے بعد اعتزاز ا حسن پیپلز پارٹی کی قیادت میں معتوب ٹھرے کیونکہ پیپلز پارٹی کے رہنما کے ہونے کے باوجود وہ پی پی حکومت کے خلاف اس حوالے سے تھے کہ وہ ججز کی عملی طور پر بحالی چاہتے تھے جبکہ پارٹی قیادت اس سے خائف تھی اور جب 15 مارچ2009 کو ججز بحال ہوئے تو اس وقت تک اعتزاز احسن پی پی کی” بیڈ بک“ میں جا چکے تھے ،ڈاکٹر صفدر عباسی ،ناہید خان ،ڈاکٹر اسرار شاہ وغیرہ وہ نمایاں نام تھے جسے پی پی کی ہائی کمان پسند نہیں کرتی تھی لیکن 27 دسمبر 2011 کو بے نظیر بھٹو کی برسی پر صدر زرداری کی موجودگی میں اعتزاز تقریر کرتے نظر آئے تو سیاسی پنڈت حیران ہو گئے کہ اچانک یہ سب کیا ہوا لیکن اس عمل نے اس مفروضہ کو تقویت دی کہ اعتزاز اور پی پی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان جو خفیہ ملاقاتیں ہو رہی تھیں اس نے بالآخر اپنا رنگ دکھا ہی دیا کیونکہ پیپلز پارٹی بابر اعوان کے ذریعے عدالتوں کے ساتھ محاذ آرائی میں اتنا آگے جا چکی تھی کہ تعلقات کی بہتری کےلئے ایک مصالحت کرنے والے قانونی دماغ کی اشد ضرورت تھی اور یہ ضرورت اعتزاز احسن نے پوری کر دی۔

عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے حکومت جہاں عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے وہیں ملک میں سرمایہ کاری کا عمل بھی رک چکا ہے تیل ،گیس، ا ور بجلی کے شدید بحران نے صنعتی زندگی کا پہیہ جام کر دیا ہے اور اسکی بڑی وجہ حکومت کا این آر او پر عملدرآمد نہ کروانے کےساتھ ساتھ حالیہ میمو گیٹ پر تاخیری حربوں کے ذریعے اثر انداز ہونا ہے ۔صدر اور حکومت کے پاس قریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ رہ چکا ہے اور اتحادی حکومت کے پاس گزشتہ ساڑھے تین سال کا ایسا کوئی کارنامہ نہیں جسے لیکر وہ انتخابات کے دوران عوامی عدالت میں لے جا سکیں جس کا حکومتی عمائدین اکثر و بیشتر تکرار کرتے نظر آتے ہیں۔ججز کی بحالی یقینا اہم کارنامہ ہے لیکن اس کا زیادہ کریڈٹ وکلا،سول سوسائٹی ، ن لیگ اور پی ٹی آئی کو جاتا ہے ۔ لیکن اسی عدلیہ کے ساتھ حکومت نے جو کچھ کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔عدالتی فیصلوں کی بے توقیری کی ایک لمبی فہرست ہے اور اب بھی حکومت اعلیٰ دماغوں کے ذریعے عدالتی عمل میں تاخیر کرنے کا ارادہ لئے بیٹھی ہے۔مولوی انوارالحق شریف آدمی ہیں انہیں اٹارنی جنرل بنا کر کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ اور کبھی سپر یم کورٹ کے چکر لگوائے جاتے ہیں جبکہ بابر اعوان جیسا تیز طرار وکیل،ذوالفقار مرزا کی طرح اپنا کام دکھا کر باہر چلے گئے اور ساری قانونی بساط اعتزاز احسن کےلئے چھوڑ گئے جن کے ایک سال چھوڑیں چند ماہ پہلے تک کے بیانات ہی دیکھ لیں کہ وہ پی پی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کہتے رہے لیکن آج وہ کہتے ہیں کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے ،زرداری جب صدارت کی کرسی چھوڑیں گے تب خط بھی لکھ دیا جائے گا ۔یقیناً بھاری مشاہرہ اور خصوصی ٹھیکے کے ذریعے قانونی موشگافیوں کو الجھانے والے ذہن خریدے جاسکتے ہیں اور پیپلز پارٹی کی قیادت اس خریداری میں خوب ماہر ہے ۔
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 48240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.