جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری رویے

میدان سیاست ہی وہ میدان ہے جہاں سے ملک کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں اور ملک کا مستقبل اسی سے وابستہ رہتا ہے اگر اسی میں فیصلے درست ہیں توساری راہیں سیدھی رہتی ہیں لیکن بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں یہ میدان دشمن فوجوں کے میدان کا رزار کا منظر پیش کرتا ہے۔ اختلاف رائے اس کا حسن ہے لیکن اس اختلاف میں ملک اور قوم کو ہر گز متا ثر نہیں ہونا چاہیے ہر پارٹی کے منشور کا محور و مرکز صرف پاکستان ہونا چاہیے جو کہ اگر چہ لکھے ہوئے کی حد تک تو ہے تا ہم عملی طور پر یہ منشور صرف اور صرف حصول اقتدار ہے روز روز نئے اتحاد بنتے اور ٹوٹتے ہیں اور یہ بنائوو بگاڑ صرف اور صرف نمبر گیم کے لیے ہوتا ہے تاکہ اسمبلی میں اکثریت برقرار رہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر سیاسی لیڈر اس جوڑ توڑ کی ایک ہی توجیہہ پیش کرتا ہے کہ ’’سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی ‘‘ اگر ایسا ہی ہے تو سیاسی پارٹیوں کی منشور کیا ہیں، انہیں کیوں لکھا جاتا ہے نہ لکھا جائے ۔ نہایت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنی انتخابی مہم کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہوتی ہے لیکن ملکی معاملات میں سنجیدگی کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف ہی محاذ آرا رہتی ہیں۔ جمہوریت کا راگ الاپنے سے جمہوریت نہیں پنپ سکتی اس کے لیے جمہوری رویے اپنانا ضروری ہوتے ہیں لیکن ہمارے سیاسی لیڈران عجزوانکساری سے خود کو سیاست کا طالبعلم کہنے کے باوجود اس کے اصولوں کو سمجھنے کی چنداں کوشش نہیں کرتے جمہوریت صرف حکومت حاصل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ دراصل لوگوں کی خدمت کا نام ہے جو عوامی نمائندوں کا فرض ہے اور عوام اپنے نمائندے اسی کام کے لیے منتخب کرتے ہیں لیکن ہمارے نمائندے اپنی تجوریاں بھرنے کے علاوہ کسی دوسرے کام میں سنجیدگی کے قائل ہی نہیں وہ صرف اس زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہیں اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی کا شرف حاصل ہے جانتے وہ بھی ہیں کہ اس ملک میں اٹھارہ کروڑ عوام ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ یہ تعداد اس سے کہیں کم ہے تقریباََ چار کروڑ تو جعلی ووٹ ہیں اور انتخابات میں ٹرن آوٹ کو مدنظر رکھا جائے تو شاید یہ تین کروڑ کے بھی نمائندہ نہیں ہیں اور اس پر اگر یہ خود کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھنا شروع کردیں تو یہ کو نسا جمہوری رویہ ہے اگر انہیں فیصلے کا حق دیا بھی گیا ہے تو اس کا مطلب ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے نہ کہ عوام کے ٹیکس سے جمع شدہ رقم سے عیش و عشرت ، عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑانا ، عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنا ، ٹی وی ٹاک شوز میں آکر قومی سلامتی کے اداروں کی تذلیل ، عوام کو اداروں سے بدظن کرنا اور اسی عوام سے حقائق چھپانا جس نے ان کو منتخب کیا ہے۔ لیکن خود کو عوام کا نمائندہ کہنے والے یہ حکمران اور سیاسی رہنما ملکی ترقی سے بے خبر صرف اور صرف سوئس بینکوں کے اکاونٹ نمبر زیاد رکھنے میں ہی مصروف ہیں ۔دولت کا کمانا اور کاروبار کا بڑھانا قابل اعتراض بات نہیں لیکن اس کے لئے استعمال ہونے والے ذرائع ضرور قابل غور ہوتے ہیں۔ مجھے نہ تو جمہوریت سے اختلاف ہے نہ سیاست سے بلکہ میں جمہوریت کو بہتر طریقہ حکومت سمجھتی ہوں لیکن مجھے اپنے سیاستدانوں کے رویے پرشدید اعتراض ہے جو اپنے جرائم کو ، اپنی غلطیوں کواور اپنی خود غرضیوں کو جمہوریت کے پردے میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے خوشنما الفاظ کا سہارا لیتے ہیں کبھی جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیتے ہیں ، کبھی سیاست کو بغیر حرف آخر کے ایک عمل اور کبھی خود کو سیاست کا حقیر طالب علم قرار دے کر خود کو چغادری سیاست دان سمجھتے ہیں۔ سیاست اور جمہوریت اگر عوام کی بہتری کے لیے ہو تو ہی قابل احترام ہیں ورنہ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کو نسا طرز حکومت ہے۔ انہیں انکی بنیادی ضروریات مہیا رہیں، انہیں کھانے کو کھانا ملے، پہننے کو کپڑے ملیں اور سر چھپانے کو چھت جس میں زندگی کی بنیادی سہولیات موجود ہوں اب وہ زمانہ نہیں رہا جب عوام کو کھوکھلے نعروں سے بہلایا جا سکے یا یہ تاثر دیا جا سکے کہ آپ ان کی خیر خواہی میں مصروف کارہیں۔ اب نعروں سے آگے بڑھ کر عمل کا وقت ہے ۔بین الاقوامی برادری میں ملک کی جتنی بد نامی ہو چکی اس داغ کو دھونے کا وقت ہے اگر وقت مزید آگے نکل گیا تو یہ اپنے وقت کے سارے بڑے بڑے نام مٹا دے گا کیونکہ تاریخ ناموں سے نہیں کاموں سے بنتی ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552714 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.