ایک عرصے سے یوپی اسمبلی
انتخابات کارخ یہ پڑاہوا ہے کہ یہاں کارائے دہندہ نسلی اور مذہبی عصبیت سے
باہر نکلنے کو تیار نہیں ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اس نے ایسا کیابھی تو اس
کو نسلی عصبیت کا نام دیا گیا۔اس کے بعد 2009 کے عام انتخابات میں اسی ووٹر
نے کانگریس کو چوتھے سے اٹھا کر دوسرے درجے پر پہنچا دیاجس کا تصور خود
کانگریس نے بھی نہیں کیا تھا۔ خود کو نسلی پابندیوں سے باہر دکھانے اور
اپنی روزی روٹی اور زندگی کے دیگرمسائل کوحل کروانے کیلئے اس سے زیادہ وہ
کربھی کیا کر سکتا ہے؟ اتر پردیش اسمبلی انتخابات پرنتائج آنے تک
اقتدارکیلئے قیاس آرائیاں چلتی رہیں گی لیکن اس کی الجھی ہوئی ریاضی میں
کچھ چیزیں پرینکا کے آنے سے قبل واضح ہو چکی ہیں۔ سب سے اپم چیز جس کا ذکر
انتخابات کے جائزوں میں آنے لگا ہے وہ یہ ہے کہ اس انتخاب میںتثلیث پر مبنی
نتائج متوقع ہیں۔ یعنی موجودہ انتخابی منظر نامہ پر غور کریں توآنجہانی
اندراگاندھی کی شبیہ کی حامل پرینکا گاندھی کے داخلے کے بعد اب یہ ایس پی-
بی ایس پی - کانگریس کاممکنہ تکونہ اقتدار محسوس ہورہا ہے ۔
|
|
انتخابی مہم کیلئے محض دو دن امیٹھی اور رائے بریلی میں گذار کر پرینکا
گاندھی نے سیاست اور میڈیا میں گویا سنسنی پیدا کردی ہے ‘ لوگ اس پر ششدر
ہیں جبکہ پرینکا کوئی بہت سرگرم لیڈر بھی نہیں ہیں‘ کسی عہدے پر پہنچنے کی
آرزو یا کوئی عوامی عہدہ سنبھالنے کی درخواست بھی انہوں نے آج تک نہیں کی
ہے‘ ہندوستانی سیاست کی انہیں کچھ سمجھ ہو سکتی ہے لیکن عوامی زندگی میں وہ
جدید اقدار میں رچی بسی ایک سنجیدہ ،گھریلوخاتون ہیں۔ توپھر ان کے اپنے
خاندان کے روایتی انتخابی حلقوں میں ان کے دورے پر اتنی ہلچل کیوں ہے کہ
سیاستدانوں کو اس بارے میں بیان جاری کرنا ضروری محسوس ہو رہا ہے؟اس سے
بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ غیر کانگریس کی جماعتوں کے ساتھ
ہی نہیں ہے بلکہ خود کانگریس میں بھی ایساطبقہ موجود ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ
پرینکا گاندھی اگر اترپردیش کی انتخابی مہم میں سرگرم ہوں گی تو وہ ریاست
میں پارٹی کے ذریعہ حاصل کردہ اقتدار میں دعویدار بن جائیں گی۔ علاقائی
پارٹیوں کے دعویٰ کے بعد سے اس ملک میں زمینی سیاست کے ترانے گائے جا رہے
ہیں۔ اس میں’پرینکالہر‘کا زمینی سیاست سے بھلا کیا لینا دینا؟کیا یہ گاندھی
- نہرو خاندان کے تئیں’شاہی خاندان‘ پر مبنی ’شحصیت پرستی‘کی جھلک نظر نہیں
آتی ؟اس پس منظر میں پرینکا جیسی سیاست سے دور رہنے والی ، محض ضرورت پڑنے
پر ہی زبان کھولنے والی ، کھل کر مسکرانے والی اور رشتوں میں یقین رکھنے
والی خاتون کا امیٹھی -رائے بریلی پہنچنا اگر اتنی سنسنی پیدا کرتا ہے تو
اس میں ان کی قابلیت سے زیادہ رائے دہندگان کی روایت پسندی ظاہر ہو رہی
ہے۔انتخابات میں چار بڑے اور کچھ چھوٹے فریق شامل ہیں لیکن بڑے فریقوں میں
صرف ایک ، کانگریس کو’ انتخابات سے قبل اتحاد‘ قائم کرنے کا موقع ملا ہے۔
اس نے اجیت سنگھ کی قیادت والی آرایل ڈی کے ساتھ اتحاد بنایا ہے جس کے ایک
علاقے میں مضبوط رائے دہندگان ہیں۔ جس الیکشن میں دسیوں سیٹوں کی قسمت ہزار
دو ہزار ووٹوں سے پلٹتی ہو‘ وہاں ایسے اتحاد کاقائم ہوجانا نہایت معنی
خیزہو جاتا ہے۔ ذات پات پر مبنی نظریہ سے بھی صرف کانگریس کے کھاتے میں ہی
کرمی اور مشرقی یو پی کی پسماندہ ذاتوں کے طور پر اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے
لیکن پچھلی اسمبلی میں محض پانچ فیصد کی حیثیت والی یہ پارٹی اپنی لڑائی کا
آغاز ہی اتنے نیچے سے کر رہی ہے کہ چوٹی کے مقابلے میں آنے کیلئے اسے زمین
آسمان ایک کرنا پڑے گا۔
|
|
گزشتہ انتخابات میںبہوجن سماج پارٹی نے کل 206 نشستیں جیتی تھیں لیکن اپنے
110 ارکان اسمبلی یعنی نصف سے زائد کے ٹکٹ اس نے کاٹ دئے ہیں۔اس کے پاس
ریاست میں سب سے مضبوط انتخابات مشینری ہے۔ تھوڑا بہت سرکاری مشینری کا
سپورٹ بھی اسے ملے گا ہی۔ اس کے کور ووٹر سے زیادہ پر عزم ووٹر اور کسی
پارٹی کے پاس نہیں ہیں ۔الیکشن جیتنے کیلئے بی ایس پی کے حق میں کوئی لہر
بھی ہونا ضروری ہے جو بدقسمتی سے اس بار اس کے ساتھ نہیں ہے۔ یوپی کا پچھلا
انتخاب ملائم سنگھ کے اقتدار کے رد عمل میں لڑا گیا تھا۔ جو لوگ بھی ان کی
حکومت کے طریقے سے ناخوش تھے ، ان تمام نے تمام تعصب چھوڑ کر ہاتھی پر اپنی
مہر لگائی تھی لیکن بی ایس پی نے اس کی وضاحت اپنے نسلی اتحاد کی کامیابی
کے طور پر کی ، اور اب بھی کر رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج سامنے
دہرانے کیلئے اس نے اس بار بھی بہت بڑی تعداد میں دبنگ براہمن- ٹھاکر کو
ٹکٹ دئے ہیں۔ یہ جوا شاید اس نے اس امید میں کھیلا ہے کہ اس کے کور ووٹر
اور ان امیدواروں کے’ دبنگ‘ مل کر پچھلی بار کی طرح اس بار بھی بہت ساری
نشستیں بہن جی کے بٹوے میں پہنچا دیں گے۔
نسلی اتحاد کو اقتدار کی ماسٹر کیmaster key تسلیم کرکے کئے گئے اس الیکشن
کی حد یہ ہے کہ یوپی میں بی جے پی کی ناکامی کے بعد سے اپنی سیاسی توجہ
گنوا چکے اونچی ذات کے عام رائے دہندہ کسی پارٹی کو کامیاب کروانے سے زیادہ
کسی کو ناکام کروانے کیلئے ووٹ دینے لگے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے پورے ملک
میں مسلم رائے دہندگان منفی ووٹوں کے ذریعہ زعفرانی جماعتوں سے نجات پانے
کیلئے دیگر پارٹیوں کو کامیاب کرتے آئے ہیں۔ ایسے میں بی ایس پی کیلئے
مسئلہ دونوں طرف سے ہے۔ اگر ان ووٹروں کا رجحان بدلا یعنی انہوں نے کسی
پارٹی کو جتوانے کیلئے ووٹ دیا تو وہ بی ایس پی نہیں ہوگی کیونکہ ان کی
فطری جماعت بننے کیلئے اس نے ابھی تک کچھ نہیں کیا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں
ہوا ، وہ اپنے گزشتہ رویہ پر ہی ڈٹے رہے تو ان کا بڑا حصہ اپنی حکومت مخالف
سوچ کے تحت بی ایس پی کے خلاف ہی ووٹ کرے گا۔
تحفظات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مخالف لہر کا سب سے زیادہ فائدہ سب سے بڑی
اپوزیشن پارٹی کو ملتا ہے۔ ابھی تک منظر عام پرآئے سارے انتخابی سروے یہ
اشارہ بھی دے رہے ہیں کہ سماج وادی پارٹی آئندہ اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی
بن کر ابھرے گی۔ اس سلسلے میں کوئی بحث ہے تو صرف یہ کہ حکومت بنانے کے
راستے میں وہ اپنے بل بوتے پر کتنی اونچائی پار کر سکے گی۔ یہاں کچھ باتیں
براہ راست طور پر اس کے خلاف جا رہی ہیں۔ اکھلیش یادو نے ریاست میں پارٹی
کی کمان سنبھالنے کے بعد سے اس کی ایک صاف ستھری شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی
ہے لیکن اس کام میں ذرا تاخیر ہو گئی۔ لوگوں کی عام بات چیت میں آج بھی
سماج وادی حکومت کی اعلی شخصیات ہی چھائی رہتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ نسلی اتحاد
کا ہے۔ زبردست مخالف لہر کے باوجود سماج کے کچھ طبقے اس پارٹی کو اپنے لئے
اتنی ہی’ پرائی ‘سمجھتے ہیں جتنی کہ 2007 میں اس کی حکومت کے وقت محسوس
کرتے تھے۔
اس الیکشن میں جس پارٹی کی تیاری سب سے خراب ہے ، وہ بلا شبہ بی جے پی ہی
ہے۔ بابری مسجد شہادت کی سیاہی اپنی پیشانی پر سجائے ہوئے لیڈروں کی گروپ
بندی سے نبرد آزما اس پارٹی کا حال یہ ہے کہ اسے اوما بھارتی کو آگے رکھ کر
انتخاب لڑنا پڑ رہا ہے جبکہ دیہی صحت مشن گھوٹالے کے اہم ملزم ، بی ایس پی
سے نکالے ہوئے بابو سنگھ کشواہا کو اپنا کر اس نے اپنی اخلاقی حیثیت بھی
کھو دی ہے۔ ایک وقت اپنے مضبوط انتخابی ڈھانچے کیلئے جانی جانے والی اس
پارٹی کیلئے تو اس بار شاید آر ایس ایس کارکن بھی کام نہ کریں۔ ایسے میں
الیکشن مبصرین کیلئے بی جے پی سے وابستہ واحد دلچسپی یہ ہے کہ اس کے روایتی
ووٹر فی الحال کس طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ایسے میںیہ نوے کی دہائی والا ایس
پی-بی ایس پی- بی جے پی مثلث نہیں کہا جاسکتا جسے ترقی سے محروم ‘بے سمتی
سے مزین اورسیاہ دور کے طورپر یاد کیا جاتا ہے بلکہ پرینکاکے داخلے سے نئی
توقعات پیدا ہو گئی ہیں۔ |