شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ کچھ
عرصہ میرا قیام دمشق میں رہا۔ ایک دفعہ میں اہلِ دمشق سے بیزار ہو کر شہر
سے نکل کر فلسطین کے جنگلوں میں چلا گیا اور لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر دیا۔
وہاں عیسائیوں نے مجھے گرفتار کر لیا اور یہودی کے ساتھ مجھے طرابلس میں
خندق کھودنے کے کام پر لگا دیا۔ مدت کے بعد حلب کا ایک رئیس جس سے میری جان
پہچان تھی وہا سے گزرا۔ اس نے مجھے پہچان لیا اور پوچھا کہ یہ کیا حالت ہے
۔میں نے کہا کیا بتاﺅں میں آدمیوں سے پہاڑ اور جنگل کی طرف بھاگتا تھا کہ
خدا کی عبادت کے لیے یکسوئی میسر ہو لیکن اس وقت میری حالت کا ندازہ کر لو
کہ یکسوئی چاہتے چاہتے جانوروں کے اصطبل میں آپھنسا ہوں۔ رئیس کو میری حالت
پر رحم آگیا اُس نے دس دینار دے کر مجھے فرنگیوں کی قید سے چھڑا لیا اور
اپنے ساتھ حلب لے گیا وہاں اُس نے سو دینار مہر پر میری شادی اپنی بیٹی کے
ساتھ کر دی ۔ کچھ ہی مدت میں میری بیوی نے بدمزاجی اور زبان درازی کے ساتھ
میرا جینا دو بھر کیا اور مجھے ایک بار طعنہ دیا کہ تو وہی نہیں ہے جسے
میرے باپ نے دس دینار دے کر فرنگیوں کی قید سے چھڑایا تھا۔میں نے کہا ہاں
میں وہی ہوں کہ دس دینار دے کر مجھے فرنگیوں سے چھڑایا اور سو دینار کے عوض
تیرے ہاتھ گرفتار کرا دیا۔
شیخ سعدی ؒ کی اسی حکایت والا کام اہلِ وطن کے ساتھ اربابِ سیاست کر رہے
ہیں۔ رو رو کر ڈکٹیٹر اور طبلوں کے رسیا سے آزاد ہوئے تو اُس سے بڑھ کر
جمہوری آمر ہماری تقدیروں کے مالک بن بیٹھے۔ ”سب سے پہلے پاکستان“ کے
دلفریب اور خوش نما سلوگن کے چنگل سے آزاد ہوئے تو”جمہوریت ہی سب سے بڑا
انتقال ہے“ کے نعرے پر آنے والی حکومت نے روز و شب بدقسمتی کی سیاہیاں گھول
دیں
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 90رکنی ہیوی ویٹ کابینہ کو تحلیل کرتے
ہوئے الوداعی اجلاس میں جو ایمان افروز باتیں قوم سے کیں اُن پر سمجھ نہیں
آتا کہ دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔ مرشد پاک نے فرمایا کہ مستعفیٰ ہونے
والی کابینہ کے گزشتہ تین سالوں میں پچھتر اجلاس ہوئے اور 782فیصلے کئے گئے۔
605پر عمل درآمد ہوا ۔ بقیہ پر کارروائی جاری ہے۔گویا کارکردگی77فیصد ہے۔
قوم صرف چند سوال کرتی ۔
۱۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی نامی بے گناہ پاکستانی بہن کو امریکی چنگل سے چھڑانے
کے لیے ہماری عظیم الشان ہیوی ویٹ کابینہ نے کیا کیا؟
۲۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے کی دعویدار کابینہ نے عوام کو یہ تین
چیزیں مہیا کرنے کے لیے کیا عملی نتائج حاصل کئے؟
۳۔بجلی ، پانی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کروانے کے لیے معزز وزراءکی
کارکردگی کیا رہی؟
۴۔قبائلی علاقہ جات میں ہزاروں لوگوں کو امریکی ڈرون حملوں کے ذریعے شہید
کیا گیا۔ 77فیصد کارکردگی والی کابینہ نے کیا کیا؟
۵۔ ملک میں ہزاروں لوگ خود کش حملوں کا نشانہ بنے اور دیگر کئی ہزار قحط،
بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے خود کشی کرنے پرمجبور ہوئے75اجلاس کرنے والی
کابینہ نے کیا کیا اور علیٰ ہذالقیاس.... اور آخری سوال!
۶۔لاہور مزنگ چونگی پر امریکی دہشت گرد قاتل ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں معصوم
پاکستانیوں کے قتل کے خلاف ہماری پیاری کابینہ نے کون سی قرار داد پاس کی۔
ہم بولیں گے تو بولو گے کہ بولتا ہے!رہی بات کشمیر اور کشمیریوں کی تو
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
پہلے تو موسیو مشرف نے تقسیم کشمیر کے سات منصوبے بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام
پر پیش کر کے تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ پر چھڑا مارا اور اُن کے بعد حکومت
نے گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کی بنیاد پر ایک صوبے کی حیثیت سے
پاکستان کا حصہ بنا کر تقسیمِ کشمیر کا وہ بیچ بویا ہے جس کا پھل آنے والی
نسلیں کاٹیں گی۔ اُنہیں اتنا بھی خیال نہ آیا کہ شہیدِ جمہوریت ذو الفقار
علی بھٹو نے کشمیر کے نام پر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی اور
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اُسی Legacyکو آگے بڑھاتے ہوئے پانچ فروری کو
یومِ یکجہتی کشمیر منانا شروع کیا تھا۔ آج بھٹو شہداءکے وارثوں نے
نادانستگی یا بھولے پن میں یہ کیا کر دیا ہے۔آج گیارہ فروری کادن ہمیں شہیدِ
کشمیر مقبول بٹ شہید کی یاد دلاتا ہے کہ آج ہی کے دن 1984ءمیں دنیا کے سب
سے بڑے غاصب بھارت نے آوازِ حریت بلند کرنے والے اس عظیم انسان کو تہاڑ جیل
میں پھانسی پر لٹکا کر یہ سمجھا تھا کہ اُس نے آوازِ حریت کو ہمیشہ کے لیے
دبا دیا ہے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ 27سال بعد مقبول بٹ کے قافلے میں
شامل ہونے والے مجاہد بڑھتے چلے جارہی ہیں۔ پاکستان نے کشمیر کا ساتھ ہمیشہ
بڑا بھائی بن کر دیا ہے اور اب بھی ذو الفقار علی بھٹو شہید کی جماعت مقبول
بٹ شہید ؒ کی قوم کو تنہا نہ چھوڑے اور ڈٹ کر بہادری سے اُسی طرح بھارت کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے جس طرح ذو الفقار علی بھٹو شہید اور
محترمہ بے نظیر بھٹوشہید کرتی تھیں۔شہیدوں کے وارث سوتے نہیں ہیں۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو امریکہ اور دیگر غیر ملکی آقاﺅں کے اشاروں پر ناچنا
جاری رکھا گیا تو حال اس لطیفے والا ہو گا۔
ایک شخص نے اخبار میں اشتہار شائع کرایا کہ مجھے ایک ایسے جیون ساتھی کی
ضرورت ہے جس کا حسب و نسب خالص ہو، جو وفا دار ہو، متحمل مزاج، شریف اور
حکمت گزاری میں لاثانی ہو، خوبصورت ہونا ضروری نہیں مگر کڑی محنت سے نہ
گھبرائے، جو حکم دوں اُس سے انحراف نہ کرے اور روکھی سوکھی کھا کر بھی خدا
کا شکر ادا کرے، ذات پات ، فرقہ یا نسل کی قید نہیں۔
دوسرے دن دروازے پر ایک گدھاآکھڑا ہوا اُس کی گردن میں تختی لٹکی تھی”آپ کا
اشتہار پڑھ کر حاضر ہوا ہوں“ |