آپ کسی کو بندوق کی گولی سے مار
دیں یا زندگی بچانے والی دوائی کی گولی سے ۔۔۔بات ایک ہی ہے ۔۔۔راتوں رات
امیر بننے کے چکر میں انسان اپنے ضمیر کو ابدی موت سلا دے تو اس کے لیے
حلال و حرام کی تمیزبے معنی اورانسانی جان کی حرمت غیر اہم ۔۔۔ ایسے ہی
سماج دشمن اور انسانیت کش لوگوں کے لیے معاشرے میں قوانین بنتے ہیں تاکہ
دوسرے انسان سکون سے زندگی گزار سکیں۔ قانون بنانے والے ہی اگر شریک ِجرم
ہوں تو انصاف کہاں سے ملے گا؟جعلی ادوایات تیار کا کاروبار کرنے والوں کے
بارے میں ارباب اقتدار کو نہ صرف علم ہے بلکہ بہت سوں کی سرپرستی میں یہ
گھنائونے کاروبار چل رہے ہیں۔
”جس نے ایک جان کو بچایا گویا اس نے سارے جہان کو بچایا۔”بحیثیت مجموعی
ہمارا قومی مزاج کچھ اس طرح سے ترتیب پا گیا ہے کہ ہمارے اندر پہل کر کے یا
پیش قدمی کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنانے یا سنبھالنے کا داعیہ شاید مر گیا
ہے یا دب گیا ہے۔ٹارگٹ کلنگ سے سینکڑوں لاشیں گر رہی ہوں ،ڈینگی وائرس کی
وبا سے قیمتی جانیں لقمہ اجل بن رہی ہوں،ڈرون اور خود کش حملوں سے ہزاروں
معصوم اور بے گناہ لوگ درندگی کا شکار ہو رہے ہوں یا جعلی ادویات کے
استعمال کے ذریعے سینکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہوں۔ہم کبھی بھی
پرو ایکٹو(proactive)ذہن کے ساتھ سوچنے کی یا تو استعداد ہی نہیں رکھتے یا
پھر ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ جعلی ادویات کے استعمال کے باعث 110سے زائد
ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور مزید سینکڑوں ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
مگر بدقسمتی دیکھئے کہ ہم اس پربھی سیاست توکر رہے ہیںمگر ذمہ داری قبول
کرنے کے لیے قطعی طورپر تیار نہیں جبکہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایک
دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری ہے ۔پنجاب اسمبلی کے
باہر کھڑے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اپنی ”دانش ”کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتے
ہیں کہ”پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی جس نے مریضوںمیں جعلی ادویات تقسیم کیں
وہ پنجاب کی صوبائی حکومت کے ماتحت ہے لہذا تمام تر جانی نقصان کی ذمہ داری
وزیر اعلیٰ شہباز شریف پر عائد ہوتی ہے۔”
دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب شہبا ز شریف کا کہنا ہے ”کہ ادویات کی رجسٹریشن
، قیمتوں کا تعین اور لائسنسوں کا اجراء اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی وفاقی
حکومت کے کنٹرول میں ہے ۔جبکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بھی تاحال وفاقی حکومت
کے ماتحت کام کر رہی ہے۔”
وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان بھی خاموش نہ رہ سکیں اوراس اہم نوعیت
کے مسئلے” روشنی” ڈالتے ہوئے حکومت پنجاب کا مورد الرزام ٹھہراتے ہوئے کہا
کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صحت کے شعبے کی ذمہ داری صوبوں کی ہے۔ ایسے
تمام افراد سے جواب طلبی کی جانی چاہئیے جو ایسی ادویات بنانے اور ان کی
خریدوفروخت میں ملوث ہیں۔وزیر اطلاعات نے پنجاب میں ایک مکمل بااختیار وزیر
صحت کی تقرری کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ اختیارات کی مرکزیت ختم کرنا
ضروری ہے۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے دوبرس قبل وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک قومی اسمبلی
کے فلور پر یہ انکشاف بھی کر چکے ہیں کہ ”پاکستان کی ڈرگ مارکیٹ میں چالیس
سے پچاس فیصد تک ادویات مشکوک ہیں ۔مگر اس سے بھی دلچسپ ایک اور بات ریکارڈ
پر ہے کہ ستمبر 2009میں محض ایک دن میں وفاقی حکومت کے تحت چلنے والے ادارے
ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی نے4 ہزار کے قریب ادویات رجسٹرڈ کیں۔کیا وفاقی حکومت
نے کبھی ان چالیس سے پچاس فیصد جعلی ادویات کے خاتمے کے لیے کوئی منصوبہ
بندی کی یا اس کا تدارک کرنے کے لیے کوئی قانون سازی کی ۔جب ملک کے وزیر
داخلہ کو علم ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں جعلی ادوایات ملک تیار اور فروخت
ہوتی ہیں تو وفاقی حکومت نے ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں کی
؟
اس دوران ایک اور تکلیف دہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ ہمارے پاس جعلی
ادویات کے تجزیے کے لیے قابل اعتماد لیباٹریز ہی موجود نہیں ہے لہذا مشکوک
ادویات کے نمونے فرانس اور انگلینڈ میں لیباٹری تجزیے کے لیے بھیج دئیے گئے
ہیں۔
دو روز قبل سینیٹ میں بحث کے دوران کچھ دلچسپ مگر افسوسناک حقائق سامنے آئے
جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ انتہائی اہمیت کے حامل معاملات جس سے انسانی
زندگیاں جڑی ہوتی ہیں کس طرح التواء کا شکار ہوتے ہیں ۔بتایا گیا کہ وفاقی
حکومت اور پنجاب حکومت کے درمیان گذشتہ 21ماہ سے شیخ زید ہسپتال کی ملکیت
کا تنازعہ چل رہا ہے ۔وفاقی حکومت مذکورہ ہسپتال صوبائی حکومت کے حوالے
کرنے کو تیار نہیں ۔ اٹھارویں ترمیم بنانے والے اور صوبوں کو اس ترمیم کے
تحت اختیارات منتقل کرنے کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ سینیٹر رضاربانی
کا کہنا ہے کہ”مرکزیت پسند ذہنیت رکھنے والے آج تک اٹھارویں ترمیم کو تسلیم
کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ جب اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کاآخری مرحلہ آیا
اور شیخ زید ہسپتال پنجاب کے حوالے ہونا تھا تو وفاقی حکومت نے انکار کیا
جس کے باعث معاملات لٹک گئے ۔ڈرگ ریگولیشن اتھارٹی صوبوں کو منتقل ہونا تھی
مگر شیخ زید ہسپتال کی ملکیت پر تنازعہ کی وجہ سے ڈرگز ریگولیشن اتھارٹی کا
معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ڈرگز ریگولیشن اتھارٹیز کی صوبوں کو منتقلی کے لیے
چاروں صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے ایک قرار داد منظور ہونا تھی جس میں
مذکورہ ہسپتال کی منتقلی کا معاملہ رکاوٹ بن گیا ۔”
جبکہ سینیٹر اسحاق ڈار نے سینیٹ کے اجلاس میں بتایا کہ وفاقی حکومت شیخ زید
ہسپتال کا تنازعہ حل کرے تو وہ ایوان کو پنجاب حکومت کی جانب سے یقین دلاتے
ہیں کہ ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے حق میں پنجاب اسمبلی سے فوری طور پر قرار داد
منظور کر ا دیں گے۔”آپ اندازہ کر سکتے ہیں گذشتہ دو سال سے صوبائی اور
وفاقی حکومت کے درمیان ایک ہسپتال تنازعہ طے نہ ہوسکا۔اور آج بدقسمتی سے
صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہی ہیں جبکہ دوسری
جانب سینکڑوں جعلی ادوایات کے استعمال سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔
یاد رکھیے ”جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا۔”
انسانی جانوں سے کھیلنے والے اس دنیا کی عدالتوں سے ممکن ہے ہمارے پیچیدہ
قانونی نظام کے باعث عدم ثبوت کی بناء پر با عزت ہو جائیں مگر خدا عدالت سے
ایسے لوگوں کو گرفت کوئی نہیں بچا سکے گا۔کیونکہ اللہ کا اپنا فرمان ہے کہ
”وہ اپنے حقوق تو معاف کر دے گا مگر اپنے بندوں کے حقوق معاف نہیں کرے
گا۔”اگر آپ کے لیے قیامت بہت دور ہے تو یہ ذہن میں رکھیے گا کہ جس دن آپ کے
سانسوں کی ڈوری کٹ جائے گی اس دن سے آپ کی قیامت شروع ہو جائے گی۔ |