پاکستانی سیاست کودیکھ کر یوں
لگتاہے کہ وہاں شاید کبھی بہار نہ آئے ۔حکمراںطبقہ کی نااہلی تو مسلّم ہے
البتہ فوجی محکمہ کے ساتھ اس کے بگاڑ نے عوامی زندگی کو اور بھی اجیرن
بنادیاہے۔ہمہ وقت یہی ڈرستاتاہے کہ کب اور کہاں کوئی بلاسٹ ہوجائے،پھر بھی
سیاسی لیڈران اپنی گندی سیاست سے باز نہیں آتے۔انہیں فکر ہے تو بس اپنے عیش
وعشرت کی اور جس کے حصول کے لئے وہ کسی بھی قیمتی شی حتی کہ ملک اور قوم کی
سلامتی اور بقاءکے سودے سےبھی گریز نہیں کرتے ۔حکمراں طبقہ میں جب خودداری
کی روح ہی باقی نہیں اور وہ اپنے ضمیر کا سودا اپنی معمولی عیش وعشرت اور
کرسی کی خاطر کرچکے ہیں تو بھلا ان سے مزید اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے
کسی طرح کی بھلائی کے بارے میں کیوں کر توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم یہاں سوچنے
کی بات یہ بھی ہے کہ آخر عوام کس پر بھروسہ کرے اور کسے اپنے ملک کی باگ
ڈور سونپے ،سارے سیاست کے حمام میں ننگے ہیں،اب ملک کی بیچاری مقہور اور
مجبور قوم کے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں بچاکہ وہ بدعنوان حکومت کے خلاف
سڑکوں پر آئیں اورملک کی سلامتی کے لئے ہنر مندی کے ساتھ کچھ مثبت قدم
اٹھائیں،اور لولی،لنگری سیاست کو سنبھالا دیں۔لیکن اس کے لئے ملک وقوم کے
کچھ اعلٰی دماغ سروں کو آگے بڑھناہوگا،وہ اپنے ذاتی مفاد کوبالائے طاق رکھ
کر صرف اور صرف خالص قوم وملت کی صلاح وفلاح کے لئے کام کریں گے اور اپنی
صلاحیت اور دماغی قوت کااستعمال تعمیری کاموں میں لگائیں گے ،اسلامی اور
عصری علوم پر مشتمل بچوں کی مناسب اور اعلٰی تعلیم ان کے نصب العین میں اول
نمبر پر ہونا چاہئے ،وہ اس لئے کہ وہ قوم جلد زوال کاشکار ہوجاتی ہے جو
اپنی تہذیب اورثقافت سمیت دین وایمان کا سودا کرلیتی ہے۔یہاںپر کسی شاعر کا
یہ قول بہت ہی مناسب بیٹھتاہے۔
جوقوم بھلادیتی ہے تاریخ کو اپنی
اس قوم کاجغرافیہ باقی نہیں رہتا
پھر یہ کہ ملک وملت میں بد امنی اور فسادکی اہم وجہ ناخواندگی اور مناسب
اورصحیح تعلیم کا فقدان بھی ہے۔ بعداس کے وہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے
کمر بستہ ہوں۔یہ پاکستان کی سلامتی اور بقاءکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
۔آج دہشت گردی سے متاثرہ خاندان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس اعداد وشمار
میں کسی وبائی مرض سے بھی ہلاکت سامنے نہیں آئی ،جوکہ ملک کے لئے ایک بڑا
چیلینج ہے۔اسی طرح ملکی معیشت پر بھی دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے ،موجودہ
بینکنگ نظام نے سرمایہ داروں کو اور مالا مال کیا لیکن غرباءومساکین کی
حالت مزید بدسے بد تر ہوتی چلی گئی ۔حالت اس قدر ناگفتہ ہیں کہ مالدار
محلوں میں داد عیش لیتے ہیں لیکن غریبوں کے سر چھپانے کو ایک پھونس کی
کٹیاتک نہیں ،یقینا یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے منہ موڑنا حقیقت کاگلا
گھونٹنا ہوگا۔یہ ساری باتیں میرے ہندوستانپر بھی بہت حد تک ثابت آتی ہیں،
جس کے وضاحت کی ضرورت نہیں اہل خرد جانتے ہیں۔آخر میں جس رشتے کی بات کرنے
جارہاہوں وہ ہندوستان اور پاکستان کے پروسی رشتے کی بات ہے ،مجھے نہیں سمجھ
میں آتاکہ دونوں ممالک کے درمیان ہر وقت کسی نہ کسی مسئلہ کو لے کر ٹھنی
کیوں رہتی ہے ،بہت غور وفکر کامقام ہے ،اور اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت
ہے۔پاکستان اور ہندوستان دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم کی حیثیت
رکھتے ہیں ،کوئی اگر ایک دوسرے کے بغیر جینا چاہے تو یہ بہت ہی دشوار کن
مرحلہ ہے ۔اس لیے دونوں ملکوں کی خیر وبقاءترقی وخوشحالی اور سلامتی اسی
میں ہے کہ دونوں اپنے بگڑے تعلقات کو استوار کرکے باہم شیروشکر ہوکر جائیں
اور اس کے لئے نہ تو جذبات کی ضرورت ہے اور نہ ہی انا کے لیے یہاں کوئی جگہ
ہے ،بلکہ سنجیدگی سے غور وفکر کرنے اور ایک مناسب حل تک پہنچنے کی ضرورت
ہے۔ |