چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا وجود مسلمانوں کے لئے کچھ مثبت تو کچھ منفی

یہ وقت انتہائی حساس ترین موضوع جس کو روزنامہ انقلاب کے ذریعہ اٹھایا گیا ہے یہ قضیہ بھی حقیقة مسلمہ ہے قیادت کے مسئلہ سے جڑا ہوا ہے در اصل مسلمان اس وقت ہندوستان میں انتہا ئی بے کسی اور در ماندفی کی زندگی گزار رہا ہے شعوری طور پر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہاں کا حکمراں اور غیر حکمراں طبقہ مسلما نوں سے اس ہزار سا لہ حکو مت کا انتقام لے رہا ہے جومسلما نوں نے غیر معمولی شان وشوکت کے ساتھ کی تھی یہاں کے بیدار مغز غیر مسلم قا ئدین مسلما نوں کے تابناک ما ضی سے لرزاں و تر ساں ہیں کہ کہیں ان کا روشن ما ضی پھر سے اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے مہمیز نہ کرے اس لیے کہ اولا تو ہندوستان کی تاریخ بدلی گئی حقائق پر پر دے ڈالے گئے اب جدید ہند کی تا ریخ 1876 سے شروع ہو تی ہے نہ کہ 1206 سے دوسرے مر حلے میں تقسیم ہند کے بعد مسلما نوں کی جو بھی شیرا زہ بندی تھی اسے پاش پاش کیا گیا تاکہ مسلما ن سیا سی طور پر کبھی اس قابل نہ ہو سکیں کہ ان کی رسائی حکو مت ہو اس بات کو تقویت اس امر سے بھی ملتی ہے کہ ہندوستان کے اندر مسلمان 30کروڑ کی تعداد میں ہو نے کے با وجود بھی ملک گیر سطح پر کوئی پارٹی تشکیل دینے میں اب تک نا کام رہے ۔جبکہ غیر مسلموں نے تقسیم ہند کے بعد بھی بہت سی پار ٹیاںبنا ئیں اور وہ بر سر اقتدار بھی ہوئیں مثلا :بی جے پی ،بی ایس پی،ایس پی اور جے ڈی یو وغیرہ

ایسی پار ٹیاں مسلما نوں کے ذریعہ کیوں وجود میں نہ آسکیں اس کی ایک بنیا دی وجہ یہ ہے کہ اتنا ستائے جا نے کے بعد بھی مسلما نوں کو اب تک ہو ش نہ آیا کہ وہ کسی ایک شخص کو اپنا قائد اور کسی ایک مسلم پار ٹی کو مسلما نوں کی نما ئندہ پا رٹی دل سے تسلیم کر لیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ متبا دل قیا دت نہ ہو نے کی وجہ سے مسلما نوں نے جہا ں چاہا اپنا سر چھپا لیا جس پارٹی سے ان کو ذرا بھی فائدہ ہوا اس سے منسلک ہو گئے جو مسلما نوں میں زیا دہ با ہمت نکلے انھو نے چھو ٹی چھوٹی پر ٹیاں بنا لیں ،جو صوبا ئی سطح پر بھی مؤثر نہ ہو سکیں ایسی صورت حال میں مسلما نوں کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں ایک راستہ یہ ہے کہ مسلما ن تا ریخ کا عا مل بن جا ئے اور مسلما نوں کے ہر مکتبہ فکر و مسلک کے تھینک ٹینک مسلک و گروہ بندی سے با لا تر ہو کر سیا ست کے ایک پلیٹ فارم پر آکر اشتراک عمل کے ساتھ کسی نیشنل پار ٹی کی تشکیل عمل میں لا ئیں اور ملک کے سا رے مسلما ن کم از کم اس کے بینر تلے جمع ہوں ۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مسلما ن تاریخ کا معمول بن کر پر ٹیز کیلئے صرف ووٹ بینک بنا رہے موخر الذکر صورت میں اگر ان کے تمام حقوق نہیں مل رہے ہیں یا ان کے ساتھ مسا وات کا برتاؤ نہیں کیا جا رہا ہے جس کا انھیں شکوہ نہیں کر نا چاہیے کیوں کہ یہ صورت حال خود ان کی اپنی choiceہے ۔ مسلما نوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مسلما نوں کی ایک مضبوط نیشنل پار ٹی ہو نی چاہیے تاکہ انھیں متبا دل قیا دت مل سکے اہی چھوٹی چھوٹی پر ٹیاں تو اس سے کسی نتیجہ خیز عمل کی توقع فضول ہے ۔خدا حافظ ۔

مفتی محمد رضا مصباحی
جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء
ذاکر نگر ،نئی دلی۵۲
MD Dilshad
About the Author: MD Dilshad Read More Articles by MD Dilshad: 3 Articles with 3114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.