امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت
میں لکھتے ہیں کہ ایک شاعر بادشاہ کے دربار میں قصیدہ لکھ کر لایا۔ بادشاہ
ادب اور شاعری کا دلدادہ تھا۔خوش ہو کر اُس نے حکم دیا کہ اس شاعر کو ایک
ہزار اشرفی انعام دیا جائے۔ اُس بادشاہ کا ایک وزیر تھا جس کا نام حسن
تھا۔وہ ایک سخی اور بڑے دل والا انسان تھا۔ اُس نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ
آپ کو شاعر کے مرتبے اور اپنی بادشاہت کے مقام کے مطابق دس ہزار اشرفیا ں
انعام کے طور پر دینا چاہیئں۔ جب شاعر کو یہ انعام ملا تو وہ بڑا خوش ہوا
اور اُس نے دریافت کیا کہ اتنا بڑا انعام اُسے کس کی کوششوں سے ملا ہے۔
اُسے جب پتا چلا کہ یہ وزیر کے مشورے سے ہوا ہے تو اُس نے وزیر کے لیے بھی
ایک قصیدہ تحریر کیا۔
کچھ عرصے بعد شاعر کو پھر رقم کی حاجت ہوئی ۔ اُس کا شاعری کے علاوہ اور
کوئی ہنر یا پیشہ تو تھا نہیں اُس نے پھر ایک قصیدہ تیار کیا اور بادشاہ کی
خدمت میں پیش ہوا۔ بادشاہ نے حسبِ عادت خوش ہو کر ایک ہزار اشرفی انعام
دینے کا کہا۔حسن نامی پہلا وزیر وفات پاچکا تھا اور اُس کی جگہ اتفاق سے
حسن نام کا ہی ایک انتہائی کنجوس اور بد نیت وزیرمعمور تھا۔اُس وزیر نے
بادشاہ کو مشورہ دیا کہ چونکہ مملکت کے امور چلانے پر بہت مصارف آرہے ہیں
اور شاعر کے لیے ایک ہزار اشرفی کا انعام بہت زیادہ ہے اسے صرف چالیسواں
حصہ ہی دینا چاہیے۔بادشاہ نے کہا کہ اُسے پہلے بہت زیادہ انعام دیا گیا تھا
اور وہ کم پر راضی نہیں ہو گا۔ اُس وزیر نے کہا جب میں اُسے موت دکھاﺅں گا
تو وہ زحمت قبول کر لے گا آپ اُسے میرے حوالے کر دیں۔ایسا ہی ہوا وزیر نے
شاعر کو پھر آنے کو کہا اور بارہا وعدے وعید پر ٹالتا رہا۔بالآخر شاعر نے
تنگ آکر کہا کہ مجھے انعام نہ دیں گالی ہی دے دیں لیکن روز روز کے عذاب سے
نجات دلا دیں۔اُس وزیر نے جب یہ کیفیت دیکھی تو اُسے ایک ہزار کے چالیسویں
حصے پر ٹرخا دیا۔شاعر سے لوگوں نے دریافت کیا کہ اس وزیر کا کیا نام ہے تو
شاعر نے کہا کہ اس کا نام بھی حسن ہے مگر وہ پہلا وزیر جس کا نام حسن تھا
وہ لوگوں پر احسان رکھتا تھا وہ خود تو وفات پا گیا ہے لیکن اُس کا نام اور
احسان زندہ ہے اور یہ دوسراحسن نامی وزیر زندہ ہے مگر اپنے عمل اور بدخوئی
کی وجہ سے مردہ ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں کا نام حسن ہے ۔ وہ پہلا حسن
تھا کہ اُس کی جنبشِ قلم سے سینکڑوں حاجت مند پرورش پاتے تھے اور یہ حسن
ایسا ہے کہ اس کی بدنما داڑھی سے سو رسیاں بٹی جاتی ہیں۔
قارئین! امام رومی کی آج کی طویل حکایت سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جب عوام موت
کے صدمے کی مانند ڈکٹیٹر شپ اور فوجی حکمرانی سے تنگ آتے ہیں اور ”سب سے
پہلے پاکستان“ کے نعرے کے بطن سے ہزاروں مصیبتوں کو جنم لیتا ہوا دیکھتے
ہیں تو وہ اضطراب کے عالم میں”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے“ کو ایک بخار
سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں لیکن پھر انکشاف ہوتا ہے کہ یہ مصیبت جسے بخار
سمجھ کر قبول کیا گیا تھا یہ تو ایک اور موت کا عمل ہے۔پوری پاکستانی قوم
گزشتہ 63سالوں سے پے درپے اسی موت در موت کے عمل سے گزر رہے ہیں۔اور پوری
قوم اس وقت ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں ہے جو نگاہ بلند رکھتا ہو، جس کی
سخن دلنواز ہو اور جس کی جاں پر سوز ہو۔
بقول اقبال
نگاہ بلند، سخن دلنواز ، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
اس وقت ذلت در ذلت کے عمل سے گزرتے ہوئے ہم قومی سطح پر ایک ایسے مقام پر
گر چکے ہیں کہ شائد اس سے زیادہ گراوٹ ممکن نہیں ہے۔اقوامِ عالم میں ہم
کرپٹ ترین قوموں کی فہرست میں شامل ہیں، امن و امان کے حوالے سے ہمارا ملک
دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے اور حتیٰ کہ اس معاملے
میں ہم عراق اور افغانستان سے بھی بازی لے چکے ہیں، غربت، جہالت،معاشی
استحصال سے لے کر وہ تمام برائیاں اور بیماریاں ہمارے اندر سرائیت کر چکی
ہیں جو کسی بھی قوم کے لیے زہرِ قاتل ہوتی ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف
مناسب قیادت کا نہ ہونا ہے۔ہم وہ قوم بن چکے ہیں کہ جو ہر الیکشن کے موقع
پر موت سے پناہ مانگتے ہوئے بخار پر راضی ہو جاتے ہیںاور بڑی برائی سے
چھوٹی برائی کی جانب سفر شروع کر دیتے ہیں اور جب منزل پر پہنچنے ہیں تو
پتا چلتا ہے کہ وہاں پر پہلی بڑی بُرائی سے بھی بڑی بُرائی انتظار کر رہی
ہے۔ہمیں خودی کے نشے میں ڈوب کر مقامِ بندگی حاصل کرنا ہو گا اور حکیم
الامت علامہ اقبال ؒ کے سبق کو از سرِ نو پڑھنا اور سمجھنا ہو گا
متاعِ بے ہہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی ، وہاں جینے کی پابندی!
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
قارئین! اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کرپشن، میرٹ کا قتل ،
استحصال ، ظلم وستم اور دیگر تمام علتیں ختم ہو جائیں تو ہمیں اس کے لیے
اظہار کو اپنانا ہو گا۔ورنہ اسی طریقے سے ہمارے ہی وسائل سے پلنے والے
جانور ہمارے ہی مسائل کو اپنے لیے وسائل بنا کر جیتے رہیں گے اور اسی طرح
ملک میں کرپشن پھیلتی رہے گی۔انقلاب آج کی آواز ہے۔ سرزمینِ عرب جاگ چکی ہے
اور اب مشرق کی باری ہے کہ یہاں کی سوادِ اعظم بھی جاگے اور نئے قیادت
ڈھونڈ کر اپنی منزل کا تعین کرے۔ ورنہ آسمانوں میں ہماری بربادیوں کے مشورے
پہلے بھی جاری تھے اور آئندہ بھی ہم تباہی و بربادی کی طرف بڑھتے چلے جائیں
گے۔ظالم کا ساتھ دینا اور بات ہے اور چُپ رہ کر خاموشی اختیار کر کے ظلم
برداشت کرنا ایک انوکھی نوعیت کا ظلم ہے اور ایسا کرنے والا بھی ظالم ہی
کہلائے گا۔غیرت مند افراد اور قومیں جب جینے کا حق کھو دیتی ہیں تو وہ پھر
مرنے کا حق استعمال کرتی ہیں۔پاکستان اور آزادکشمیر کے معروضی حالات اس وقت
دعوت دے رہے ہیں کہ خاموشی ترک کر کے سراپا نالہ بن کر پوری قوم جاگے اور
اپنی بیداری کو ثبوت دے۔اسی حوالے سے حسب روایت لطیفہ آپ کی نذر ہے۔
استاد نے شاگرد سے پوچھا!”اُس نے خود کشی کر لی اور اُسے خودکشی کرنی
پڑی....“ان دونوں جملوں میں فرق واضح کرو۔
شاگرد نے کہا! سر جی اس کا تو سیدھا سادھا جواب ہے۔ پہلا جملہ ظاہر کرتا ہے
کہ مقتول پڑھا لکھا بیروزگار تھا اور دوسرے جملے سے پتا چلتا ہے کہ وہ شادی
شدہ تھا....!
قارئین ! ہم اس وقت خود کشی کے عمل سے گزررہے ہیں۔ یاد رکھئے ظلم پر چپ
رہنا شرافت نہیں بلکہ بہت بڑی بددیانتی ہے۔ |