جمعیت علماءاسلام کے تحت مزار
قائد سے متصل گراﺅنڈ میں 27 جنوری 2011ءکو ہونے والی تاریخی ”اسلام زندہ
باد کانفرنس“ نے کراچی میں سیاسی اور مذہبی جلسوں کی نئی تاریخ رقم کردی ہے۔
یہ کانفرنس جہاں جمعیت کی مرکزی، صوبائی اور مقامی قیادت، کارکنوں اور دینی
طبقے کے لیے حوصلہ افزاہے، وہیں کئی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے
لوگ بالخصوص عالمی سامراج اور پاکستان میں اس کے ایجنٹ پریشانی سے دوچار
ہیں۔
9/11 کے بعد سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے اسلام اور پاکستان دشمن اقدامات
اور پالیسیوں نے ملک میں اسلام پسندوں پرزمین تنگ کردی۔ فوجی آمر اور اس کے
آقا کا مقصد ملک میں اسلام پسندی کو ختم کرکے مغربی تہذیب کو فروغ دینا تھا،
جس کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا گیا۔ دینی اداروں اور مدارس کو نشانہ
بنایا گیا، سینکڑوں مذہبی کارکنوں اور علماءکو قتل اور ہزاروں کو زندانوں
میں پھینک دیا گیامگر حق اور باطل کی اس جنگ میں بالآخر باطل بھاگ گیا اور
حق کو فتح ہوئی۔جمعیت علماءاسلام کی کراچی میں اسلام زندہ باد کانفرنس بھی
اسی فتح کی نشانی ہے۔
اسی مقام پر 25 دسمبر 2011ءکو عمران خان کے جلسے کے بعد بعض حلقوں کی طرف
سے یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ خان کی سونامی نے پاکستانی عوام بالخصوص کراچی
کے مذہبی طبقے میں نقب لگادی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اسی جلسے
میں اعلان کیا کہ وہ ملک میں خلافت راشدہ کا نظام نافذ کرکے پاکستان کو
اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں، مگر بینڈ باجے اور مغربی طرز اس کی
تردید کر رہا تھا۔ عمران خان کے جلسے کی کامیابی نے کراچی میں متحدہ قومی
موومنٹ، جمعیت علماءاسلام، جماعت اسلامی،عوامی نیشنل پارٹی اورپیپلزپارٹی
کی سیاسی قوت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ جمعیت علماءاسلام نے کامیاب
کانفرنس کے ذریعے اپنے حصے کا نہ صرف جواب دےدیابلکہ یہ ثابت کردیا ہے کہ
جمعیت پہلے سے زیادہ منظم ومضبوط اور متحرک ہے۔ جمعیت علماءاسلام نے کراچی
میں9 اکتوبر 1999ءکے بعد پہلی مرتبہ تنہااپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا جو
انتہائی کامیاب رہا۔کراچی میں بڑے جلسوں کا ریکارڈ ہے، مگر 27 جنوری کو
جمعیت کی اسلام زندہ باد کانفرنس نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے۔
50 سال سے شعبہ صحافت و انتظامیہ سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کراچی کی
تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ 1990ءمیں متحدہ اپوزیشن کے زیر اہتمام شارع قائدین
پر ہوا، اس کے بعد25 دسمبر 2011ءکو عمران خان نے اس کا ریکارڈ توڑا۔ انہی
شاہدین کا اب یہ دعویٰ ہے کہ جمعیت علماءاسلام کی کانفرنس عمران خان کے
جلسے کے مقابلے میں دوگنا تھی اور محتاط اندازہ 3 سے 4 لاکھ افراد کا لگایا
گیا ہے۔ کانفرنس کی اس حد تک کامیابی کی امید خود جمعیت علماءاسلام کو کسی
سطح پر نہ تھی۔ اسٹیج سے باب الرحمت مسجد، نورانی (نمائش )چورنگی، شارع
قائدین، نیو پریڈی اسٹریٹ اور قرب وجوار کے علاقے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں
تھی۔ ہر طرف سر ہی سر اور جمعیت کے سفید اور کالی دھاریوں پر مشتمل جھنڈے
ہی نظر آتے تھے۔ ہزاروں شرکا جگہ کی تنگی کی وجہ سے مزار قائد کے اندر اور
ایک بڑی تعداد مزار کے گنبد کے صحن پر بیٹھ کر جلسہ سن رہے تھے۔ جن کے
ہاتھوں میں جمعیت علماءاسلام کے جھنڈے لہرا رہے تھے اورشرکاءکا جوش وجذبہ
بھی قابل دید تھا۔ سرکاری ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شرکاءکی تعداد
3لاکھ سے زائد تھی جب کہ کانفرنس کی انتظامیہ کے سربراہ قاری عثمان کا دعویٰ
ہے کہ یہ تعداد 14 لاکھ کے قریب ہے۔ جن لوگوں نے عمران خان کے جلسے کے
شرکاءکی تعداد 7 لاکھ قرار دی تھی ان کے جواب میں قاری عثمان کا یہ دعویٰ
درست قرار دیا جاسکتا ہے۔عام تعطیل نہ ہونے کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں
لوگوں کی شرکت جمعیت کی بڑی کامیابی ہے۔
کانفرنس کا آغاز مقررہ وقت پر ٹھیک 3 بجے تلاوت قرآن پاک سے ہوا اور درمیان
میں نماز عصر اور مغرب کے لیے مجموعی طور پر 25 منٹ کے وقفے کے ساتھ رات 10
بج کر 3 منٹ دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ اور کانفرنس 7 گھنٹے سے زاید تک
جاری رہی۔ اس دوران دو درجن سے زائد مقررین نے اردو، پشتو، ہندکو اور سندھی
زبانوں میں خطاب کیا اور انہی زبانوں میں نعتیں اور جذباتی نظمیں پڑھی
گئیں۔ کانفرنس کے لیے دو اسٹیج بنائے گئے تھے ایک مقررین اور قیادت کے لیے
جب کہ دوسرا میڈیا کے لیے مختص تھا۔ شرکاءکے لیے تو کرسیاں لگائی گئیں، جب
کہ مقررین اور قیادت کو فرشی نشستیں فراہم کی گئیں جو مذہبی جلسوں کا ایک
معمول ہے۔ جمعیت علماءاسلام کراچی کے سیکریٹری اطلاعات محمد اسلم غوری کا
کہنا ہے کہ اگر ہمیں صحیح اندازہ ہوتا تو کرسیوں کی جگہ دریاں بچھاتے۔ شرکا
کے جوش وجذبے کا یہ عالم تھا کہ کرسیاں کم پڑنے پربیشتر شرکا نے کرسیوں کو
ایک طرف اٹھا کر رکھ دیا اور مٹی پر بیٹھ گئے۔ اس طرح کا جوش وجذبہ مذہبی
طبقوں میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک روز قبل مقامی
ہوٹل میں پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیا تھا کہ تاریخی اسلام زندہ باد
کانفرنس ملکی سیاست کو ایک نیا رخ اور پیغام دے گی، یقینا مولانا فضل
الرحمن اور ان کی جماعت نے تاریخی کانفرنس کے ذریعے اپنے اس دعوےٰ کو سچ
ثابت کردیا ہے۔
جمعیت علماءاسلام کے رہنماﺅں کے مطابق عمران خان کے ”سونامی“ اور پرویز
مشرف کے ”زلزلے“ کے بعد شہر قائد میں جو تباہ کاریاں ہوئی تھیں، جمعیت کی
کانفرنس نے ان تباہ کاریوں کے بعد اب تعمیر کا کردار ادا کیا۔ ویسے سونامی
اور زلزلے کے حوالے سے چند روز قبل مولانا سمیع الحق کا انتہائی دلچسپ
تبصرہ سچ ثابت ہوا کہ سونامی اور زلزلہ یہ قدرت کے عذاب ہیں جو محدود وقت
کے لیے ہوتے ہیں۔ سونامی آیا اور تباہ کاریوں کے ساتھ واپس چلا گیا اور اب
خود عمران خان ان تباہ کاریوں سے پریشان نظر آتے ہیں۔ رہی بات 5 سے 7 ہزار
کے جلسے کو زلزلہ قرار دے کر 27 سے 30 جنوری 2012ءکے درمیان وطن واپسی کا
اعلان کرنے والے پرویز مشرف کی، تو ان کے تمام خوابوں کو زلزلے نے چکنا چور
کردیا اور اب وطن واپس آنے سے نہ صرف گریزاں بلکہ واضح اعلان بھی کردیا ہے۔
پرویز مشرف نے اسی گراﺅنڈ میں 2001ءمیں اپنی سیاسی زندگی کے سفر کا آغاز
کیا اور اب یہی گراﺅنڈ ان کے سیاسی سفر کے اختتام کا سبب بنا۔
عمران خان اور پرویز مشرف کے جلسے اس لیے بھی سوالیہ نشان تھے کہ ان کا
تمام کام اور سرگرمیاں کرائے پر ہوئی تھیں۔ اسی لیے ان کو رینٹل جلسے بھی
قرار دیا جاتا ہے، لیکن جمعیت علماءاسلام کی تاریخ ساز کانفرنس جمعیت کے
کارکنوں کے جوش و جذبے اور محنت شاقہ کا ایک عملی نمونہ تھی۔ یقینا اسلام
زندہ باد کانفرنس مذہبی قوتوں کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوگی اور امید ہے کہ
اسی طرح کے جذبات کا اظہار 12 فروری2012ءکو دفاع پاکستان کونسل کے تحت اسی
گراﺅنڈ میں ہونے والی دفاع پاکستان کانفرنس اور 26 فروری2012ءکو جماعت
اسلامی کے جلسے سے کیا جائے گا۔ اگرچہ 26 فروری2012ءکو عوامی نیشنل پارٹی
نے بھی اسی گراﺅنڈ میں جلسے کا اعلان کیا ہے، تاہم امکان یہی ہے کہ اے این
پی نے جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا تو جماعت اسلامی اپنے جلسے کو کچھ دنوں کے
لیے موخر کردے گی، تاہم جمعیت علماءاسلام کی جانب سے عمران خان اور ان کے
سرپرستوں کو ملنے والے منہ توڑ جواب کے بعد جماعت اسلامی، عوامی نیشنل
پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اورپیپلز پارٹی پر عمران خان کا قرض باقی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کراچی میں بڑے جلسوں کا ریکارڈ ر کھتی ہے، مگراس کو بھی
اب پھر اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اب بھی اس
شہر کی سب سے بڑی قوت ہے۔
28 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس گراﺅنڈ پر جلسہ کے اعلان سے پہلے ہزار مرتبہ
سوچنا پڑتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماءاسلام کی تاریخی کانفرنس کئی
سیاسی ومذہبی جماعتوں کے لیے مشکلات کا سبب بنی ہے۔ کانفرنس کی کامیابی ان
لوگوں کے لیے بھی جواب ہے جو یہ کہتے تھے کہ جمعیت علماءاسلام بالخصوص
مولانا فضل الرحمن کی پالیسیوں کی وجہ سے عوامی سطح پر ان کی ساکھ متاثر
ہوئی ہے۔ کانفرنس کی کامیابی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کی ساکھ متاثر
نہیں، بلکہ مزید مضبوط اور مستحکم ہوئی ہے اور وہ جس حلقہ یا مکتبہ فکر کی
نمائندگی کرتے ہیں اب بھی وہ مکتبہ فکر کے لیے سیاسی سطح پر مولانا فضل
الرحمن کو ہی اپنا قائد تسلیم کر تا ہے۔ اگرچہ پالیسیوں کے حوالے سے بعض
جگہ اختلاف ہے، لیکن سیاسی میدان میں دیو بند مکتبہ فکرکے لیے جمعیت
علماءاسلام شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتی ہے۔
کانفرنس کی کئی جید علماءنے نہ صرف حمایت کی بلکہ علالت کے باوجود خود شریک
ہوئے۔ جن میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث مولانا
سلیم اللہ خان، سجاول سے ممتاز عالم دین مولانا عبدالغفور قاسمی، عالمی
مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر اور
دیگر قابلِ ذکر ہیں۔ کانفرنس ان لوگوں کے لیے بھی منہ توڑ جواب ہے جو جمعیت
کے سینئر رہنما حافظ حسین احمد کی دیگر جماعتوں میں شمولیت کے حوالے سے
خبریں پھیلا رہے تھے۔ حافظ حسین احمد کی اس کانفرنس میں نہ صرف شرکت بلکہ
پرجوش اور ولولہ انگیز تقریر نے سب کے منہ بند کردیئے اور حافظ حسین احمد
نے بھی اپنے اس قول کو سچ ثابت کردیا ہے کہ جمعیت میں پیدا ہوا اور جمعیت
میں ہی مروں گا۔ تاہم جمعیت علماءاسلام کی قیادت کو بھی بعض پالیسیوں پر
بھی غور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے کس رہنما کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کرتی
ہے اور ان کے اس رویے سے کس کے جذبات کو کتنا ٹھیس پہنچتا ہے اور کتنے لوگ
حافظ حسین احمد جیسے حوصلے سے اس کو برداشت کرتے ہیں۔
جمعیت علماءاسلام نے کراچی میں جلسوں کی حد تک ایک نئی تاریخ تو رقم کردی ،
لیکن انتخابی میدان میں کامیابی کےلئے نہ صرف جمعیت بلکہ تمام مذہبی قوتوں
کو ایک نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کےلئے سب کا اتحاد لازمی
ہے۔ جمعیت علماءاسلام یا کوئی اور مذہبی قوت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ تنہا
موجودہ نظام میں کامیابی حاصل کرے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔ گزشتہ 7
انتخابات کا جائزہ لیں تو مذہبی قوتوں کی شکست اور ناکامی کا سبب ان کی
تنہا پرواز بنی ہے۔ 2002ءمیں پہلی مرتبہ مذہبی قوتیں متحد ہوئیں اور اس کا
نتیجہ ایم ایم اے کی کامیابی کی صورت میں ملا اور اب بھی مذہبی قوتیں متحد
نہ ہوئیں تو بڑے اور تاریخی جلسوں کے باوجود ان کے مقدر میں سوائے ناکامی
کے کچھ نہیں آئے گا۔اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں مذہبی قوتوں
بالخصوص جمعیت کی راہ میں رکاوٹ اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا ہے، لیکن
اسٹیبشلمنٹ بھی مذہبی قوتوں میں انتشار کے ذریعے فائدہ اٹھاتی ہے۔ اگر یہ
قوتیں متحد ومنظم ہوں گی، تو اسٹیبلشمنٹ اور مقتدر قوتوں کو فائدہ اٹھانے
کا موقع نہیں ملے گا۔ جمعیت علماءاسلام کا ایک بڑی مذہبی قوت ہونے کے ناطے
یہ فرض بنتا ہے کہ وہ دیگر تمام مذہبی قوتوں سے رابطے کرے اور انہیں ایک
مرتبہ پھر ایم ایم اے کی طرز پر ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کرے، تاکہ مستقبل
میں ایک مذہبی اتحاد قائم ہو جو ایک اسلامی فلاحی ریاست کے خواب کو پورا
کرنے کی کوشش کرے۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام پر زیادہ ذمہ داریاں عائد
ہوتی ہیں۔ اتحاد کی صورت میں اگر کوئی کامیابی ملتی ہے تو اس کا کریڈٹ بھی
ان دونوں جماعتوں کو جائے گا۔ اگر مذہبی قوتوں کو کسی ناکامی کا سامنا کرنا
پڑے تو بھی ذمہ دار یہی دونوں جماعتی ہوں گی۔ اس لئے ان کو اپنی ذمہ داری
کا احساس کرتے ہوئے اپنی انا سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر امت مسلمہ کے مفاد اور
مغربی وار پر غور کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو بڑے بڑے جلسے اور
کانفرنسیں مستقبل کے حوالے سے امید کی کرن کے بجائے تاریکی اور شکست
وناکامی کا سبب بنے گی جس کےلئے مغربی قوتیں اور ان کے حواری قیام پاکستان
سے ہی سرگرم عمل ہےں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مذہبی قوتیں ماضی سے کتنا سبق
حاصل اور ان کامیابی جلسوں اور کانفرنسز سے کتنا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ |