آن لائن بینکنگ کے رجحانات اور دھوکے

انٹرنیٹ نے انسان کے لئے روابط سمیت متعدد معاملات کو آسان بنا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کا استعمال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کاروباری و عام افراد کے لئے رقوم کی منتقلی و ادائیگی ایک بہت بڑا مسئلہ تھی، لوگوں کو بینکس کے چکر کاٹنے پڑتے تھے مگر اب انٹرنیٹ کی بدولت یہ تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ آن لائن بینکنگ کے ذریعے لوگ اپنے بنک اکاﺅنٹ کو خود اپنی مرضی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسے جب چاہیں انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے رقم منتقلی، اکاﺅنٹ بیلنس چیکنگ، بینک اسٹیٹمنٹ، چیک کی تفصیلات، پہلے کی کی گئی ٹرانزیکشن، لون اسٹیٹمنٹ، رقم کی ادائیگی، رقم کی منتقلی اور بل پیمنٹ پروسیسنگ وغیرہ کی جاسکتی ہیں۔

حکومت اور اس کے اداروں کی جانب سے بھی آن لائن سسٹم کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ حال ہی میں پورے پاکستان میں نیشنل بینک آف (این بی پی) پاکستان کی 500 سے زائد شاخوں کو آن لائن کر دیا گیا ہے۔ این بی پی کے آن لائن ہو جانے کی بدولت صارفین اب انٹر برانچ ٹرانزکیشن کے ذریعہ کسی بھی دوسری برانچ سے رقم جمع یا نکال سکتے ہیں۔ ٹیکنولوجی کے اعتبار سے ملک کا سب سے ترقی یافتہ بینک بنانے کے لیے این بی پی نے حال ہی میں متعدد آئی ٹی پروجیکٹس کا آغاز کیا ہے۔ اِس وقت بھی کور بینکنگ سسٹم کے نام سے ایک پروجیکٹ پر عمل ہورہا ہے جو پاکستان میں آئی ٹی کے بڑے پروجیکٹس میں سے ایک ہے اور جس میں بینکنگ کے تمام فنکشنزشامل ہیں۔

سرکاری بنکس کے علاوہ غیر سرکاری بنکس جیسے سمٹ، فیصل بنک، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک بھی آن لائن بینکنگ فراہم کر رہے ہیں۔

سرکاری ادارے واسا نے پانی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے آن لائن بینکنگ سسٹم شروع کردیا ہے۔ آن لائن بینکنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صارفین انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے بیٹھے بل ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد سرکاری و غیر سرکاری ادارے آن لائن بلنگ و بینکنگ کا افتتاح کر چکے ہیں۔

انٹرنیٹ بینکنگ آہستہ آہستہ سہولت سے بڑھ کر ضرورت بننا شروع ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ بینکنگ سے پہلے کئی فوری سہولیات ناممکنات میں شمار کی جاتی تھیں مگر اب یہ ایک عام سی بات بن کر رہ گئی ہیں ۔ انٹرنیٹ بینکنگ کے فروغ کے ساتھ ساتھ ایسے خطرات بھی بھی پیدا ہو گئے ہیں جو انٹرنیٹ بینکنگ سے پہلے ناپید تھے۔ ہر چیز کے کچھ فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں، انٹرنیٹ بینکنگ کے بھی فوائد کے ساتھ نقصانات ہیں تاہم ان نقصانات سے تھوڑی سی احتیاط کے ساتھ بچا جا سکتا ہے۔

دنیاکی طرح پاکستان میں بھی جہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعدادمیں اضافہ ہورہاہے وہیں سائبرکرائم کی وارداتوں میں بھی ریکارڈاضافہ ہواہے۔ ایف آئی اے سائبرکرائم یونٹ کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں گزشتہ چار برسوں کے دوران سائبرکرائم کی وارداتوںمیںچار گنا اضافہ ہواہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد دوکروڑکے لگ بھگ ہے۔ انٹرنیٹ کے علاوہ موبائل فون، اے ٹی ایم وکریڈٹ کارڈ، آن لائن بینکنگ بھی نت نئے پیکجزکے ساتھ متعارف کروائے جارہے ہیں جس سے شہریوں کے ساتھ ہونے والے سائبرکرائم کی وارداتوںمیں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ پوری دنیامیں اس وقت سائبرکرائم کے ملزمان نت نئے انداز و طریقوں سے شہریوں کونشانہ بنارہے ہیں جبکہ اب دیگراقسام کی وارداتوں کے مقابلے میں ان کی تعدادبڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان میںسائبرکرائم مختلف صورتوں میں ہورہے ہیںجن میں سائبرفورنوگرافی (فحش موادکی فراہمی)، ای میل اورویب سائٹ کی ہیکنگ، انٹی لیکچول پراپرٹی کرائمز، وائرس اور ٹروجین کے حملے، کمپیوٹرکے ذریعے منی لانڈرنگ ،پاس ورڈچوری کرنااورآن لائن بینکنگ میںدھوکہ دہی (یعنی اے ٹی ایم یا کریڈٹ کارڈزکوغلط طریقے سے استعمال کرنا)، الیکٹرونک فارمزسے ڈیٹا یامعلومات چوری کرنا اوردیگرشامل ہیں۔ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق چندماہ کے دوران ایوان صدر،سپریم کورٹ آف پاکستان سمیت 40 سرکاری اورغیرسرکاری پاکستانی ویب سائٹیں بھی ہیک کی گئیں۔ انٹرنیٹ بینکنگ کی سہولت کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات ہمیشہ ذہن میں رکھیے۔

ہمیشہ بینک کی ویب سائٹ تک اپنے محفوظ شدہ بک مارک یا براہ راست ٹائپنگ کے ذریعے رسائی حاصل کریں۔ ای میل، ایس ایم ایس یا دوسری ڈیجیٹل دستاویزات میں موجود لنکس چاہے بظاہر محفوظ نظر آتے ہوں استعمال کرنے سے گریز کریں۔ یہ ضروری نہیں کہ جو لنک ای میل یا ایس ایم ایس میں ظاہر ہورہا ہو اصل ربط بھی آپ کو اسی ویب سائٹ پر لے کر جائے۔ جعلی ای میلز غیر قانونی ذرائع سے آپ کے اکاونٹ تک رسائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔

اپنا آئی ڈی اور پاس ورڈ استعمال کرنے سے پہلے اس بات کا اطمینان کرلیں کہ بنک ویب سائٹ مناسب طریقے سے سیکیور کی گئی ہے اور توثیقی سیکیورٹی سرٹیفیکٹ بھی موجود ہے۔ جدید ویب براوزرز آپ کے لیے ان تمام چیزوں کو بڑی حد تک یقینی بناتے ہیں چناچہ حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کرتے ہوئے اپنے براوزر پر اعتماد کریں اور اس کے مختلف اشاروں پر نظر رکھیں اور ان کی مکمل معلومات رکھیں۔ محفوظ ویب سائٹس کئی طرح سےپرکھی جاسکتی ہیں۔ آپ براوزر کے اسٹیٹس بار میں انتہائی دائیں جانب ایک تالے کے نشان پر ڈبل کلک کرکے سرٹیفیکٹ چیک کرسکتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ تمام نئے براوز سرٹیکفیٹ کو خود کار طریقے سے پرکھ کر یو آر ایل بار کے بائیں جانب سبز، پیلا، نیلا یا سرخ رنگ کا نشان بنا دیتے ہیں۔ سرخ رنگ نمایاں ہونے کی صورت میں براوز ویسے بھی آپ کو انتباہ کرے گا اور فوری طور پر آپ کو اس ویب سائٹ کو بند کردینا چاہیے۔ پیلا اور نیلا رنگ ایک درست سرٹیفیکٹ کی نشاندہی کرتا ہے اور سبز رنگ بینک یا ادارے کے ایکسٹینڈڈ ویلیڈیشن سرٹیفیکٹ کی نشاندہی کرتا ہے جو کم از کم اب بینکوں کو استعمال کرنی چاہیے۔ اپنا آئی ڈی، پاس ورڈ اور کارڈز ہمشہ محفوظ رکھیں اور قریبی رشتہ داروں کو بھی ایڈیشنل کارڈ یا ایڈیشنل اکاونٹ کے ذریعے محدود رسائی فراہم کریں۔ کسی بھی پبلک کمپیوٹر جیسے سائبر کیفے، پبلک ہوٹ اسپوٹ یعنی کافی شوپ، شوپنگ مال اور ائیر پورٹ پر بینک اکاونٹ استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ کی بورڈ لوگنگ اور ہوٹ اسپوٹ مانیٹرنگ ٹولز کے ذریعے آپ کے اکاونٹ کی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔غیر محفوظ یا غیر مقبول ویب سائٹس سے خریداری کرتے ہوئے اپنا ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ استعمال نہ کریں۔ ایسی ویب سائٹس پر خریداری کرنے کے لیے پے گیٹ وے جیسے پے پال، گوگل چیک آوٹ یا ورچوئل کارڈ استعمال کریں۔

اکثر بینک خود کار ای میل اور ایس ایم ایس کی سہولت فراہم کرتے ہیں جو کسی خاص حد سے بڑی ٹرانزیکشن یا کسی دوسری غیر معمولی صورت حال میں آپ کو فوری اطلاع دیتے ہیں ہر ممکن کوشش کریں کہ آپ اس سہولت کا مناسب استعمال کررہے ہیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کی بروقت اطلاع مل سکے۔ اجنبی لوگوں سے روابط کم سے کم رکھیں خاص طور پر غیر معقول شناخت استعمال کرنے والے سائبر جرائم پیشہ ا فراد آپ کو یا آپ کی شہرت کو بڑا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے سائبرکرائمزکی وارداتوںپر قابوپانے کے لیے قائم کیا گیا ادارہ ”نیشنل رسپانسسنٹر فار سائبرکرائمز“(جسے مختصر این آر تھری سی کہاجاتاہے) بھی اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکا ہے جس کی بنیادی وجوہات میں شہریوں کے اس ادارے کے بارے اورسائبرکرائم کے بارے میں شعورکانہ ہوناہے ۔

ایف آئی اے سائبر کرائم یونٹ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2007ء میںیونٹ کوسائبرکرائم کی وارداتوں کے حوالے سے ملنے والی شکایات کی تعداد 62 اور 2008ء میں 287 تھی جبکہ 2009ء میں یہ تعدادکم ہوگئی تھی مگر2010ء میںیونٹ کے پاس موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد 312 تھی۔ یونٹ کے ایک سینئراہلکارکے مطابق ایف آئی اے کرائم سیل کے پاس رجسٹرڈہونے والے شکایتیں ملک بھرمیں ہونے والی سائبرکرائم کی وارداتوں کی اصل تعداد کے 10 فیصد سے بھی کم ہے جس کی وجہ شہریوں میں سائبرکرائم کے قانون اورادارے کے حوالے سے شعوروآگہی کی کمی ہے جس کے سبب 90 فیصد سے زائدسائبرکرائم کی وارداتیں رپورٹ نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں سائبر کرائم کو روکنے کے لئے قانوں بنانے اور ان پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
Syed Muhammad Abid
About the Author: Syed Muhammad Abid Read More Articles by Syed Muhammad Abid: 52 Articles with 71835 views I m From Weekly Technologytimes News Paper.. View More