پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ملک کی
اقتصادی اور معاشی حالت کو بہتر بنانے میں زراعت کے ساتھ ساتھ جنگلات کا
کردار بھی بہت اہم ہے۔ درخت قدرت کی طرف سے انسان کیلئے ایک بہت خوبصورت
تحفہ ہیں، سخت موسمی حالات اور غیر موافق ماحول اور کمزور زمینوں میں
درختوں کی کارگردگی عام فصلوں کی نسبت بہتر ہوتی ہے، کاشتکار اپنی پوری
کوشش اور ٹیکنالوجی کی مدد کے باوجود 100 فیصد زمین کاشت نہیں کرسکتا اس کے
پاس کھالوں، وٹوں، رستوں اور عمارات کے ارد گرد کافی جگہ بچ جاتی ہے، ضرورت
اس امر کی ہے کہ ہم اس زائد زمین کو خوبصورتی کے ساتھ اپنے استعمال میں
لائیں تاکہ ہمیں کچھ مالی فوائد بھی حاصل ہو سکیں۔ اس مقصد کی خاطر شجر
کاری کی جا سکتی ہے، اور ایسے درخت جو فصلوں سے مطابقت رکھتے ہیں وہ فصلوں
کے ساتھ ساتھ کاشت کئے جا سکتے ہیں یا پھر ایسے درخت جو فصلوں کی کاشت
کیلئے غیر موزوں ہوں وہ غیر آباد، بنجر یا غیر مستعمل زرعی زمینوں پر کاشت
کئے جاسکتے ہیں اس قسم کی شجر کاری کیلئے مقامی انواع کو فروغ دینا بہت
ضروری ہے، لیکن بد قسمتی سے صرف غیر ملکی انواع کو متعارف کرواکر یہ سمجھ
لیا گیا ہے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے، غیر آباد اور غیرمستعمل زرعی
زمینوں پر سخت اور خشک آب و ہوا میں اعلٰی کارگردگی کا مظاہرہ کرنے والا
ایک درخت ”فراش“ ہے لیکن بد قسمتی سے اعلٰی خصوصیت کے حامل اس درخت کو شجر
کاری مہم کے دوران نظر انداز کیا جاتا ہے، فراز ایک درمیانے قد کا خوبصورت
درخت ہے اور یہ تقریباََ 12 میٹر تک بلند ہو سکتا ہے، اس کا تنا مخروطی اور
سیدھا ہوتا ہے اور پتے باریک اور نوکیلے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے یہ چیڑ سے
ملتا جلتا ہے، اور اس کی چھتری کم پھیلاﺅ والی ہوتی ہے، فراش کے پتے سردی
کے موسم میں جزوی طور پر گر جاتے ہیں اور مئی کے مہینے میں نئی شاخیں اور
پتے نمودار ہوتے ہیں اور مئی سے جولائی تک شاخوں پر سفید رنگ کے چھوٹے
شھوٹے پھول کھلتے ہیں، فراش کا طبعی مسکن پاکستان، مشرق وسطیٰ اور وسطی
ایشیاءہے، پنجاب کے میدان فراش کا گھر ہیں، فراش بہت سخت جان درخت ہے، یہ
نہ صرف بہت شدید گرمی برداشت کر سکتا ہے بلکہ کہرا بھی اس کو نقصان نہیں
پہنچا سکتا یہ منفی ایک سینٹی گریڈ سے لیکر50 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر اُگ
سکتا ہے، اس میں خشک سالی کو برداشت کرنے کی بہت صلاحیت موجود ہے اس وجہ سے
یہ خشک اور بنجر علاقوں میں جہاں سخت گرمی پڑتی ہے اور 500 ملی میٹر سالانہ
بارش ہوتی ہےوہاں بکثرت پایا جاتا ہے، یہ میرا زمین پر اچھا اگتا ہے، لیینک
ریت، چکنی مٹی اور کلر زدہ زمین پر بھی اگ سکتا ہے، اگر سیلاب زدہ علاقوں
میں زیادہ دیر پانی کھڑا نہ رہے تو وہاں پر یہ بہت اچھی بڑھوتری دیتا ہے،
اس پر کسی قسم کے کیڑے حملہ نہیں کرتے اور کس قسم کی بیماری کا حملہ بھی
ابھی تک مشاہدے میں نہیں آیا، اگر پانی میسر ہو تو اس کی قدرتی روئیدگی بیج
کے ذریعے ہوتی ہے، مصنوعی طور پر فراش کے پودے نرسری میں بیج کے ذریعے
اگائے جاتے ہیں فراش کے بیج بہت باریک ہونے کی وجہ سے نمدار ریت میں ملا کر
کیاریوں میں بکھیرے جا سکتے ہیں کیاریاں 6 میٹر سے زیدہ چوڑی نہ ہوں اور
پانی دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بیج زیر آب نہ آنے پائیں ورنہ
اس کی قوت نمو ختم ہو جائےگی، 18 ماہ کے پودے نرسری سے اکھاڑ کر کھیت یاکسی
مناسب جگہ پر لگائے جا سکتے ہیں فراش کو شاخ والی قلموں کے ذریعے بھی
کامیابی سے اگایا جا سکتا ہے، انگلی ی موٹائی کے برابر تقریباََ ایک فٹ
لمبی قلمیں شاخوں سے علیحدہ کی جا سکتی ہیں، اس بات کا خیال رکھا جائے کہ
یہ شاخیں ایک سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں، یہ قلمیں موسم بہار میں براہ راست
کاشت کی جاسکتی ہیں۔ ابتدائی طور پر پانی کا انتظام مناسب ہو تا کہ پودا جڑ
پکڑ لے ، فراش کا درخت ابدائی پانچ سالوں میں خوب تیزی سے بڑھتا ہے لیکن
پانچ سال کے بعد اس کے بڑھنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے، درخت آندھیاں روکنے
کیلئے باڑھ کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے، صحراﺅں میں ٹیلے جمانے کیلئے
بھی یہ درخت بہت اچھے طریقے سے کام آسکتا ہے، خشک اور بنجر علاقوں میں
دوسرے درخت نہ ہونے کی وجہ سے آرائشی اور زمینی شجر کاری کا اہم جزو ثابت
ہو سکتا ہے، اس درخت کی لکڑی سفید اور چمکدار ہوتی ہے، اس درخت کی لکڑی
سستا ایندھن ہے، بڑے درختوں کی لکڑی زرعی آلات، ہل، ریٹ، بیل گاڑی اور برش
کے دستے بنانے میں استعمال ہوتی ہے اس کی لکڑی چمکداری ہونے کی وجہ سے اس
پر رنگائی اور کھدائی Wood Carving کاکام خوب سجتا ہے، اس کے علاوہ پارٹیکل
بورڈ، فرنیچر اور فروٹ کی پیٹیاں بنانے میں کام آ سکتی ہیں، اس کی چھال میں
14 فیصد کے قریب ٹینن (چمڑا رنگنے والا مادہ) ہوتا ہے جو کہ چمڑا رنگنے کے
کام آتا ہے۔ حکماءکے نزدیک چھال جلدی بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال ہو
سکتی ہے، اس کے پتے اونٹ بطور چارہ استعمال کر لیتے ہیں غرضیکہ یہ ایک بہت
سی خصوصیات کا حامل بہت مفید درخت ہے جو کہ ہمارے ماحول سے مطابقت رکھنے کی
وجہ سے تیزی سے بڑھتا ہے اور کسان کو اس درخت کی فروخت میں کوئی مشکل پیش
نہیں آتی اور وہ ایک معقول منافع حاصل کرسکتا ہے اسلئے ہمیں چاہیے کہ ہم اس
مقامی نوع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اس درخت کو اس کی اہمیت کے مطابق
فروغ دیں۔ |