صدابہ صحرا
گل بخشالوی
٭دکھی انسانیت کے دعویدار ڈاکٹر زاپنی خوشحال زندگی میں مست ہیں ۔
٭عطائی ڈاکٹر بدمست ہیں اس لیے کہ غریب بڑے ڈاکٹر کی فیس نہیں دے سکتا ۔
ملاوٹ جرم ہے کسی بھی مذہب میں جھوٹ جعل سازی اور ملاوٹ کی اجازت نہیں ہے
لیکن ہر صاحب ِاختیار خوابوں کے تاج محل کی تعمیر کیلئے وہ کچھ کر گزرتے
ہیں کہ مہذب معاشرہ اُن کے کردار وعمل پر ماتم کرتا رہ جاتا ہے ۔ذاتی
مفادات کیلئے جب ضمیر مرتا ہے تو مردہ ضمیر فرشتوں میں شیطان کی صورت اور
کردار میں سامنے آتا ہے وہ کبھی بھی معاشرتی زندگی میں اپنے عذاب پر شرمندہ
نہیں ہوتا۔جعلی ادویات سے قیمتی جانیں گئیں، خاندان برباد ہوگئے لیکن شیطان
اپنے مقام پر ہے اس لیے کہ معاشرے کے ان شیطانوں کو تحفظ دینے والے بڑے
شیطان معاشرتی زندگی اور حکومت میں اُس مقام پر ہیں جن کا نام لینا بھی جرم
ہے اس لیے صاحبانِ حق کی زبانیں بھی خاموش ہیں ۔پاکستان بھر کی طرح کھاریاں
شہر اور گردونواح کے دیہات میں عطائی ڈاکٹر ،میڈیکل سٹور اور ہسپتال ہیں
لیکن کبھی بھی محکمہ صحت ،ڈرگ سیل اور پاکستان میڈیکل وڈینٹل کونسل کے گدی
نشینوں نے اس طرف توجہ نہیں دی ۔انہوں نے نہ تو کبھی قیمتوں پر توجہ دی اور
نہ ہی ادویات کی معیاد دیکھنے کی ضرورت محسوس کی یہی وجہ ہے کہ حفظانِ صحت
کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی صفائی کے نامناسب انتظامات ،زائد المعیاد
ادویات مختلف قسم کے کیمیکلز،آلاتِ جراہی کو جراثیم سے محفوظ رکھنے کے
نامناسب انتظامات کے باوجود نام نہاد عطائی ڈاکٹرز انسانی جانوں سے بیانگ ِدہل
کھیل رہے ہیں ۔کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسے اداروں اور نام نہاد ڈاکٹروں
کو انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں
ان ہسپتالوں میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز اور طبعی عملہ موجود نہیں مریض تربیت
دینے کی آڑمیں کم عمر طلبہ وطالبات کو نرسوں کے رحم وکرم پر ہیں ۔
شہر اور گردونواح کے دیہات میں میڈیکل سٹوراور عطائی ڈاکٹرز مجبور اور
معصوم لوگوں کا خون پی رہے ہیں ان میڈیکل سٹورز میں مختلف اقسام کے وٹامنز
اور جعلی ادویات کی شکایات ہیں لیکن شنوائی نہیں ہوتی ۔عطائی ڈاکٹرز بغیر
کسی مستند ادارے کی ڈگری کے صرف اپنے خاندانی وراثت اور تجربات کی روشنی
میں مردوں کو جوانی کی ادویات کےساتھ وجود کے انتہائی نازک حصوں،آنکھ ،ناک
،کان ،گلا اور دانتوں کا فوری اور سستاعلاج کرتے نظر آتے ہیں ۔ان بدبختوں
کے پاس عام طور پر مہذب معاشرے کے وہ مجبور لوگ آتے ہیں جن کو اپنے پسینے
سے دو وقت کی روٹی بھی بمشکل نصیب ہوتی ہے ۔چاہے وہ کینسر جیسے موذی امراض
کے مریض ہی کیوں نہ ہوں وہ تربیت یافتہ اور مستند ڈاکٹروں کی فیس ،لیبارٹری
ٹیسٹ اور اُن کے سٹور سے قیمتی ادویات خریدنے کی قوت نہیں رکھتے ۔پنجاب
گورنمنٹ کے زیر انتظام سرکاری ہسپتالوں میں اعلیٰ پائے کے کوالیفائیڈ
ڈاکٹرز اور سرجنز ہیں وہ مریض سے معائینہ فیس بھی نہیں لیتے دوا بھی اچھی
تجویز کرتے ہیں لیکن ہسپتال میں مریض کو دینے کیلئے اُن کے پاس ادویات نہیں
ہوتیں اگر دیتے بھی ہیں تو کاغذ کی پڑیا میں چند گولیاں اور پلاسٹک کی بوتل
میں پینے کا شربت جن پر نہ تو تاریخ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی تاریخ دیکھنے
کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔
سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں دواساز کمپنیاں ادویات فراہم کرتی ہیں
۔ڈاکٹروں کے پاس ان ہسپتالوں میں عام طور پر مریضوں کی نسبت زیادہ دوا ساز
کمپنیوں کے ایجنٹ ڈیرے جمائے بیٹھے نظر آتے ہیں جوان ڈاکٹروں کو طے شدہ
کمیشن کے مطابق ادویات فراہم کرتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحبان دواساز کمپنیوں کو
بخوبی جانتے ہیں لیکن وہ کیا بنا کر دیتے ہیں ،اس کی ضرورت ڈاکٹر صاحبان
محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے ہسپتالوں اور میڈیکل سٹوروں میں زائد
المعیاد ادویات کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔مریض کو ڈاکٹرجو کچھ بھی دیتا ہے وہ
کھالیتا ہے نسخے کے مطابق چاہے وہ زہر ہی کیوں نہ ہو اس لیے کہ وہ مجبور
ہیں اُن کی مجبوری کے مجرم محکمہ صحت ،افسر شاہی اور انتظامیہ ہے جو ذاتی
مفادات کمیشن ،مفت علاج اور اقرباء پروری کی پٹی آنکھوں پر سجائے اپنی
زندگی کے حسن میں مست ہیں کسی کی جان جاتی ہے تو جائے اُن کی صحت پر کوئی
اثر نہیں پڑتا چاہے کوئی ان جعلی ادویات کے اثر سے مرتا ہے ذہنی مریض بنتا
ہے یا پاگل ہوتا ہے ۔ |