پیر اور منگل کی درمیانی شب
کراچی کے علاقے گزری میں بلوچستان کے ایم پی اے شہید نواب اکبر بگٹی کے
نواسے اور نواب براہمداغ بگٹی کی بہن اور بیٹی کو ان کے ڈراییور سمیت
گولیوں کا نشانہ بنایا گیا- واقعہ کیخلاف بلوچستان اسمبلی میں مزمتی قرار
داد منظور کی گئی جبکہ مشتعل عوام کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا- اس
واقعہ کا ردعمل صرف بلوچستان اسمبلی کی قرار داد اور ہڑتال تک محدود ہوتا
شاید اس واقعہ کو معمولی قرار دیا جاسکتا مگر واقعہ پر جس طرح کے ردعمل
بیانات کی صورت میں سامنے آئے ہیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس
واقعہ کے نتائج ناقابل بیان حد تک خطرناک ہوسکتے ہیں- کیونکہ اس نوعیت کے
واقعات کا رونما ہونا بلوچ سماج میں انتہائی معنی خیز جانی جاتی ہے- بلوچ
روایات کے خلاف بلوچ خواتین کا انتہائی بیدردی سے قتل کسی بھی ردعمل کے
سامنے آنے سے پہلے انتہائی لرزہ خیز معلوم ہوتی ہے- جبکہ بلوچ ری پبلکن
پارٹی کے ترجمان نے مختصراً بیان میں کہا ہے کہ حملہ آور ہمارے ردعمل کا
انتظار کریں- اس طرح کے واقعات کے بعد بلوچ رہنماؤں سے معافی مانگنے والے
حکمران اب کس منہ سے بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کی دعوت دینگے- مبصرین کا
خیال ہے کہ اس واقعہ سے بلوچ حلقوں میں مسلح مزاحمت کرنے والوں کیلئے
ہمدردی میں اضافہ ہوگا جبکہ وفاق سے قائم تعلق سے بیزاری بڑھ جائے گی- اس
حملے کو بلوچ قوم ریاست کی کاروائی گردانتی ہے اور اس گھناؤنا حملے کو بلوچ
قوم کیسے دیکھ رہی ہے اس کا احوال مندرجہ زیل بیانات سے لیا جاسکتا ہے-
بلوچ خواتین کی شہادت عزت پر حملہ ہے اور ناقابل فراموش ہے‘ سردار اختر
مینگل
گھر کے خواتین پر حملے میں خفیہ ایجنسیاں ملوث ہے‘ میر بختیار ڈومکی
کراچی واقعہ براہمداغ بگٹی کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش ہے‘ ڈاکٹر بشیر
عظیم
واقعہ بہت سے لوگوں کے لیے تباہ کن ہونگے، اس کا شاید کسی کو ابھی تک
اندازہ نہیں‘ سردار یار محمد رند
بلوچ خواتین کا بدلہ ضرور لینا ہوگا ‘ بی ایس او آزاد
بلوچ تحریک کو شکست دینے کے لیے ریاست بلوچ بہنوں کو اب شہید کرنا شروع
کردیا ہے ‘ بلوچ خواتین پینل
دشمن بلوچ مزاحمت کاروں سے شکست کا بدلہ بلوچ خواتین سے لینا چاہتا ہے جو
شرم کی بات ہے‘ خان آف قلات
عورتوں کو قتل کرنے والے آج سے اپنی عورتوں کی فکر کرنا شروع کردے‘ بلوچ
ورنا |