قسط وار یا ایک بار؟

ایک آدمی کسی موٹی بیوی کا خاوند تھا، ایک رات کا واقعہ ہے کہ اس نے سوتی ہوئی بیوی کو ہلا کر اٹھایا اور پوچھا ”بیگم ! تمہارا کیا خیال ہے کہ آدمی کو موت قسطوں میں آنی چاہئے یا ایک ہی بار؟“ بیوی اتنی رات کو اس طرح کے سوال کی توقع نہیں کرتی تھی اس لئے کافی حیران ہوئی لیکن اس نے اپنا خیال بھی ظاہر کردیا اور جواب دیا کہ ”میرا خیال ہے آدمی کو ایک ہی بار میں موت آجانی چاہئے نہ کہ قسطوں میں“ اس کی توجیہہ بھی اس نے یوں بیان کی کہ ”قسطوں میں سسک سسک کرمرنے سے بہتر ہے کہ آدمی ایک ہی بار میں اللہ کو پیارا ہوجائے“ آدمی نے جواب دیا کہ اگر تمہارا خیال یہ ہے تو مہربانی کرکے دوسری ٹانگ بھی میرے اوپر رکھ دو....!

کچھ اسی طرح کے حالات اس وقت ہماری قوم کے بھی ہوچکے ہیں۔ ہر مہینے کے شروع میں اس قوم پر مہنگائی کے نئے بم اور میزائل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھاکر داغے جاتے ہیں جن کے اثرات پورے مہینے شدت سے محسوس کئے جاتے ہیں۔عوام دن رات مہنگائی کی چکی میں پستے ہیں، وقتی طور پر احتجاج کرتے ہیں اور پھر ہر آدمی مہنگائی کے اثرات سے بچنے اور روزی روٹی کے چکر میں لگ کر اپنی اپنی جگہ اس خلاءکو پر کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہوجاتا ہے جو مہنگائی اور اس کی آمدن میں حائل ہوتا ہے۔ جو سرکاری ملازم ہیں وہ ”اوپر کی کمائی“ کا ریٹ بڑھا دیتے ہیں، افسران کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کا حصہ اپنے آپ بڑھ جاتا ہے۔ غریب لوگوں میں رکشے والے، ویگنوں والے اور بسوں والے اپنے کرائے بڑھا دیتے ہیں، دکاندار بھی حسب توفیق اس میں حصہ لے کر اجناس کی قیمتوں کو پر لگا دیتے ہیں۔اگر اس مہنگائی کے چکر میں خاص فرق پڑتا ہے تو دو طبقوں کو، ایک سفید پوش طبقہ جن کے ذرائع آمدن محدود اور مخصوص ہوتے ہیں کہ ان کے لئے مہنگائی کا یہ خلاءبھرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے، نہ ان کی ”اوپر کی آمدنی“ ہوتی ہے اور نہ ”نیچے“ کی جبکہ دوسرا طبقہ ایلیٹ کلاس ہے جس کو پٹرولیم مصنوعات ہوں یا چینی کی قیمتیں، گندم کے ریٹس ہوں یا چاول کے، ان کے ذرائع آمدنی اور تجوریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔

حالیہ طور پر اگر دیکھیں تو اپنی ٹرم کے اختتام کی طرف جاتی ہوئی اس حکومت نے جنوری اور فروری میں مہنگائی کے جن کو عوام کی کھال اتارنے کے لئے بالکل آزاد اور بے لگام چھوڑدیا ہے۔ پہلے ایل پی جی کی قیمتیں بڑھائی گئیں اور اب تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔ اس کا ایک اور ”شاندار اور روشن“ پہلو یہ بھی ہے کہ صدر زرداری کے نو رتنوں میں سے ایک ڈاکٹر عاصم نے چار پانچ روز پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی خبر ”بریک“ کردی تھی، جس کا فائدہ پٹرول پمپ مالکان اور ڈیلر حضرات کو پہنچایا گیا اور انہوں نے پٹرولیم مصنوعات کی فروخت مختلف حیلوں بہانوں سے روک دی، جہاں وہ روک نہ سکے وہاں انہوں نے پانچ سو روپے سے زیادہ پٹرول دینے سے صاف انکار کردیا اور وجہ یہ بتائی کہ ”سپلائی“ بند ہے۔ 31 جنوری کو جب اوگرا کی جانب سے اس فیصلے کا اعلان کیا گیا کہ پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے سینتیس پیسے کا اضافہ کردیا گیا ہے تو میں نے بھی سوچا کہ سی این جی پہلے ہی بند ہے اب پٹرول بھی 89 روپے سے 95 روپے پر پہنچ گیا ہے تو کیوں نہ تھوڑا سا پٹرول گاڑی میں ڈلوا لیا جائے، چنانچہ بھاگم بھاگ گھر کے نزدیک ترین پٹرول پمپ پر پہنچا تو دیکھا کہ وہاں ایک لمبی لائن لگ چکی ہے، اسی طرح کی لائن اتوار کی رات سی این جی کے آخری دن اور سوموار کی رات سی این جی کے پہلے دن لگا کرتی ہے۔ سب سے آگے والی گاڑی کے مالک اور پٹرول پمپ کے عملہ بشمول مالکان میں ایک بحث جاری تھی، قریب جا کر جب پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ آج پانچ سو روپے سے زیادہ پٹرول نہیں مل سکتا۔ وجہ پوچھی گئی تو وہی سپلائی نہ ہونے کا بہانہ حالانکہ سب کے سامنے ہی تیل سپلائی کرنے والے دو آئل ٹینکر پٹرول پمپ کا زیر زمین معدہ بھرنے میں مصروف تھے۔ گاڑی والوں کو پانچ سو روپے اور موٹر سائیکل والوں کو ایک سو روپے سے زیادہ پٹرول نہیں دیا جارہا تھا۔ بات جب زیادہ بڑھی تو اندر سے تین چار کلاشنکوف بردار بھی باہر آگئے۔ ان کے آتے ہی چند ایک نوجوانوں کو غصہ آیا اور وہ اپنی موٹر سائیکلوں سے اتر کر آگئے اور مالک موصوف سے سے کہنے لگے کہ آپ ان کلاشنکوف والوں سے کہیں کہ اندر چلے جائیں ورنہ ابھی یہاں سارے علاقے کو اکٹھا کرلیں گے اور ہوسکتا ہے کوئی شرپسند پٹرول پمپ کو آگ لگا کر سردی سے بچنے کی بھی کوشش کرے۔ یہ سن کر پہلے تو وہ صاحب آگ بگولہ ہوگئے اور پھر اپنے ہی ایک کارندے کے سمجھانے بجھانے پر اندر چلے گئے اور اپنے گارڈز کو بھی ساتھ لے گئے۔ وہیں پہ کھڑے کھڑے ایک صاحب نے نزدیکی پولیس چوکی پر کال کی اور پولیس کو سارا ماجرہ سنایا، پولیس والوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ ”یار پٹرول پمپ والوں نے کروڑوں روپے کی انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے، یہی تو دن ہوتا ہے ان کے منافع کا، آپ ایسا کریں کہ جتنا پٹرول یہ دیتے ہیں وہ لے لیں اور باقی کسی اور پمپ سے لے لیں“۔ ہر مہینے کی آخری تاریخ کو اس سے ملتے جلتے حالات تقریباً ہر پٹرول پمپ کے ہوتے ہیں جہاں بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے عام ہوتے ہیں۔

پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل، سی این جی، ایل پی جی اور دیگر اشیاءکی قیمتیں بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت پر اثر پڑتا ہے۔ معیشت دان اسے ڈالر کی قیمت سے جوڑتے ہیں۔ عوام اسے اپنی قسمت سے جوڑتے ہیں اور اب تو حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ عوام کی اکثریت اس روز روز کی مہنگائی سے تنگ اور عاجز آچکی ہے۔ ہر روز ایک نیا مہنگائی بم، ہر روز ایک نیا میزائل ہے جو یہ حکومت چلا رہی ہے اور اس ملک کے عوام کو قطرہ قطرہ، لمحہ لمحہ اور قسط وار سسکا سسکا کر موت تک لے جارہی ہے۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ جو ایٹم بم ہم نے کہیں چھپا کر رکھا ہوا ہے، جسے ہم اپنے معروضی حالات کے مطابق کسی دشمن پر تو نہیں چلا سکتے، وہی ایٹم بم اپنے شہریوں اور اپنی رعایا پر چلادے۔یہ عوام جو ہر مہینے کے شروع میں اور پھر پورا مہینہ ہی مہنگائی کا واویلا کرتے رہتے ہیں اور اسی مہنگائی کی وجہ سے مختلف ”عوام دشمن“ اور ”حکومت مخالف“ لوگ حکومت کی کرپشن کا رونا رونے لگ جاتے ہیں، ان کے منہ بند ہوجائیں گے، نہ ہوگی عوام اور نہ ہوگی مہنگائی، بس پھر چند سو لوگ یہاں حکومت اور اپوزیشن کا کھیل کھیلتے رہیں گے، اسمبلیاں بھی انکی، حکومتیں بھی انکی، عدالتیں بھی انکی اور فوج بھی! اس وقت بھی تو سارے اکٹھے ہی ہیں!قسطوں میں نہیں ایک ہی بار موت آجائے، کم از کم سسک سسک کر تو نہ مریں....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222495 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.