ملا یوں تیر چلاتا ہے

حضرت لقمان ایک خواجہ کے غلام تھے۔ اُن کا رنگ سیاہ اور شکل بھدی تھی۔ اس لیے وہ اس خواجہ کے سب غلاموں میں سب سے حقیر تھے۔ خواجہ نے ایک دن سب غلاموں کو باغ میں سے پھل لانے کے لیے بھیجا۔راستے میں غلاموں نے پھل کھا لیا اور خواجہ کے لیے کم لائے۔اُس نے وجہ دریافت کی تو سب نے کہا کہ کچھ پھل لقمان نے کھایا ہے اس لیے کم ہے۔خواجہ لقمان پر خوب برسا، بُرا بھلا کہا اور وجہ پوچھی۔ حضرت لقمان نے کہا کہ ہم سب غلاموں کو گرم پانی پلایئے اور صحرا میں خوب دوڑائیے اور خود گھوڑے پر سوار ہو کر ہمارا تعاقب کریں۔ خواجہ نے ایسا ہی کیا۔ گرم پانی پینے کے بعد دوڑنے سے غلاموں کو معہ حضرت لقمان قے ہو گئی اور اس قے میں لقمان کے علاوہ سب کے معدوں سے پھل نکلے۔اس طرح خود ہی دیگر غلاموں کا راز اور چوری فاش ہو گئی۔

اس واقعے کو ہمیں اپنے تمام سیاستدانوں، بیوروکریٹس، عدلیہ سمیت تمام عہدیداران پر لاگو کر کے دیکھنا ہو گا کہ کس کس کے معدے میں سے کیا کیا نکلتا ہے۔غضب خدا کا کہ غریب عوام کو مٹی کا دیا بھی میسر نہیں اور سابق اور موجودہ حکمرانوں اور ریٹائرڈ و حاضر سروس بیورو کریٹس کے ٹھاٹ باٹھ اور اللّے تللّے دے کر مغل بادشاہ یاد آجاتے ہیں۔بقول اقبال
ہم کو تو میسّر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

زرداروں اور شریفوں کے درمیان مخمصے میں پڑی قوم کدھر جائے۔ یہاں لقمان کوئی نہیں۔ سب خواجہ کے دیگر غلام ہی نظر آتے ہیں۔ کسی کے کریڈٹ میں سٹیل مل سے لے کر شوان کے دھبے ہیں تو کسی کے دامن پر اتحاد واتفاق کی فاﺅنڈریاں ، شوگر ملیں اور کرپشن سے کھڑی کی گئی درجنوں فیکٹریوں کے داغ لگے نظر آتے ہیں۔گجرات کے بہادروں کو اگر دیکھیں کہ رسہ گری اور قبضہ مافیا کی کئی داستانیں اُن کا پیچھا کر رہی ہیں۔ اور اگر کراچی کے بھائی جان کی جانب نظر ڈالیں تو انکشاف ہو گا کہ ملک کی 90فیصد انڈسٹری والے اس شہر کے 100فیصد صنعت کار بھائی جان کو تحفہ یا بھتہ دیتے ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

جہاں قانون موم کی ناک ہو، جہاں انصاف بکتا ہو، جہاں طاقت اور ناانصافی ہی اصول ہوں، جہاں عوام کی عزتوں اور حقوق کے محافظ ڈاکو اور لٹیرے ہوں، جہاں راہبری کا فریضہ راہزن انجام دیں، جہاں جمہور کے نام پر زبان بندی ہو، جہاں ملکی فیصلے غیر ممالک کریں، جہاں عوام کے خون پسینے کے ادا کردہ ٹیکس پر حکمران بلٹ پروف گاڑیوں پر دندناتے پھرتے ہوں۔ وہاں سمجھ نہیں آتا کہ ان کو گرم پانی پلا کر کون صحر ا میں دوڑائے گا....؟

ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے اور ایک ہی جیسا حقیقی اندرونی ایجنڈا اور مقصد و منشور رکھنے والے کیا احتساب کے عمل سے خود بھی گزریں گے اور دوسروں کو بھی گزاریں گے؟ نہیں ہر گز نہیں....؟ اگر تبدیلی لانا ہے تو پھر نئی قیادت یا تو ڈھونڈنی ہو گی اور یا پھر وہ اوصاف خود میں پیدا کرنے ہوں گے جو قیادت کے لیے ضروری ہیں۔انقلابِ فرانس اور انقلابِ چین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کل تک جو ممالک اور خطے غلاظت کے ڈھیر اور نشیوں کی جنت تھے آج وہاں سے تعمیر و ترقی، عقل و خرد اور دنیا کی قیادت کی داستانیں برآمد ہو رہی ہیں اور ایک ہم ہیں
آپ اپنی صورت بگاڑ بیٹھے ہم لوگ

نئی قیادت ڈھونڈنے کے لیے اگر نکلتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ روٹی،کپڑا اور مکان والی جماعت کی صفوں میں بدقسمتی سے ذو الفقار بھٹو شہید اور محترمہ بینظیر شہید کے بعد ایک جمود طاری ہے۔انقلابی خیالات رکھنے والے اذہان نگاہوں سے اوجھل ہیں۔بزنس کرنے اور صنعتیں چلانے والے لوگوں کی جماعت کو دیکھیں تو ایک خاندان کے قبضے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ بھائی جان کی جماعت کو دیکھیں تو خیالات کم اور خرافات زیادہ نظر آتی ہیں۔ سرحدی گاندھی کی جماعت کو بے شک غور سے مت دیکھیں لیکن دکھائی پھر بھی دیتا ہے کہ نظریات ناپید ہو چکے ہیں، اصول دم توڑ چکے ہیں اور یہ لوگ اپنا جیسا کیسا بھی نظریاتی راستہ تھا اُس کو چھوڑ چکے ہیں۔

واحد صورت جو نظر آرہی ہے تو وہ صرف ایک شخص کی صورت میں اور یہ وہ شخص ہے کہ جس نے کھیل کے میدان میں ایک بیٹ اور بال لے کر پوری دنیا میں پاکستان کا نام سربلند کر دیا جس کے اصول دیانت،بہادری، شجاعت ، علم، حکمت اور دانش مندی کا اعتراف اُس کے دشمن بھی کرتے ہیں۔ جو عدل و انصاف کو کسی بھی ریاست کی قلیدِ اوّل قرار دیتا ہے۔ جی ہاں عمران خان....!

لیکن صرف ایک کمی ہے اُس کے ارد گرد لوگ اور اُس کی ٹیم۔عمران خان آپ کو ایک نئی ٹیم لے کر قیادت خود سنبھالنا ہو گی، اس قابل بننا ہو گا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر ان سب آزمائے ہوﺅں کو گرم پانی پلا کر صحرا میں دوڑا کر ان کا پیچھا کر کے قوم کے سامنے لانا ہو گا کہ کس کس کے معدے سے کیا کیا برآمد ہو ا ہے....؟

اس موقع پر کئی دوست کہیں گے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس کے وارث مذہبی لوگ اور مذہبی جماعتیں ہیں تو اِس کا جواب شائد اس لطیفے میں موجو د ہے۔

کہ مُلا نصیر الدین سے ایک مرتبہ بادشاہ نے پوچھا ۔ مُلا تم تیر چلانا جانتے ہو؟
مُلا نے کہا....کیوں نہیں!
بادشاہ نے تیر کمان منگوایا اور مُلا کو دیا ۔
مُلا نے تیر چلایا تو نشانے پر نہ لگا۔
بولے آپ کا میرِ شکاری یعنی سپہ سالار اس طرح تیر چلاتا ہے۔
دوسرا تیر چلایا وہ بھی خطا ہو گیا۔مُلا گویا ہوئے۔آپ کے شہر کا گورنر اس طرح تیر چلاتا ہے۔
تیسرا چلایا تو وہ اتفاق سے نشانے پر لگا۔
مُلا سینہ ٹھونک کر بولے۔ مُلا یوں تیر چلاتا ہے....!
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 406792 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More