اقتدار کے نشے میں دُھت
حکمران ، مُلک کے غریب عوام اورپیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں بے
لگام اضافہ..ناقابلِ برداشت ہے
ہمارے حکمرانوں نے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں
اندھادھند اضافہ کرکے مہنگائی کا جو طوفان برپاکردیاہے اِنہیں یہ
سوچناچاہئے کہ اُنہوں نے اپنی پہلے سے پریشان حال اورلاغر عوام کے لئے یہ
ظالمانہ اقدام آئی ایم ایف ، ورلڈبینک اور امریکا کے کہنے پر کیوں کیاہے
کیا اِن کے پاس سوچنے اور سمجھنے کے لئے اپناکوئی دماغ نہیں ہے یا یہ اپنے
دماغ کے استعمال سے قاصر ہیں یاجو امریکی ، آئی ایم ایف اور ورلڈبینک والے
اِن سے کہیں گے یہ اپنی آنکھیں اور زبان بندکرکے اِس پر عمل کرناشروع کردیں
گے بھلے سے پاکستانی غریب اور مفلوک الحال قوم کا بھرکس بنتاہے تو بنتارہے
اَب ایسے میں قوم یہ کیوں نہ مانے کہ ہمارے حکمران امریکی چمچے اور آئی ایم
ایف اورورلڈ بینک والوں کے ایجنٹ ہیں جو اِن کے اشاروں پر کام کرکے اِن کے
عزائم کی تکمیل میں شب وروز مصروف رہ کر اِن کی خدمت میں مگن ہیں اوریہ ملک
میں مہنگائی کرکے جواز یہ پیش کررہے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی
قیمتوںمیں اضافہ کرنااِن کی اشد مجبوری بن گیاتھاکیوں کہ عالمی منڈی میں
تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیاہے اِس لئے اِنہیں بھی یہ قدم اٹھاناپڑاہے
اُمیدہے کہ پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں کئے جانے والے اِس
اضافے کو عوام ہی برداشت کریں گے اور اِس کے لئے عوام کو تیاررہناچاہئے۔
جبکہ یہاں افسوس کی بات تویہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں سے خالی ہونے
والے قومی خزانے کوبھرنے کے لئے تو ملک کے غریب عوام کے گلے پر پیٹرولیم
مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے چھری پھیر ہی دی ہے جس سے عوام
تڑپ کررہ گئے ہیں اور ایسے میں مہنگائی کی چھری سے گھائل عوام مہاراج سے
اِس اضافے کو واپسی کے لئے فریاد کررہے ہیں مگر مہاراج ہیں کہ اِنہوں نے
اپنے کانوں میں روئی ٹھوس رکھی ہے یا اِن کے کان عوام کی اِس دربھری آواز
کو سُننے سے واقعی قاصرہوگئے ہیں کہ اگر اِنہوں نے عوام کی آواز سُن کر اِس
کی دادرسی کردی تو کہیں امریکی، آئی ایم ایف اور ورلڈبینک والے اِن سے
ناراض نہ ہوجائیں او ر ایسے میں ہمارے حکمران اِنہیں ناراض کرنانہیں چاہتے
کیوں کہ اگر یہ ناراض ہوگئے تو اِن کا اقتدار اِن کے ہاتھ سے نکل جائے
گااِس لئے ہمارے اقتدار کے نشے میں دُھت حکمران یہ شاید کبھی نہ چاہیں گے
کہ یہ پیٹرول ،ڈیزل اور گیس کی بڑھائی گئیں قیمتوں کو واپس لیں اور اگر
اِنہوں نے اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن کے دباؤ میں آکر دو یا ایک روپے واپس
بھی لے لئے تو یہ بھی ہمارے حکمرانوں کی کوئی سیاسی چال ہوگی ۔تاکہ یہ عوام
کو بتاسکیں کہ اِن کے دل عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور اِنہیں عوام کی
تکالیف کا پوراپورااحساس ہے اِس ہی لئے تو اِنہوںنے پیٹرولیم مصنوعا ت اور
گیس کی قیمتوں میں ہاتھی کے وزن جتنااضافہ کرنے کے بعداُونٹ کے منہ میں
زیرہ جتنی قیمتیں کم کرکے عوام پر احسان کردیاہے ایسے میں جب ہمارے
حکمرانوں کی اپنے عوام کے ساتھ یہ روش ہو تو پھر عوام کو بھی کوئی کام کرنے
سے پہلے یہ طَے کرناضروری ہے کہ ہم جو کچھ بھی اچھایابُراکرناچاہتے ہیں وہ
اپنی ذات کے علاوہ اور کس کے لئے ہے یعنی ہمارے کسی بھی فعل سے ملک اور قوم
کو کیاملے گا...؟کیاکوئی کامیابی یا نقصان صرف ہم تک ہی محدود رہیں گے..؟
یا اِس کے اثرات ملک اور قوم پر بھی پڑیں گے...؟؟
مگر یہاں ہمیں بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ آج کسی مخمصے میں پڑنے
سے پہلے ہمارے ملک کا ہرمحب وطن فرد یہ توضرورسوچ رہاہے کہ ہم اپنے لئے
جوکچھ بھی (اچھایا بُرا)کررہے ہیں وہ توکرہی رہے ہیں مگر اِس سے ہمارے ملک
اور قوم کو کیاملے گا...؟اور پھر کچھ ہی دیربعد وہ یہ سوچتاہوا کہہ پڑتاہے
کہ میراملک پاکستان جو کبھی خود مختار ہواکرتاتھامگر آج حکمرانوں کے بے حس
رویوں سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے حکمرانوں نے اپنی کُرسی مضبوط کرنے کے
لئے بے سوچے سمجھے اور اپنے دماغ کا استعمال کئے بغیر امریکیوں ،آئی ایم
ایف اور ورلڈبینک سے درپردہ ایساکچھ معاملہ طے کرلیاہے کہ امریکااور اِن
مالیاتی اداروں کاہم پر تسلط قائم ہوگیاہے اورآج جس کا اثر ہمارے ملک کے
کسی بھی غریب کے باورچی خانے سے لے کرملک کے ایوانوں تک باآسانی
دیکھاجاسکتاہے یعنی آج ہماری مُلکی خودمختاری تو ایک طرف رکھ دی گئی ہے اور
کیامُلک کو کوئی نئی امریکی ریاست بنادیاگیا ہے ....؟؟آج جب قوم کو یہ
محسوس ہواہے تو قوم تلملااٹھی ہے اورچیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ جب ملک
میںپارلیمنٹ بالادست ہے تو پھر ملک میں پیٹرولیم مصنوعات اور گیس قیمتوںمیں
اضافے اور کمی کااختیار بھی پارلیمنٹ کو دے دیاجائے یہ اوگرا، واگراکیا
ہے....؟؟ جو جب چاہتا ہے اپنی مرضی سے کچھ مصنوعی وجوہات اور خود ساختہ
پیداکردہ بحرانوں کا سہارالے کے پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں
اضافہ کردیتاہے ایسے عوام دشمن اوگراکو حکمران اپنادماغ استعمال کرتے ہوئے
فی الفور ختم کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر عوام کے ہاتھوں اِسے
تباہ وبرباد ہوتادیکھنے کے لئے وقت کا انتظارکریں اور اِس کے ساتھ ساتھ
عوام سے سڑکوں پر اپنااحتساب کرانے کے لئے بھی تیار ہوجائیں۔اوربالخصوص
ہمارے یہ وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی جنہوں نے عوام کی جانب سے پیٹرولیم
مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں کمی کے مطالبے پر صاف انکارکرتے ہوئے بڑی
آسانی سے یہ کہہ دیاکہ اِس معاملے میں یہ بے اختیار ہیں اِنہیں بھی عوامی
عدالت میں اپنااحتساب ضرورکراناہوگا جس کے لئے عوام انتظامات میں مصروف ہے۔
توایسے میں دانا کہتے ہیں کہ آنکھیں تو صرف گُھورتی ہیں یہ دماغ ہے جو
دیکھتاہے اور ایسے میں اگر کوئی دنیامیں کامیاب زندگی گزارناچاہئے تواِسے
چاہیئے کہ وہ اپنے دماغ سے سوچنے کی کوشش کرے ،نہ کہ دوسرے کے کہنے کے
مطابق کام کرے “ دانا کی یہ بات صرف فردِ واحد کے لئے نہیں ہے اگراِس پر
دنیاکی اقوام بھی عمل کریں تواِس میں کوئی شک نہیں کہ اِنہیں بھی ہر شعبہ
ہائے زندگی میں کامرانیاں نہ نصیب ہوں مگر اِس کے لئے شرط یہی ہے کہ اقوام
میں اپنے دماغ سے سوچنے اور اپنے اچھے بُرے کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت
اورعادت بھی ہو(ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور قوم کی طرح نہ ہوں جو
اپنادماغ استعمال کرنے سے عاری ہیں تب ہی اغیار کے اشاروں پر تِگنی کا ناچ
،ناچ رہے ہیں جو اَب کسی سے بھی ڈھکاچھپانہیں ہے) ایسے میںدانشمند کہتے ہیں
کہ آپ کا دماغ آپ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اگر آپ اِسے اچھی طرح اور عقل
مندی سے استعمال کریں تو ایک کامیاب زندگی گزارسکتے ہیں اور جب دماغ کو
استعمال نہ کیاجائے تو وہ ناکارہ ہوجاتاہے یکدم ایسے ہی جیسے گزشتہ کئی
دہائیوں سے ہمارے حکمرانوں نے اپنا دماغ استعمال نہ کرکے اِسے ناکارہ
بناڈالاہے اور اَب جِسے امریکا ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کباڑ خانے سے
بے مول اوربے تول خریدکراپنی مرضی سے استعمال کررہے ہیںیوں اِس طرف آج
ہمارے حکمران ہیں کہ جو ایک عرصے سے اپنادماغ کا استعمال پہلے ہی چھوڑ چکے
تھے اَب امریکااور عالمی مالیاتی اداروں کے دماغ سے سوچتے اور اِس کی زبان
میں بولتے دِکھائی دیتے ہیں ویسے یہ ہیں تو پاکستان کے حکمران مگر اِن کے
دماغ امریکی، آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے نظریات ،منصوبوں اور سوچوں کی
تکمیل اور پروگراموں کے لئے ہی متحرک رہتے ہیں۔ ایسے میں اَب عوام کو ہی یہ
طَے کرناہوگاکہ وہ اپنے حکمرانوں کو دماغ کے استعمال پر مجبورکرنے ساتھ
ساتھ اِنہیں مُلک کی خودمختاری کا احساس دلانے کے لئے کیاکچھ کرتے ہیں یا
ملک کوکوئی نئی امریکی ریاست جان کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں ....؟ہم ایک بار
پھر یہی کہیں گے کہ اَب یہ طَے کرناعوام کا کام ہے کہ وہ مُلک کی خودمختاری
اور پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں کئے گئے اضافے کی واپسی کے لئے
کیا کیاجتن کرتے ہیں...؟؟؟اور اِ س کے ساتھ ہی اَب دیکھنا یہ ہے کہ اِس
معاملے میں عوام کی جیت ہوتی ہے یا ہار.......!! |