اک احسان اور کرو

یوں تو ہمارے سیاستدانوں کے قوم پر اتنے احسانات ہیں کہ پوری قوم دن رات ایک کر کے بھی اگر ان محسنوں کے احسانات چکانا شروع کرے تو شاید برسہا برس بیت جائیں پر ان احسانات کا بوجھ قوم کے کاندھے پر بدستور قائم رہے ۔لیکن قوم اب بھی ان محسنوں سے مزید احسانات کی طلبگار ہے اور آفرین ہے سیاستدانوں پر کہ وہ بھی احسان در احسان کئے جا رہے ہیں اور تھکتے ہی نہیں۔ایسی صورتحال میں چاہیے تو قوم کو ہی کہ وہ سالہا سال سے خدمت گزاری میں مشغول سیاست دانوں کو اب آرام کا موقع دیں لیکن قوم ابھی بھی ان پرانے خدمت گزاروں سے مزید خدمت کی متمنی ہے۔ ہم قوم سے درخواست گزار ہیں کہ وہ اپنے محسنوں کے حال پر رحم کھائے اور ان کے صبر کا امتحان نہ لے۔ اس سے پہلے کہ وہ خدمت سے انکار کریں انہیں باعزت طور پر رخصت کر دیں۔

سیاستدانوں کی قومی خدمات کو احاطہ تحریر میں لانا تو مشکل ہے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ چند چیدہ چیدہ خدمات کو عوام کے سامنے لا سکیں تاکہ عوام کے دلوں میں سیاستدانوں کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو سکے۔سب سے پہلے تو یہ کہ یہ لوگ جنہیں ہم سیاستدان کہتے ہیں وہ اپنے بچوں کے منہ سے نوالہ چھین کر اور اپنے چلتے کاروبار کو داؤ پر لگا کر الیکشن لڑنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں ، کس لئے ؟ عوام کی خدمت کے لیے نا۔ الیکشن ہارنے کے بعد وہی عوام ان لوگوں کو پوچھتی تک نہیں ہے کہ ان کے گھر کا چولہا جل بھی رہا ہے کہ نہیں۔انتخاب جیتنے کے بعد یہی عوام ان سیاستدانوں کا ناک میں دم کئے رکھتی ہے اپنے حلقے سے لے کر اسلام آباد تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے ، ایسی عوام کے چائے پانی کا بندوبست بھی انہی سیاستدانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے یہ ہنسی خوشی برداشت کرتے ہیں۔حلقے کے گلی محلے کی گندی نالیوں سے لے کر سکول کالجوں اور دیگر ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری بھی انہی منتخب نمائندوں کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ گھر یلو معاملات اور کاروباری سرگرمیوں کی نگرانی بھی اشد ضروری ہوتی ہے ۔ اتنی زیادہ مصروفیات کہ اگر دل میں خلق خدا کی خدمت کا جذبہ نہ ہو تو بندہ عاجز آ جائے اور سات پشتوں تک کو سیاست سے دور رہنے کی تلقین کر دے لیکن ہمارے سیاستدانوں کے دل و دماغ میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ اس قدر ہوتا ہے کہ وہ کارزار سیاست میں اپنی اولاد کو لانا کبھی نہیں بھولتے تاکہ ان کے جانشین نا مکمل کاموں کو تکمیل تک پہنچائیں۔

حالیہ تناظر میں دیکھیں تو آپ کو کئی نئے چہرے نظر آئیں گے لیکن اگر ان کا شجرہ نسب نکال کر دیکھیں تو ان کی لڑی کسی نہ کسی سیاسی خانوادے سے ضرور جا ملتی ہے ۔ البتہ اس ساری صورت حال میں کچھ پرانے مگر نئے لوگ سیاست کا کاروبار کرنے چلے ہیں ان میں وہ سابقہ فوجی افسران بھی ہیں جنہوں نے چند دن پہلے سابق صدر پرویز مشرف سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہی لوگ پرویز مشرف کا ہراول دستہ بھی ہوں، ان میں سے کتنے لوگ کرپٹ ہیں ؟کتنے بد عہد ہیں؟کتنے دیگر قسم کے جرائم میں ملوث ہیں ؟ یہ ابھی تک تو ہم نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ یہ لوگ پاک آرمی جیسے منظم ادارے میں اپنی اپنی خدمات سر انجام دینے کے بعد باعزت ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن جس کارزار میں یہ قدم رکھنے جا رہے ہیں وہ ایسی دلدل ہے کہ جو بھی اس میں قدم رکھتا ہے گندہ ہوئے بغیر نکل نہیں سکتا۔اگر یہ دلدل ہی گندی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی لیکن سارا مسئلہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب پہلے سے اس دلدل میں پھنسے لوگ نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے بجائے ان پر گند اچھالنا شروع کر دیتے ہیں شاید یہ ان لوگوں کا خوش آمدید کہنے کا ہی کوئی انداز ہولیکن فکر کی بات یہ ہے کہ انہی لوگوں کے ہاتھوں میں پورے ملک و قوم کی باگ ڈورہوتی ہے وہ بجائے گند صاف کرنے کہ دوسروں کو بھی گندہ کرنے یا گندہ کہنے میں لگے رہیں گے تو ایسی قوم کا کیا بنے گا۔

یہ تو قوم جانے اور قوم کے یہ سیاسی نا خدا، ہم توجہاں یہ سوچ رہے ہیں کہ ایبٹ آباد کمیشن ہو یا میمو کمیشن ، سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی حتمی ذمہ داری کا سوال ہو یا مختلف اداروں کے دائرہ کار کی وضاحت کا سوال، ہر مسئلے پر رائے زنی کرنے سے پہلے کئی کئی بار سوچنا پڑتا ہے کہ نہ جانے کون ناراض ہو جائے لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے کہ جس پر کچھ بھی کہہ لیا جائے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی اور وہ مسئلہ ہے "پرویزمشرف" وطن عزیز کے ایک اعلیٰ ایوان کی رائے میں مشرف کو واپس آتے ہی گرفتار کر لیا جائے اور ان پر مقدمات کی بھرمار کر دی جائے۔ یو ں تو ہماری پاکباز سیاست کا ہی یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ کسی کو بھی مقدمات میںملوث کر دیا جاتا ہے، جیسے اب بھی قوم کئی ایک بے ہودہ اور بے ہنگم مقدمات کے نت نئے ڈرامے دیکھ رہی ہے اور سپریم کورٹ جیسے فراہمی انصاف کے اہم ادارے کو ایسے ہی مقدمات میں الجھا کر رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے نظام عدل ٹھہراؤ کا شکار ہو گیا ہے لیکن کیونکہ قرارداد ایوان بالا میں پیش یا منظور کی گئی اس لیے ہم یہ سوچ رہے ہیں کیا ایوان بالا کے سامنے اس سے اہم اور کوئی مسئلہ نہیں تھا اور اگر یہی اہم مسئلہ ہے تو پھر اکبر بگٹی اور بے نظیر کے ان قاتلوں کو پہلے منظر عام پر لایا جائے جنہوں نے ان دو اہم شخصیات کو قتل کیا اور اس قتل میں مشرف نے ان کی مدد کی۔ رضا ربانی صاحب بہت دور اندیش اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں آج کل انہی کی پارٹی برسر اقتدار ہے وہ کم از کم اپنی لیڈر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو تو تلاش کر لیتے ، لیکن آج تک ایسا تو ہو نہیں سکا اور اب پرویز مشرف ہی ایک ایسا کمزور شخص لوگوں کو نظر آ رہا ہے کہ جس کا جتنا مذاق اڑا لیا جائے کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے۔

یہ قیامت کے ہی آثار ہیں کہ جب جھوٹ غالب آجائے گا اور سچ مغلوب ہو جائے گا انسان خود روزبروز قیامت کا سامان کر رہا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ انسانی بداعمالیوں کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ مالک اپنا وعدہ وفا کر دے گا اور قیامت وقوع پزیر ہو گی۔ لیکن اس سے پہلے ہمارا نااہل سیاستدانوں کے لیے ایک مشورہ ہے کہ قوم پر ایک احسان اور کریں اور اپنی نااہلی کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کے بجائے اپنی نااہلی کو تسلیم کرتے ہوئے سیاست چھوڑکر کوئی اور کاروبار کریں جس سے قوم و ملک کا نقصان نہ ہو۔
Azhar Ul Hassan
About the Author: Azhar Ul Hassan Read More Articles by Azhar Ul Hassan: 16 Articles with 14054 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.