آج وقت کا صرف تقاضہ ہی نہیں
بلکہ اہل علم کی اخلاقی اور ملّی ذمّہ داری ہے کہ قوم کو اپنے اسلاف کے
کارناموں سے آگاہ کریں اور ہندستان کی آزادی کے لیے انکی بے لوث خدمات اور
بے مثال قربانیوں کو یاد دلائیں اور ان کتابوں یا ان کہ اقتسابات پھر سے
اُجاگر کرائیں مثلاًتحریکِ شیخ الہند؛نقاشِ حیات؛اسیرانِ مالٹا؛سفر نامہِ
مالٹا؛جمعیت علماءکیا ہیں؛تحریک ِازادی ِہند میں مسلم علماءکا کردار؛کاروانِ
حرب؛ علماء حق؛ یادِبیاضہ؛مقامِ محمود؛تاریخ جمیعت علماءً تاکہ حکومتِ ہند
دیگر برادر وطن کھلے دل سے اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ مسلمانو ں کا حق اس
زمیں پر مورثی ہے اور ہندستانی مسلمان پھر سے ایک نئی اُمنگ لے کر اُٹھے
اور احساس کمتری کے محور سے نکل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا لوہا منوا
لے علماءہند اور مسلم دانشور ہمارے ان اسلاف کے کارناموں پر روشنی ڈالیں
جنہں سن کر ایک محب ِ وطن کو ایک نیا جذبہ و ولولہ مل سکے ۔۔بلخصوص ان چوٹی
کے علماءپر جو ملک آزادی کیلیے پیش پیش رہے اور کلیدی
کرداراداکیامثلاً۔(مولاناقاسم ناتوی؛مولانامحمودالحسن؛مولاناعبیدللہ
سندھی؛؛مولاناجعفر تھانیسری؛مولانا اسعد مدنی؛مولانابرکت اللہ بھوپالی ؛مولاناحسین
احمد مدنی ؛مولانامحمد علی جوہر ؛مولاناابوالکلام ازاد؛وغیرہ
دیگرمولاناشوکت علی ؛مولانانصار احمد کانپوری ؛؛مولاناتاج محمد سندھی شیخ
عبدالرحیم سندھی ؛ مولانامیاںمحمد منصور انصاری پیر غلام مجدد؛ڈکٹرصیف
الدین ؛مولاناحبیب الرحمن عسمانی؛علّامہ انور شاہ کشمیری؛مولاناسید سلیمان
ندوی ؛مولاناحفظ الرحمن سےوہاروی ؛مولانافخردین ؛مولانابشیراحمد بھاٹیہ ؛مولانا
معین الدین اجمیری ؛مولانا احمد سعید دھلوی ؛مولاناعبدالمحاسن سجّاد ؛مولانااحمد
علی لاہوری ؛مولانا شاہد میاں فخری الہ آبادی مولانا محمد قاسم شہاہ جہاں
پوری ؛مولاناعبد الوفا ءشہاہ جہاں پوری؛ نواب زادہ خان؛مولاناصیف الرحمان
قابلی؛محمد اسمائیل سنبہالی؛مولاناوحیداحمد فیض
آبادی؛مولاناعزیزگل؛مولاناحکیم سید نصرت حسین؛مولانافضلِِ حق؛مفتی کفایت
اللہ؛مولاناعبدالباری فرنگی محل؛ کون تھے؟ ملک کی ازادی میں انہوں نے کیا
جہدوجہد کی تھی؛اوران تحرےکوں سے بھی اگاہ کرائیں جس سے ہند ستانی مسلمان
بہت ہی کم واقفیت رکھتے ہیں مثلاً ثمرةالتّربیت؛جمیعت
الانصار؛نظّارةالمعارف؛لشکرِنجات د ھندہ؛جنودالرًبًانیہ؛تحریکِ ریشمی
رومال؛تحریکِ خلافت وغیرہ یہی وہ نفوس تھے اور تحریکیں تھی جن کی وجہ سے
اورجس کہ نتیجہ میں انگریزاستعماری قوتوں کے قدم اُکھڑ گئے اور وہ ہندستان
سے اپنے ڈیرے اُٹھانے پر مجبور ہوئے اور ہندستان کی تاریخ بدل کر ایک نئی
تاریخ ثبت کر دی تھی مگر افسوس آج ہندستانی سیاست میں انہیں شاید ہی کبھی
کر یاد کیا جاتا؛ تشویش کی بات یہ ہے کے اپنی نئی نسل اور جدید تعلیم یافتہ
طبقہ تو ان سے تو بالکل ناواقف نظر آتاہے؛اگر یہی حال رہا یااس جمود کو
توڑانہیں گیا تو وہ دن دور نہیں غیر تو کیا اپنی نسل بھی اپنے اسلاف ہی کو
بھولا دیگی اور ان کی قربانیوں اور کارناموں سے بالکل ہی بے بہرہ رہ جائیگی
اور اس ملک میں اپنا حق مانگنا تو دور کی بات یہاں رہنے سے بھی ہچکچائے گی
اور اس کی ذمہ ّدار ہم تمام یا علماءہند ہونگے اسلیے ہندستانی مسلمان اپنے
ان اسلاف کے کارناموں کو یاد کرکے احساس کمتری کے دائرے سے نکلے اور اپنے
جائز و مورثی یا قانونی حق کے لیے پورے عزم اور وقار سے سامنے آئے اور اسی
بنیاد پر ہومتّحد ہو کر ملک میںجاری شدّت پسندتحریکوں اور فسطائی قوتوں کے
خلاف کھڑے ہو جائے۔جس سے ہندستانی سیاست میں جو سیکولرزم کا لبادہ اوڑے
مسلمانوں کو جھوٹی تسلّی دے کر برسوں سے کھلواڑ کرنے والوں کو کچہ سبق ملے
اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہچانے والے شدّت پسند عناصر دیگر متعصّب ا ہل
قلم جو سوچی سمجھی حکمت ِعملی کہ تحت تاریخی حقائق پر پردہ ڈالوانا چاہتے
ہیں یا اسکو مسخ کرنا چاہتے ہیں اُنکے اس ناپاک ارادے اور سازش کاپردہ فاش
ہو سکے اوراس طریقے سے مسلمانون کی طرف سے ایک نئی خلافت تحریک شروع کرنے
کا عندیہ یا پیغام ایوان حکومت کو دیا جاسکے ۔اور یہ سوال ملک کے وزیر اعظم
کے سامنے رکھیں کہ آزادی کے64سال بعد بھی ہمارے ساتھ سوتیلا سلوک کیوں
ہے؟اور وفادارِ قوم وشہیدانِ وطن سے بے وفائی اخر کیوں ؟ ہمیں ان سے پوچھنا
ہے کہ سچر کمیٹی کا مقصد کیا تھا؛کیا صرف اسلیے کے مسلمانوں کی شرح
ناخواندگی ثابت کر کے انہیں پسپائی کے غار میں دھکیل دیں یا دلت مسلم کا
لیبل چسپاں کریں ؟پھر کیاوجہ ہے اس پر دیانت داری سے عمل کیوں نہیں ہو پا
رہا ؟ممبی کے فسادات پر مبنی جسٹس سری کرشن رپورٹ کہاں گم ہو گئی؟مالیگاوں
بلاسٹ شہید ِقوم ہیمنت کرکرے والی دستاویزات کا کیا انجام ہوا ؟کروڑوں
روپیہ خرچ کر کے تیار کی گئی 17 سالہ اور ہزارہا صفات پر مشتمل لبہرن کمیشن
کانتیجہ کیا ہے؟ ملک کے وزیراعظم کے عہدہ کیلیے مسلمان کیوں محروم رہیں؟
گجرات فسادات اور بیسٹ بیکری کامعاملہ کیوں التوا ءکا شکار ہے ؟کیا صرف
اسلیے کہ اس کا تعلّق مسلمانوں سے ہے ؟برسوں بعد بھی سرکاری اعداد و شمار
کے مطا بق ہندستانی مسلمانوں کی آبادی کیوں 13 سے 15 کروڑ بتائی جا رہی
ہے؟جبکہ ایک محتاط اندازہ سے اس وقت مسلمانوں کی آبادی کی تعداد تیس کروڑ
سے تجاوز ہو چکی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج تک اس پر کئی بات عمل کرانے کی
کوشش کئی بار کی گئی ہے لیکن وقت یا زمانے نے ثابت کردیا کے یہ صرف سیاسی
کھیل یا مسلمانوں کو بہلانے کا ڈرامہ تھا؛اس کے بعد بھی مزید کئی ایسے
سوالات ہیں جسے سن کر ایک انصاف پرست انسان کا دل دہل جائیگا اور آنکھیں
آنسوں میں بھر کر زبان کنگ ہو جائیگی اور ملک کا سر اس ناانصافی کی داستان
سن کر جھک جائیگا ہے کیونکہ اس ملک کی آبیاری کیلیے ہمارے اسلاف نے اپنا
خون دیا ہے ؛سولی پر چڑھے ہیں دہکتی آگ اور کھولتے ہوئے تیل میں کودا ہے؛
لیکن افسوس ہمارے ساتھ یہ نا انصافی کی روداد جو آنکھوں سے آنسو خشک کر
دیتا ہے اقبالؒ نے سچ کہا تھا گلستاں کو جب لہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے یہ
گردن ہماری کٹی؛پھر بھی کہتے ہیں یہ اہل چمن یہ وطن ہے ہمارا تمہارا نہیں؛؛ |