" زندگی" کائنات کی وہ سب سے زیادہ قیمتی
چیز ہے جس کو کبھی نہ خریدا جاسکتا ہے اورنہ ہی بیچا ، چاہے کوئی کتنا ہی
امیر کیوں نہ ہوں وہ زندگی کے سامنے اکثر اوقات بے بس نظر آتا ہے یہ قدر
نایاب عطیہ خداوندی ہے اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں، ہر انسان اس کو پاتا
ہے مگر اس کی قدر نہیں کرتا اور جب اس کی زندگی کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو
وہ انسان دنیا کی ہرقیمتی چیز دینے پر آمادہ ہوجائے مگر قیمتی زندگی واپس
ملنے والی شے نہیں۔ ہر انسان کیلئے سب سے زیادہ کوئی قیمتی چیز ہے تو وہ
خود انسان کی زندگی ہے کیونکہ یہ صرف ایک بار ملتی ہے ۔ زندگی کی اہمیت اور
قدر جب محسوس ہوتی ہے جب آپ شدیدبیمار ہو جاتے ہیں تو احساس ہو تاہے کہ
زندگی اللہ تعالٰی کی طرف سے انسانوں کو دیا گیاایک انمول تحفہ ہے اس کی
جتنی قدر کی جائے وہ کم ہے اس دور میں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت باقی
نہیں رہی ، اب انسان ہی انسان کی زندگیوں سے کھیلنے میں مشغول معلوم ہوتا
ہے لگتا ہے کہ درندوں کا کام بھی درندہ صفت انسانوں نے سنبھال لیا ہے جنکے
لیے اپنی زندگی کی تو بڑی اہمیت ہے مگر دوسروں کی زندگی ان کے نزدیک کچھ
بھی نہیں جسکی حالیہ مثال انسانی زندگی بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ اور
جعلسازی کے مظاہرے ہیں ۔
جعل سازسی بذات خود ایک انتہائی گھناؤنا فعل ہے جس کی نہ صرف اسلام میں
ممانعت ہے بلکہ ہرمذہب اور ہر معاشرہ اس کو انتہائی برا عمل قرار دیتا ہے۔
اس کے باجود بعض لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے جعل سازی کے
مرتکب ہورہے ہیں۔دنیامیں ایسے بہت سے لوگ ہے جو شارٹ کٹ کے زریعے امیر بننے
کے خواب دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ راتوں رات امیر بن جائیں اور دنیا
پرراج کریں ، اس مقصد کے حصول کیلئے وہ ہر ممکن کوشش کر تے ہیں ، جس کیلئے
مختلف غیر قانونی و غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کا بھی استعمال کرنے سے نہیں چوکتے
، جیسے کسی بینک سے لون اور ادھار لے کربھاگ جانا،جعل سازی کرنا، کمپنیوں
اور لوگوں کو دھوکادینا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ۔ حالیہ دنوں میں پاکستان
میں چند ایسے مکروہ جعل سازی پر مبنی عمل سامنے آئے ہیں جنہیں سن کر انسان
سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا انسان اپنے ہی جیسے انسان کی زندگیوں سے
کھیلنے کا اتنا ہولناک عمل کرسکتا ہے۔
یوں تو پاکستان اس وقت ویسے ہی بہت سارے مسائل میں گھرا ہوا ہے جس میں
مہنگائی،بے روزگاری، خودکش حملے، سلینڈر وں کے پھٹنے کے واقعات میں لوگ
اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اوپر سے اب پاکستان میں جعلی ادویات کا
کاروبار گرم ہوچکا ہے جس سے نقصان صرف و صرف غریب عوام کو پہنچ رہاہے ۔عوام
کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں ،کیا عوام کی جان کی قیمت اتنی سستی ہوگئی
ہے کہ اس کے مرنے سے کسی کو کوئی فرق تک نہیں پڑتا، آخر یہ کیوں ہورہا ہے ؟
غریب عوام آخر کریں تو کیا ؟ اپنی جان و مال کے تحفظ کیلئے کس سے فریاد
کریں ؟ کیا ان حکمرانوں سے ، کہ جو صرف اونچے اونچے محلوں اور اپنے ایوانوں
میں بیٹھے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور عوام کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں
۔
گزشتہ ماہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دار الحکومت لاہور میں پنجاب
انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف سے فراہم کی گئی جان بچانے والی مفت مگر
جعلی ادویات کے استعمال سے ہلاک ہونے والے عارضہ قلب کے مریضوں کی تعداد
150 سے بھی زائد ہوچکی ہے، جبکہ لاتعداد بدنصیب مریض ایسے بھی ہیں جو کہ
مذکورہ جان لیوا ادویات استعمال کرچکے ہیں اور زندگی اور موت کی کشمکش میں
مبتلا اب بھی لاہور کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یہ ادویات پنجاب
انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی جانب سے مریضوں میں مفت تقیسم کی گئی تھیں ان
ادویات کا ستعمال کرنے والوں کے جسم پر پہلے سرخ دھبے نمودار ہوئے اور اس
کے بعد تیز بخار، خون سے سفید خلیوں اور تھور مبو سائٹ کی مقدر میں تیزی سے
کمی آنے کی تشخیص کی گئی ۔
دل کے مریضوں نے تودوا کا استعمال شفا کی غرض سے کیا تھا ان بدنصیبوں کو
کیا معلوم تھا کہ مذکورہ دوا کے استعمال کرنے سے ان کی زندگیاں ختم ہو
جائیں گی۔ پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف صاحب گڈ گورننس کے دعوے کرتے
نہیں تھکتے مگر کیا وہ کوئی ایسی گھناؤنی کرپشن کی کھلی مثال پاکستان کے
کسی اور صوبے کے حوالے سے عوام کے سامنے لاسکتے ہیں؟ صرف زبانی کلامی بیان
داغ دینے سے خادم اعلیٰ صاحب اللہ کے حضور معافی کے طلبگار کس طرح ہوسکتے
ہیں، اللہ نے انہیں کتنے ہی لوگوں کاحاکم بنایا اور صرف ایک انسانی جان کے
ناحق ضائع ہونے کے جوابدہ وہ اللہ کی عدالت میں ہونگے اور یہاں کوئی ایک دو
یا چند افراد کی جانوں کی بات نہیں بلکہ150 سے زائد انسانی جانیں ضائع
ہوچکی ہیں اور بات ایکشن اور ری ایکشن سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔افسوس صد
افسوس وہی روایتی گھسے پٹے جملوں کا استعمال وہی الزام تراشیوں کا سہارا
لیا ، وہی اپنی زمہ داری چھوڑ کر دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھانے کا سلسلہ
جاری ہے کہ خادم اعلیٰ کی جانب سے پنجاب میں جعلی ادویات کے استعمال کرنے
کے نتیجے میں معصوم افراد کی اموات کا ذمہ دار وفاقی حکومت پر عائد کرنے کی
کوشش کی گئیں ہیں تاکہ اپنی غلطیوں کو چھپا کر عوام کی توجہ دوسروں کی طرف
لگائی جائے مگر شاید وزیراعلیٰ پنجاب یہ جاننا نہیں چاہتے ہیں کہ خود ان کی
پارٹی یعنی مسلم لیگ(ن)نے 18ویں ترمیم پر دستخط کیے ہوئے ہیں جس کے قومی
اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سے محکمہ صحت کا ادارہ مکمل طورپر صوبائی حکومت
کے ماتحت آگیاہے اور اس میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی پوری ذمہ داری خادم
اعلیٰ اور ان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خادم اعلیٰ
اپنی ہی کابینہ میں کسی کو اپنے سے زیادہ اہل نہیں سمجھتے ، جب ہی تو خادم
اعلیٰ پنجاب نے 17 سے بھی زائد وزارتیں اپنے پاس رکھی ہوئی تھیں مگرا س
حادثہ کے بعد انہوں نے چند وزارتیں چھوڑ دیں ہیں ۔کیا خادم اعلیٰ پنجاب نے
ہر واقعہ کا الزام وفاقی حکومت پر ڈالنا اپنا وطیرہ بنالیا ہے ایک بار
خدارا وہ اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں اور اپنے دل سے پوچھ کر دیکھیں کہ
کیا وہ خود جعلی ادویات سے ہلاک ہوجانے والے مظلوم ، اور بے بس غریب عوام
کے قاتل نہیں ہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب دنیا میں جھوٹ کا سہارا لیکر تو راہ
فرار اختیار کرسکتے ہیں مگر روز محشروہ ایک مجرم کی طرح حاکم اعلٰی کے
سامنے کھڑے ہونگے اور وہاں اپنے کیے کا الزام دوسرے کے سر پر تھوپنے کا
کوئی راستہ انہیں نظر نہیں آسکے گا ۔
پاکستان میں انسانی استعمال کی خوراک ، کھا د اور ادویات میں ملاوٹ اور
جعلی ادویات کی تیاری و فروخت پر قتل کی دفعہ تین سو دو عائد نہیں کی
جاسکتی ۔ زیادہ سے زیادہ لائسنس منسوخ ہو سکتاہے یا مجرمانہ غفلت کا مقدمہ
بن سکتا ہے اور سزا بھی صرف چند سال ہے اور یہ سزا پوری ہونے سے پہلے ہی
ظالموں کو رہائی مل جاتی ہے ۔لیکن جن کے گھر کے پیارے اس دنیا سے چلے جاتے
ہیں انکا کا کیا ہو گا ان میں بہت سے ایسے بھی ہونگے جو اپنے گھر کے خود
کفیل ہونگے اب ان کے گھروں کا کیا ہوگا ،انسانی زندگی بہت اہم ہے خدارا
انسانی زندگیوں کی قدر کرو ، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ انسانی زندگی کو
محفوظ بنانے کیلئے ہر ممکن قانون سازی کریں تاکہ انسان اپنی زندگی کو محفوظ
سمجھتے ہوئے خوشحال زندگی گزار سکیں۔ |