پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں
کئی کئی سالوں سے ہزاروں کیس ایسے پڑے ہیں جن کے فیصلے ہونا ابھی باقی
ہیں،فریقین چاہتے ہیں کہ فیصلے ہوں، کیسز ختم ہوں اور جان چھوٹ جائے لیکن
وکلاءاور ججز یہ چاہتے ہیں کہ کیسز چلتے رہیں اور جیبیں بھرتی رہیں۔
وکلاءکے بارہ میں ایسے ہی نہیں کہا جاتا کہ”پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہوگئے“کیا کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ
وکیلوں کے درمیان ہونے والے عدالتی مقابلوں میں کوئی ایک تو جھوٹا ہوگا مگر
کتنی صفائی سے ہر کوئی اپنے فریق کو سچا ثابت کرنے کےلئے جان مارتا ہے چاہے
اُسکا فریق مجرم ہی کیوں نہ ہو،سزا معصوم کو دلوا دی جاتی ہے۔پھر پاکستان
میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والی مثال ہے،جس کے پاس زیادہ پیسہ وہی جیت
کا حق دار،یعنی پیسہ پھینک تماشا دیکھ!بڑے بڑے مجرموں کو روپیہ دے کر سزا
سے بچا لیا جاتا ہے اور اگر اتنے پیسے نہ ہوں جو انصاف کی ٹوکری کے اوپر
بیٹھے سانپ مانگ رہے ہوںتو قانون کے ہاتھوں مجرم کو عدالتوں سے فرار کروا
دیا جاتا ہے یا پھر اُنہیں سزا ہونے کے بعد جیل سے فرار کروادیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی بار کی نومنتخب کابینہ کی تقریب حلف
برداری سے خطاب کرتے ہوئے بہت کُچھ کہا مگر جو بات اہم اور قابل غور ہے وہ
یہ کہ اُنہوں نے کہا کہ کرپشن انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ایک لحاظ سے
توچیف جسٹس صاحب نے صحیح کہا کہ کرپٹ جج اور وکلاءکی وجہ سے انصاف ہر کسی
کی پہنچ میں نہیں رہا۔عوامی خیال تو یہ بھی ہے کہ وکلاءاور ججوں کے ہیڈ بھی
بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں ،جس کی وجہ سے کرپٹ حکمران اور کھرب پتی بچ
جاتے ہیں اور کمزور مارے جاتے ہیں۔ویسے تو چیف جسٹس صاحب بھی کھرب پتی ہیں!!!
ہمارے ملک میں لاقانونیت ختم ہوجائے ، جلد اور شفاف انصاف تک ہر ایک کی
رسائی ہوتو پاکستانی قوم کو یورپی ممالک کی طرف بھاگنے کی ضرورت ہی
نہیں۔چونسٹھ سالوں میں پاکستان کی عدالتیں عوام کو فوری انصاف کا نظام نہیں
دے سکیں اور چیف جسٹس اپنے بیانات میں سیاستدانوں کی طرح گھسے پٹے الفاظ
استعمال کر کے عوام کو اُمیدیں دلاتے ہیں کہ وہ نظام کو جلد درست کر کے
دیکھائیں گے۔فی الحال تو وزیر اعظم کے کیس سے نبٹ کے دیکھائیں۔کیونکہ اس
کیس پر پوری دُنیا کی نظر ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کا یہ کیس
کتنا عرصہ چلتا ہے۔عین ممکن ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے
کے قریب پہنچ جائے اوریہ کیس ساتھ ساتھ ہی چلے یہ بھی ممکن ہے کہ سید یوسف
رضا گیلانی صاحب کی عمر کے ساتھ ساتھ ہی یہ کیس چلتا رہے۔یہاں یہ کہنا غلط
نہ ہوگا کہ قصوروار آخر کار عوام ہی ہے جو کرپٹ حکمرانوں کے عدالتوں تک
پہنچنے کے بعد بھی اُنہیں سپورٹ کرتی ہے اور حکمرانوں کے حوصلے بلند ہو
جاتے ہیں۔عوام نے اسلامی ممالک میں انقلاب تو بہت دیکھ لئے مگر اپنے ملک کے
حالات بدلنے کی ہمت اور شوق پھر بھی عوام کے دلوں میںپیدا نہیںہوا۔انقلاب
کا نام لیں تو گھر سے باہر کوئی نہیں نکلتا،ناچ گانوں کے مقابلے کی بات
کریں تو لائنیں لگ جاتی ہیں!!!پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں کئی کئی سالوں
سے ہزاروں کیس ایسے پڑے ہیں جن کے فیصلے ہونا ابھی باقی ہیں،فریقین چاہتے
ہیں کہ فیصلے ہوں، کیسز ختم ہوں اور جان چھوٹ جائے لیکن وکلاءاور ججز یہ
چاہتے ہیں کہ کیسز چلتے رہیں اور جیبیں بھرتی رہیں۔ وکلاءکے بارہ میں ایسے
ہی نہیں کہا جاتا کہ”پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا لو آج ہم بھی صاحبِ
اولاد ہوگئے“کیا کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ وکیلوں کے درمیان ہونے
والے عدالتی مقابلوں میں کوئی ایک تو جھوٹا ہوگا مگر کتنی صفائی سے ہر کوئی
اپنے فریق کو سچا ثابت کرنے کےلئے جان مارتا ہے چاہے اُسکا فریق مجرم ہی
کیوں نہ ہو،سزا معصوم کو دلوا دی جاتی ہے۔پھر پاکستان میں جس کی لاٹھی اُس
کی بھینس والی مثال ہے،جس کے پاس زیادہ پیسہ وہی جیت کا حق دار،یعنی پیسہ
پھینک تماشا دیکھ!بڑے بڑے مجرموں کو روپیہ دے کر سزا سے بچا لیا جاتا ہے
اور اگر اتنے پیسے نہ ہوں جو انصاف کی ٹوکری کے اوپر بیٹھے سانپ مانگ رہے
ہوںتو قانون کے ہاتھوں مجرم کو عدالتوں سے فرار کروا دیا جاتا ہے یا پھر
اُنہیں سزا ہونے کے بعد جیل سے فرار کروادیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی بار کی نومنتخب کابینہ کی تقریب حلف
برداری سے خطاب کرتے ہوئے بہت کُچھ کہا مگر جو بات اہم اور قابل غور ہے وہ
یہ کہ اُنہوں نے کہا کہ کرپشن انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ایک لحاظ سے
توچیف جسٹس صاحب نے صحیح کہا کہ کرپٹ جج اور وکلاءکی وجہ سے انصاف ہر کسی
کی پہنچ میں نہیں رہا۔عوامی خیال تو یہ بھی ہے کہ وکلاءاور ججوں کے ہیڈ بھی
بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں ،جس کی وجہ سے کرپٹ حکمران اور کھرب پتی بچ
جاتے ہیں اور کمزور مارے جاتے ہیں۔ویسے تو چیف جسٹس صاحب بھی کھرب پتی ہیں!!!
ہمارے ملک میں لاقانونیت ختم ہوجائے ، جلد اور شفاف انصاف تک ہر ایک کی
رسائی ہوتو پاکستانی قوم کو یورپی ممالک کی طرف بھاگنے کی ضرورت ہی
نہیں۔چونسٹھ سالوں میں پاکستان کی عدالتیں عوام کو فوری انصاف کا نظام نہیں
دے سکیں اور چیف جسٹس اپنے بیانات میں سیاستدانوں کی طرح گھسے پٹے الفاظ
استعمال کر کے عوام کو اُمیدیں دلاتے ہیں کہ وہ نظام کو جلد درست کر کے
دیکھائیں گے۔فی الحال تو وزیر اعظم کے کیس سے نبٹ کے دیکھائیں۔کیونکہ اس
کیس پر پوری دُنیا کی نظر ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کا یہ کیس
کتنا عرصہ چلتا ہے۔عین ممکن ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے
کے قریب پہنچ جائے اوریہ کیس ساتھ ساتھ ہی چلے یہ بھی ممکن ہے کہ سید یوسف
رضا گیلانی صاحب کی عمر کے ساتھ ساتھ ہی یہ کیس چلتا رہے۔یہاں یہ کہنا غلط
نہ ہوگا کہ قصوروار آخر کار عوام ہی ہے جو کرپٹ حکمرانوں کے عدالتوں تک
پہنچنے کے بعد بھی اُنہیں سپورٹ کرتی ہے اور حکمرانوں کے حوصلے بلند ہو
جاتے ہیں۔عوام نے اسلامی ممالک میں انقلاب تو بہت دیکھ لئے مگر اپنے ملک کے
حالات بدلنے کی ہمت اور شوق پھر بھی عوام کے دلوں میںپیدا نہیںہوا۔انقلاب
کا نام لیں تو گھر سے باہر کوئی نہیں نکلتا،ناچ گانوں کے مقابلے کی بات
کریں تو لائنیں لگ جاتی ہیں!!! |