جوآکے نہ جائے وہ مہنگائی دیکھی

اردو ادب کے ممتاز شاعر میر انیس کی مشہور رباعی ہے:
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
لیکن اگر میر انیس موجودہ زمانے میں ہوتے تو مندرجہ بالا رباعی کے تیسرے مصرعے کو کچھ اس طرح کہتے:
”جوآکے نہ جائے وہ مہنگائی دیکھی“

جس طرح ہر انسان کو بلاتفریق مذہب و مسلک رنگ و نسل و زبان اس بات کا یقین ہے کہ موت ضرور آئے گی اسی طرح ہرپاکستانی کو اس بات کا بھی یقین ہوتا ہے کہ سالانہ مرکزی بجٹ سے پہلے یا بعد میں قیمتوں میں اضافہ بھی ضرور ہوگا۔ دستور یہ ہوگیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت جب تک حزبِ اختلاف میں رہتی ہے تو قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کو لے کر خوب واویلا کرتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ہر سیاسی جماعت کے انتخابی منشور کا اہم نکتہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر ہم برسرِ اقتدار آگئے تو ضروری اور غیر ضروری اشیاءکی قیمتیں کم کردی جائیں گی لیکن جب یہی جماعت خود حکومت سنبھالتی ہے تو یہ بھی وہی عمل دہراتی نظر آتی ہے جو سابقہ حکومتیں کرتی رہی ہیں یعنی نہ صرف قیمتوں میں کمی کرنے میں ناکام رہتی ہے بلکہ مزید اضافہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ بہر کیف برسرِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں اپنا اپنا کردار بخوبی ادا کرتی رہتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس اہم سوال پر کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر حکومت قیمتوں میں استحکام لانے میں ناکام رہتی ہے۔ سنجیدگی سے غور کرتے ہیں تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ صرف دو ہی وجوہات ایسی ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ حکومت قیمتوں میں استحکام لانا ہی نہ چاہتی ہو یا مناسب اقدام کرنے سے قاصر رہتی ہو۔ دوسرے یہ کہ ملک کے اقتصادی حالات کے پیشِ نظر قیمتوں میں کمی کرنا یا استحکام لانا اس کے بس کی بات ہی نہ ہو۔ پہلی وجہ کو تو ہم اس وجہ سے مسترد کرسکتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جو عوام کے ووٹوں سے برسرِ اقتدار آتی ہے وہ یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ عوام متواتر قیمتوں میں اضافہ سے اس سے بددل ہوجائیں کیونکہ انتخابات کے موقع پر انہیں ایک بار پھر عوام کے سامنے جانا ہوگا۔ لہذا کوئی بھی سیاسی جماعت جان بوجھ کر اپنی ساکھ مجروح نہیں کرے گی۔ اس لئے ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ ہمارا اقتصادی ڈھانچہ ہی کچھ اس طرح کا ہے جس میں متواتر قیمتیں بڑھتے رہنا ایک ایسا عمل ہے، جس پر قدغن لگانا ناممکن ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ ان ناقابلِ فراموش حالات کے لئے حکومت اپنی بے بسی ظاہر کرنے کے بجائے مختلف تاویلیں پیش کرکے عوام کو بہلاتی رہتی ہیں۔ قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور ان پر قابو نہ کرپانے کی وجہ سے عوامی بے چینی کا پیدا ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ قیمتوں میں عدم استحکام اور اقتصادی نظام کے غیر متوازن ہونے کی وجوہات کا جائزہ مندرجہ ذیل طریقے سے لیا جاسکتا ہے۔جملہ ماہرین اقتصادیات اس بات پر متفق ہیںکہ ہر چیز کی قیمت کا انحصار اس کی پیداوار اور بازار میں اس کی کھپت پر ہوتا ہے یعنی قیمتوں کے گھٹنے اور بڑھنے کا انحصار پیداوار اور کھپت کے بیچ توازن اور عدم توازن پر ہوتا ہے۔ لیکن موجودہ اقتصادی نظام میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پیداوار اور کھپت والے نظریہ کے علاوہ بھی بہت سی ایسی وجوہات ہیں جو قیمتوں میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ کیونکہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ ایک بار جب کسی چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو بازار میں اس چیز کی کتنی ہی افراط کیوں نہ ہوجائے بڑھی ہوئی قیمتیں کم نہیں ہوتیں۔حقیقت دراصل یہ ہے کہ قیمتیں نہیں بڑھتیں بلکہ کرنسی کی قوتِ خرید گھٹ جاتی ہے۔ ہمار ا اقتصادی ڈھانچہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کرنسی کی قوتِ خرید متواتر گھٹتی رہتی ہے جس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے جس کی وجہ ہے کرنسی کا بے تحاشہ پھیلاﺅ۔ جسے افراط زر یا INFLATION سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ماہر اقتصادیات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ قیمتوں میں اضافے کا سبب افراطِ زر یعنی INFLATIONہی ہے۔ کرنسی کے پھیلاﺅ کا مطلب تو یہی ہوا کہ عام آدمی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہونا یعنی قیمتوں کے ساتھ آمدنی میں بھی اضافہ ہو۔ پھر مہنگائی کے اثرات اس قدر نہ ہونے چاہئیں جتنا اس کے خلاف واویلا ہوتا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ افراطِ زر کی وجہ سے قیمتوں میں تو اضافہ ہوجاتا ہے لیکن متوسط طبقہ کی آمدنی اس حساب سے نہیں بڑھتی جس حساب سے INFLATION والی کیفیت کے پیشِ نظر قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا عوامی بے چینی ناگزیر ہوجاتی ہے۔غورطلب بات یہ بھی ہے کہ افراطِ زر یعنی INFLATION والی کیفیت کب اور کیسے پیدا ہوتی ہے اور حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام کیوں رہتی ہے۔ اس سلسلہ میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ ایک فطری عمل ہے اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جسے کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دیگر بات یہ ہے کہ ہر عمل اور اس کے ذریعہ پیدا ہونے والے نتائج کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔ اس لئے INFLATION کے بڑھنے اور گھٹنے کی بھی معقول وجوہات کا پایاجانا یقینی ہے۔ افراطِ زر کے متواتر بڑھتے رہنے اور اس پر قابو نہ پانے کی اصل وجہ ہے ہمارا ناقص اقتصادی اور بینکنگ نظام۔ اقتصادیات کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ صرف اتنی ہی کرنسی بازار میں موجود ہو جس کے برابر زرِ مبادلہ حکومت کے خزانے میں محفوظ ہو۔ اور زرِ مبادلہ کا انحصار مختلف ذرائع سے ہونے والی پیداوار پر ہوتا ہے۔ یہ پیداوار یا پروڈکشن چاہے زراعت سے ہو یا کارخانوں سے اور یا قدرتی معدنیات سے اور یا غیر ملکی تجارت سے۔ لہٰذا تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی پیداوار میں کسی وجہ سے کمی آجائے اور غیر ملکی زرِ مبادلہ میں بھی کمی آجائے تو مزید اضافی کرنسی بازار میں لانے پر حکومت مجبور ہوجاتی ہے تب کرنسی کے پھیلاﺅ میں عدم توازن کا پیدا ہوجانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا بازار میں زرمبادلہ کے مقابلہ میں کرنسی کے عدم توازن کے پیدا ہونے کی وجہ سے ہی INFLATION والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور قیمتوں کا بڑھنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔کرنسی کے بے جا پھیلاﺅ کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ عوام جو پیسہ بینک یا ڈاکخانوں کی بچت اسکیموں پر INVEST کرتے ہیں اس کے علاوہ بینک جمع شدہ رقومات پر اپنے کھاتہ داروں کو Interest کی شکل میں کچھ اضافی رقم دیتا ہے بینک اپنے جمع شدہ سرمایہ کو مختلف طریقوں سے تجارت میں Invest کرکے یا لوگوں کو قرض دے کر ان سے اضافی Interest وصول کرتا ہے۔ لیکن اگر بینکوں کے اس نظام پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کرنسی کی مقدار میں متواتر اضافہ ہوتے رہنا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اور افراطِ زر( INFLATION )والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا بینکوں اور ڈاکخانوں کی بچت اسکیموں کی وجہ سے Investers کی جمع شدہ رقومات میں اضافہ تو ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ کرنسی کی قوت خرید بھی گھٹتی رہتی ہے اور قیمتوں کے بڑھنے کا نہ رکنے والا عمل چلتا رہتا ہے اور چلتا رہے گا۔قیمتوں میں عدم استحکام کی ایک اور وجہ ہے ضروری اشیاءکی درآمد اور غیر ضروری چیزوں کا برآمد کیا جانا چاہے یہ قانونی شکل میں ہو یا غیر قانونی طریقوں سے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں بازار پرشیئر مارکیٹ اور سٹہ بازار کا کنٹرول متواتر بڑھتا جارہا ہے اور ان کا جلدی جلدی اتارچڑھاﺅ بھی قیمتوں میں عدم استحکام کی بڑی وجہ ہے۔مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قیمتوں کے تواتر بڑھتے رہنے کی اصل وجہ ہے ضروری چیزوں کی پیداوار میں کمی۔ زرِ مبادلہ کا کم ہوجانا۔ کرنسی کا بے جا پھیلاﺅ۔ کرنسی کی قوتِ خرید کا گھٹنا، افراطِ زر میں اضافہ، ذخیرہ اندوزی، ضروری اشیائکی درآمدات اور غیر ضروری چیزوں کی برآمدات کے علاوہ ناقص بینکنگ نظام وغیرہ۔(پی ایل آئی)
M A Tabbasum
About the Author: M A Tabbasum Read More Articles by M A Tabbasum: 14 Articles with 28530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.