مظہر امام ؛ اردو شاعری کا اہم ستون

مظہر امام واقعی کا شمار ان خوش نصیب شاعروں میں ہوتا ہے، جن کی شخصیت اور شاعری پر ان کے ہم عصروں کے مقابلے میں ان پر بہت زیادہ لکھا گیا ۔ جس کی وجہ ان کا منفرد لب و لہجہ خوب صورت اسلوب اور فکرو فن کا حسین امتزاج اور تازگی و شگفتگی تھا ۔

مظہر امام کی شاعری کے ابتدائی دور پر ہم ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کے یہاں بھی رومان پرور ماحول اور حسن و شباب کی کھلی فضا ملتی ہے ۔ اور یہ رومان پرور ماحول اور یہ کھلی کھلی حسن و شباب کی فضا تصوراتی نہیں ہے بلکہ احساسات و جذبات میں ڈوبی ہوئی پرکیف اور پر اثر کیفیتیں ہیں
تری نظر میں حیا نے جو لی اک انگڑائی
مری نگاہ میں میرا سوال شرمایا
٭
امام دشت محبت میں اک سہارا ہے
کسی حسین کے سجل روپ کا گھنا سایا
٭
آپ کو میرے تعارف کی ضرورت کیا ہے
میں وہی ہوں کہ جسے آپ نے چاہا تھا کبھی
٭
اپنی وفاؤں پر بھی ندامت ہوئی مجھے
وہ اس قدر تھے اپنی جفاؤں پہ شرمسار
٭
تو میرے انتظار میں ہوگی
میری یادوں کے نرم و نازک لب
تیرے خوابوں کو چومتے ہوں گے
میری باتوں کے میگھ دوت اکثر
دل کی وادی میں گھومتے ہوں گے
(انتظار)

حسن و عشق کی خواب آور فضاؤں کے بعد جب مظہر امام زندگی کی تلخ حقیقتوں سے دوچار ہوئے تو زندگی کی تلخیوں کو گھونٹ گھونٹ پینے لگے ۔ وہ خود کہتے ہیں:”قومی اور بین الاقوامی انتشار نے ایقان و اعتماد کی دیواروں کو متزلزل کردیا ۔ زندگی کی عزیز قدریں ، آہستہ آہستہ فنا ہو رہی ، فریب، ریا ، تنگ نظری ، جانب داری اور خود غرضی کی بڑی کریہہ صورتیں سامنے آئیں ۔ احباب کی شفقتوں نے پرانے زخموں پر نمک پاشی بھی کی اور نئے زخموں کا اضافہ بھی کیا-

زندگی کی شکستوں اور تلخ تجربوں نے جن کی نوعیت ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھی۔ میری روح میں یاس و تلخی کا زہر گھول دیا ۔غالباً یہ میرے حق میں اچھا ہی ہوا کیونکہ اس کے بغیر شاید میں اپنے عہد کے مزاج سے ناآشنا اور اپنے ہم عصروں کے لئے اجنبی رہتا۔“
(زخم تمنّا ،ص :13)

زندگی کی تلخیوں ، کربناکیوں، محرومیوں اور مایوسیوں سے مظہر امام متاثر ہوتے ہیں لیکن فرار حاصل نہیں کرتے ۔بلکہ وہ ان سے نبردآزما رہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں -
روز ازل سے ترشی حالات ہے نصیب
پھر بھی مئے حیات کا اترا نہیں خمار
٭
دوستوں سے ملاقات کی شام ہے
یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا
٭
سنّاٹے کے گہرے پن میں گم ہے اپنی بھی آواز
ڈھونڈ کے لاؤں کوئی دشمن اس سے دودو بات کروں

مظہر امام کی شاعری عہد حاضر کی تمام تر کیفیات اور اس کے اسرارو رموز سے جڑی ہوئی ہے ۔ خوف اور عدم تحفظ کا احساس افسردگی، ،بے زاری ، بے بسی ، بے کیفی، بے چہرگی، درد و کرب، گھٹن شکستگی ذات کا کرب اور احساس تنہائی وغیرہ جو عصر حاضر کی دین ہیں ان کا اظہار پورے فنی حسن اور فکری بالیدگی کے ساتھ مظہرامام کے یہاں موجود ہیں ۔ ایسے لمحات کے اظہار میں مظہر امام کسی شاعر کی تقلید نہیں کرتے۔ بلکہ وہ جو دیکھتے اور جھیلتے ہیں انہیں بڑے خلوص اور اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔اور چونکہ مظہر امام نے اپنا لب و لہجہ ، اپنا اسلوب اور اپنی آواز کو خود تراشا ہے اس لئے ان کے فکرو احساس میں تنوع، لب و لہجہ اور اسلوب میں ایک ایسی انفرادیت جھلکتی ہے جن سے مظہر امام کو بہ آسانی پہچانا جاسکتا ہے ۔ شوخی، شائستگی اور شگفتگی بھی مظہر امام کے اہم اوصاف ہیں ، جو مظہر امام کے Originalityاور Identityکے نمایاں ثبوت ہیں
میں تو اس حشر تماشا میں خدا بن کے رہا
تو بھی اس بھیڑ میں ہوتا تو اکیلا ہوتا
٭
تیشہ اٹھا لیا ہے تو اب جو بھی زد میں آئے
اس راستے میں تیری عمارت بھی آئے گی
٭
جس سے کترا کے نکلتے رہے برسوں سر راہ
اس سے کل ہاتھ ملایاتو وہ اپنا نکلا
٭
خوشی سے آگ لگاؤ کہ اس محلّے میں
مرا مکان ہی نہیں تمہارا گھر بھی ہے
٭
دیواریں ہل رہی ہیں زماں و مکاں کی
گرتا ہوا یہ گھر کوئی آکر سنبھال دے
٭
کاش اب اپنی تمنّا کا خدا ہوجاؤں
وہ ہمہ گوش ہے بے صوت و صدا ہوجاؤں
٭
کیوں خود کو نہ چاہوں کہ ترا دل تو نہیں میں
کیوں خود سے بچھڑ جاؤں کہ تجھ سا تو نہیں ہوں

مظہر امام کے یہاں کوئی تاثر، کوئی کیفیت، کوئی خیال اور کوئی احساس آورد کا نتیجہ نہیں۔بلکہ ہر جگہ آمد ہی آمد ہے اور ان میں شعریت کے ساتھ ساتھ فکرو معنی کی تہہ در تہہ حسن ملتا ہے ۔بعض فکری پہلو مظہر امام کے یہاں ایسے ہیں جن پر فلسفہ کا گمان ہوتا ہے ۔لیکن در حقیقت یہ فلسفہ نہیں ہے ،بلکہ حیات و کائنات کے دردو داغ ، جستجو و آرزو اور اس کے اسرار رموز ہیں ۔اور ان کیفیات کے اظہار و احساس کے لئے مظہر امام علامتوں استعاروں اور تشبیہوں کا بھی خوبصورت استعمال کرتے ہیں اور اپنے فکرو خیال کو گنجلک ،لایعنی اور ابہام سے بچاتے ہوئے گہری معنویت پیدا کرتے ہیں اور تراشے گئے استعارے علامتیں یا تشبیہیں اشعار میں جزو لاینفک کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں ۔یہ کیفیتیں غزلوں کے ساتھ ساتھ نظموں میں بھی بڑے حسین انداز میں ملتی ہیں چند نمونے دیکھئے
سوچتا ہوں کہ تجھے کون سا تحفہ بھیجوں؟
اپنے ہونٹوں کی جلن ، اپنی نگاہوں کی تھکن!
اپنے سینے کی گھٹن ، اپنی امنگوں کا کفن!
جادہ زیست پہ بکھرے ہوئے کانٹوں کی چبھن!
عمر بھر کا سرمایہ یہی ہے اے دوست!
(تحفہ)
میں بھٹکا ہوں
کتنے سرابوں میں صحراؤں میں
کئی کارواں مجھ سے آگے گئے
ان کے نقش پا ابھی مشتمل ہیں
ابھی دھول نے ان پہ چادر بچھائی نہیں ہے
مجھ سے پیچھے
نئے کاروانوں کی گرد اڑرہی ہے
کچھ جیالے جوان
تازہ دم ، تیز رو
اور میں
وقت کی رہ گزر کا وہ تنہا مسافر
جو ہر قافلے سے الگ
رہ روؤں سے الگ
اجنبی سمت
یوں چل رہا ہے
کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے
(رشتہ گونگے سفر کا)

حسرت و غم کی تپش ریز گزر گاہوں پر!
میرے رہتے ہوئے چھالوں کے نشاں ملتے ہیں
زیست دم بھر کو جہاں بیٹھ کے سستا تی ہے
اب وہ پیپل کے گھنے سائے کہاں ملتے ہیں
(کھویا ہوا چہرہ)
میں اب وہ نہیں ہوں
جو میں تھا
اب اک مُردہ انسان کا کوٹ میرے بدن کی کثافت چھپائے ہوئے ہے
میں برسوں کی رسوائیاں
اس کی بوسیدہ جیبوں میں مدفون کرنے میں مصروف ہوں
(تمہارے لئے ایک نظم)
عقیدے نیزوں کی زخم کھاکر سسک رہے ہیں
یقین کی سانس اکھڑ چکی ہے
نڈھال خوابوں کے ہونٹ سے خاک و خوں کے شعلے ابل رہے ہیں
عزیز قدروں پہ جانکنی کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے
پتنگ کی طرح کٹ چکے ہیں تمام رشتے
جو آدمی کو قریب کرتے تھے آدمی سے
(اکھڑتے خیموں کا درد)

ان کے علاوہ مظہر امام کی بعض نظمیں مثلاً پوسٹ نہ ہونے والا ایک خط ، ٹھہرے ہوئے لمحے سے پرے، چلوائے امام ، اے دوست، شعاع فردا کے راز دانو، خواب سچ بھی ہوتے ہیں، آنگن میں ایک شام ،اور گوشت کا نغمہ وغیرہ ایسی ہیں جن میں مظہر امام کی شاعری معیار کی بلندیوں پر نظر آتی ہیں۔

مظہر امام پر ایک الزام یہ ہے کہ :”ہندوستان میں جدیدیت کے فروغ کے بعد وہ بہت سے اردو شعرا ءکی طرح ترقی پسند تحریک کے دھارے سے کٹ کر علیٰحدہ ہوگئے ۔ ان کی دانست میں ترقی پسندی فکرو نظر کے کٹرپن کا دوسرا نام تھا ۔ یہ چیز ان کے لئے شجر ممنوعہ بن گئی اور جدید شاعروں کے ساتھ ہوگئے ۔ اس سلسلے میں میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ فکرو نظر کے کٹر پن کی بات محض ایک بہانہ تھی ۔ان کو اصل جدیدیت میں کشش نظر آئی ۔ آدمی نہایت ذہین اور نبّاض ہیں ۔اس لئے ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اب جدیدیت کا ہی بول بالا ہوگا، اور ترقی پسندی رفتہ رفتہ ماند پڑ جائے گی۔ اس لئے تحفظ شہرت کی خاطر انہوں نے ادب کے ترقی پسند نظریہ کو خیرباد کہا اور جدید شعرا کی محفل میں چلے آئے۔“
(اویس احمد دوراں ، گوشہ مظہر امام ،شاعر ص:28)

میرا خیال ہے کہ مظہر امام پر یہ الزام غلط اور بے بنیاد ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مظہر امام نہ تو ”تحفظ شہرت “ کے لئے ”جدید شعرائ“ کی محفل میں آئے اور نہ ہی ترقی پسند تحریک کے کٹر پن کی وجہ کر ،بلکہ مظہر امام نے شاعری کی ارتقائی منزلوں کو طے کیا ہے۔

آج ہم جن حالات ، حادثات، واقعات سے گزررہے ہیں وہ یقینی طور پر کل نہیں تھے یا آج جو ہیں وہ کل نہیں ہوں گے ۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں جو سیاسی ، سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ تھا وہ آج بدلی ہوئی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔اور پھر شاعر و ادیب تو وقت کا نباض ہوتا ہے ۔اپنے آس پاس کے ماحول یا پھر ذاتی احوال کو وہ بیان کرتا ہے ۔ موجودہ عہد میں ذات کا کرب ، تنہائی ، محرومی، مایوسی ، گھٹن، بے چہرگی ، ظلم، بربریت ، ناانصافی ، استحصال وغیرہ زندگی کے ہر مو ڑ پر موجود ہیں ۔ پھر ان سے شاعر کا متاثر ہونا بالکل فطری عمل ہے ۔اگر مظہر امام کی شاعری اور فکر و احساس میں عہد حاضر کی جھلکیاں موجود نہ ہوتیں اور وہ گل و بلبل ، حسن و عشق اور ہجر وصال کی باتیں کرتے ہوتے تو یقینی طور پر مظہر امام کی آج جو مقبولیت ہے وہ نہ ہوتی ۔بلکہ انہیںOut datedقرار دے کر فراموش کردیا جاتا۔

مظہر امام کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ انہوںنے بدلتے ہوئے وقت اورحالات کی عکاسی کی ہے اور اپنی فکری بصیرت اور فنی آگہی سے غزلوں اور نظموں میں نت نئے گل و بوٹے کھلائے ہیں اور عصری حسیت اور جدید تقاضوں کو پورا کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مظہر امام کی شاعرانہ عظمت کاا عتراف مظہر امام کے ہم عصر شعراء،اور پیش رو شعراء کے ساتھ ساتھ کئی اہم ناقدین ادب نے کیا ہے ۔ چند مشاہیر کے تاثرات پیش ہیں:

”ابھی کل کی بات ہے کہ وہ ننھا ساسہما سہما دیا جو کلکتہ کی ادبی مجالس میں روشن ہوا تھا دیکھتے دیکھتے ستارہ بن کر اپنی روشنی دور دور تک پھیلانے لگا۔“ (جمیل مظہری)

”مظہر امام کی شاعری لطافت احساس اور طہارت فکر کی خوبصورت مثال ہے ۔ان کے یہاں ایک چٹیلا پن اور نشاط آمیز دل گرفتگی ہے جو ان کے کلام کو انفرادیت بھی عطا کرتی ہے اور دل نوازی بھی۔“
(فراق گورکھپوری)

” مظہر امام کے کلام میں زبان و بیان کی پختگی ، لہجے کی سنجیدگی ، جذبے کی شدت اور بدلتے ہوئے حالات کا شعور بھر پور موجود ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جذبات و تاثرات کے ساتھ عصری رجحانات کا اظہار کیا ہے ۔اور یہ ان کے کامیاب شاعر ہونے کی دلیل ہے۔“
(غلام ربانی تاباں)

یہ تاثرات ہیں مظہرا مام کے پیش رو ممتاز اور اہم شعرا کے ۔ اب دیکھئے کہ ان کے ہم عصر ان کے بارے میں کیسی رائے رکھتے ہیں:
ان (مظہر امام) کی شاعری میں وہ تمام عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں جو اچھی اور سچی شاعری میں ہوتے ہیں ۔“
(شہر یار)

”آپ (مظہر امام) ان چند شاعروں میں ہیں جوسوچ سمجھ کر لکھتے ہیں اور جن کے یہاں کہنے کے لئے کوئی نہ کوئی نئی بات ہوتی ہے آپ جدید ہیئتوں میں تجربے کررہے ہیں وہ بھی قابل قدر ہیں۔“
(وحید اختر)

” ایک عمر سے تمہارا (مظہر امام )کلام پڑھتا ہوں اور تمہیں اپنے قبیلے کے شاعروں کا پیش رو سمجھتا ہوں۔ تمہاری شاعری مجھے جان سے عزیز ہے۔“ (بانی)

”مظہرا مام ان معدودے چند شعراءمیں ہیں جنھیں اپنا ہم عصر اور ہم سفر سمجھنے میں مجھے ہمیشہ مسرت محسوس ہوتی ہے۔“
(خلیل الرحمن اعظمی)

مظہر امام کی شاعری کی تازگی ، شگفتگی ، روایت کی پاسداری ، جدید حسیت، عصری تقاضوں کا احساس ، فکری اور فنی آگہی و عرفان اشارے و کنائے میں گہری معنویت پیدا ہونے والی باتیں منفرد لب و لہجہ ، مخصوص اسلوب اور حیات و کائنات کے گہرے شعور نے ایک ایسی فضا پیدا کردی کہ ناقدین اردو ادب کو کہنا پڑا کہ :

”مظہر امام ہمارے ان ممتاز شعراءمیں سے ہیں جن کے یہاں عصری میلانات اور نئی حسیت کی عکاسی کے ساتھ اپنی ساری ادبی روایت کا عرفان بھی ملتا ہے ۔ ان کے یہاں غم و غصّہ یا بیزاری کے بجائے ایک سچے فنکار کا گھمبیر لہجہ ہے۔“
(آل احمد سرور)

”مظہر امام کو اپنے لہجے کی انفرادیت ثابت کرنے کے لئے کسی خارجی سہارے کی ضرورت نہیںہے بلکہ
حیات و کائنات سے ان کا رشتہ ہی ایسا ہے کہ اس کا تصور کسی روایتی فکر سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔“
(شمس الرحمن فاروقی)

”مظہر امام کی شاعری سلگتے ہوئے قلب ، دھڑکتے ہوئے ذہن ، دہکتے ہوئے شعور اور ہانپتے ہوخوابوں کی شاعری ہے ۔ایک بے پایاں درد ایک مستقل کرب ، جو ان کی ہی تخلیق میں چمک اٹھتاہے۔ وہی اس درد سے اس زندگی سے اور خود اپنی شاعری سے ان کے رشتوں کا شناختی نشان ہے۔“
(قمر رئیس)

” میں مظہر امام کی نظمیں اور غزلیں بڑے شوق سے پڑھتا ہوں ۔ اظہار بیان کی تازگی کی وجہ سے وہ فوراً اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہیں۔ مظہر امام نے اشاریت اور سپاٹ اظہار کے درمیان ایک راستہ نکالا ہے ،جو نہ تو ابہام کی طرف جاتا ہے نہ فرسودگی کی جانب، بلکہ تازگی اور تنوع کا احساس دلاتا ہے ۔“
(احتشام حسین)

”مظہر امام ہماری شاعری میں کسی دھماکے سے داخل نہیں ہوئے ۔ انہوں نے فکرو خیال کو خلوص و درد کی دھیمی آنچ میں تپا کر اپنے لئے رفتہ رفتہ جگہ پیدا کی ہے ۔ ان کی شاعری کا رخ نئے تقاضوں کی طرف ہے لیکن فنی سطح پر انہوں نے روایت سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ۔ اس سے ان کے اسلوب و اظہار میں ایک خوش آہنگی اور بے تکلفی آگئی ہے۔“
(گوپی چند نارنگ)

”مظہر امام کی شاعری کے پس پشت زندہ رہنے کی ایک تیز خواہش موجود ہے۔ لیکن خواہش اور تکمیل خواہش کے درمیان حادثات پیہم کے عفریت سینہ تان کے کھڑے ہوگئے ہیں ۔ چیانچہ شاعر نے آئینہ دل کے چور چور ہوجانے کی ہزار کیفیتوں کو اپنی نظموں میں سمو لیا ہے۔“ (وزیر آغا)

یہ تنقیدی تاثرات بھی مظہر امام کی شعری عظمت کے بین ثبوت ہیں ۔ مظہر امام کی فکری اور فنی بصیرت کی وجہ کر انہیں اردو شاعری خصوصاً اردو کی جدید غزل اور نظم کا صف اول کا شاعر قرار دیا جاسکتا ہے۔
Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 107527 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More