پاکستانی قوم ہر سال 5 فروری کو
اپنے مادر وطن کی آزادی کیلئے برسرپیکار کشمیری عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی
کیلئے یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔ پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے یہ دن
پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ءکو اس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود بڑے جوش و
خروش سے منایا تھا۔ پاکستانی قوم کی طرف سے اس دن کو منانے کا مقصد اقوام
عالم کو یہ باور کرانا ہے کہ سیاسی مستقبل کی اس جدوجہد میں پوری پاکستانی
قوم کی غیر متزلزل حمایت کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔ پاکستانی قوم کا اہل
کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت یا اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں
ہے بلکہ اس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔برطانوی حکومت نے 1948ءمیں پاک بھارت
آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا
کیا تا کہ ان نو آزاد مملکتوں پرکاری ضرب لگائی جا سکے وہ مسئلہ کشمیر کی
صورت میں لگائی گئی۔ اس سلسلے میں مڈل مین کا کردار برطانیہ کے آخری
وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے ادا کیا۔
جس کا مقصد یہ تھا کہ برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے والی ان مملکتوں
کے جسم پر ایک ایسا ناسور بنایا جائے جس کے بعد یہ دونوں اسی میں الجھ
جائیں اور ان کی اسلحے کی فیکٹریوں کا وجود بھی قائم رہے۔دنےا میںشاید ہی
کوئی ایسا مسئلہ ہے جس پر اس قدر بات چیت ہوئی ہوجس قدر بحث مباحثہ مسئلہ
کشمیر کے قضیہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا ہے۔اس مسئلہ کا تعلق
کشمیریوں کے سیاسی مستقبل سے ہے لیکن کشمیریوں سے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں
اور نہ ہی کسی کویہ اس بارے میں فکر ہے جیسے پاکستان اور بھا رت کے حکمران
طبقات ہی کشمیریوں کے کرتا دھرتاہیں۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر ایک پیچیدہ مسئلے
کی صورت میں دونوں ملکوں کے حکمران طبقات کے لیے ایک بیش قیمت مشغلہ بن
چکاہے۔جب دونو ں ملکوں کے مالی مسائل قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں تو صرف ان
کو اتنا کرنا پڑتا ہے کہ طبل جنگ بجا دیا جاتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ
اشتعال انگیزی بڑھ جاتی ہے ۔ادھر جنگ کے بادل منڈلانے لگتے ہیں اور دوسری
جانب حکمرانوں کو مقامی مشکلات سے نجات مل جاتی ہے۔پھر دونوں ملکوں کے سادہ
لوح عوام اپنی قسمت سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور اپنے حال پر صبر شکر کر کے
خاموش ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان حکمران طبقات میں سکت نہیں کہ وہ مسلہ
کشمیر سمیت اپنے ملکوں کا کوئی مسئلہ حل کرسکیں اگر ساٹھ سال سے زائد عرصے
میں یہ لوگ اپنے عوام کے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا نہیں کر سکے تو آئندہ
بھی کچھ نہیں دے سکیں گے۔جہاں تک کشمیریوں کا تعلق ہے ان کو پہلے یہ طے
کرنا ہوگا کہ وہ چاہتے کیا ہیں اگر وہ آزادی مانگتے ہیں تو آزادی سے کیا
مراد ہے اور آزادی کس کیلئے اور کس چیز کی خاطر۔ اس کے بعد اس کے حصول کی
جدوجہد اور اس کیلئے ذرائع و وسائل کا حصول۔ گزشتہ 20 سالوں کی جدوجہد اور
1 لاکھ شہداءکی شہادت ہمارے سامنے ہے۔ ابھی تک کشمیریوں نے اتنی بڑی
قربانیوں کے بعد کیا حاصل کیا اور مستقبل میں کیا امید رکھی جا سکتی ہے
دراصل کشمیری خشک نعرے لگانے کے زیادہ عادی ہیں۔ کبھی امریکہ کا سیاہ فام
صدر باراک اوباما کشمیر کا نام لیتا ہے تو وہ بغلیں بجانا شروع کرتے ہیں یا
کبھی برطانیہ کا ملی بینڈ نئی دہلی میں بینڈ بجاتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ
شاید مسئلہ حل ہو گیا حقیقت میں یہ سب نظروں کا دھوکہ ہے۔ امریکہ اور
برطانیہ مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں اور نہ ہی ان سے اس سلسلے میں کوئی
توقع کی جا سکتی ہے اس کی بنےادی وجہ عالی مالےاتی نظام کی کسی ایک بھی
سماجی مسئلہ کو حل کرنے میں نااہلیت ہے۔ قوموں کی آزادی کیلئے کچھ شرائط
ہوتی ہیں جن میں اولین ترجیح قوم کے باہمی اتحاد میں ہوتی ہے جبکہ دوسرے
نمبر پر اس کی لیڈرشپ اورنظریہ ہوتا ہے کہ وہ کس مقصد کیلئے جدوجہد کرتی ہے۔
جب کشمیر کے تناظر میں ان دونوں چیزوں کو دیکھا جاتا ہے تو یہ نہ صرف مفقود
نظر آتی ہیں بلکہ ان کا تجزیہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کرایہ کے
بل پر ہی ہو رہا ہے۔ تحریکوں میں اتار چڑھاﺅ آتا ہے مگر وہ تحریکیں آزاد
ہوتی ہیں ان کی لیڈر شپ آزاد ہوتی ہے۔ جبکہ ان کا مقصداور ایک واضح لائحہ
عمل ہوتا ہے مگر کشمیریوں کے یہاں سب کچھ مفقود ہے۔ یہاں ہر چیز ریموٹ
کنٹرول کے سہارے ہی چل رہی ہے۔ کشمیر کی گزشتہ 20 سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی
جائے تو مایوسیوں اور پریشانیوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ہر جانب
بہروپیوں کا ایک گروہ نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری فکری افلاس کے
شکار ہیں۔ انہوں نے چن چن کر اپنے فکری مربیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے
وہ بھی صرف دوسروں کے اشاروں پر آخر کب تک۔ مسئلہ کشمیر آخر کشمیریوں کا
سکہ ہے مگر کشمیری اس میں شامل نہیں ان سے صرف کام لیا جاتا ہے اور یہی
نہیں بلکہ انہیں دو پاٹوں کے درمیان گھسیٹا جا رہا ہے۔ اگر کوئی کشمیری
گولی چلاتا ہے تو وہ کشمیری کو لگتی ہے کوئی بھارتی فوجی چلاتا ہے اس سے
بھی مظلوم و محکوم کشمیری کا بدن ہی چھلنی ہو تا ہے۔ جبکہ فائدہ کسی اور کو
حاصل ہوتا ہے۔ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے جس سے قومیں اور معاشرے اپنے ماضی
اور حال کا موازنہ کر کے مستقبل کے راستے کا تعین کرتی ہیں۔ ماضی کی یادیں
مستقبل کی امنگوں میں تبدیل ہو کر قوم اور معاشروں کی ترقی کا زینہ بن سکتی
ہیں۔مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے میں سب سے بڑا ہاتھ خود کشمیریوں کا ہے
کشمیریوں کی غیر مستقل مزاجی ،اور درست سمت میں تعین کا فقدان پاکستان اور
بھا رت کے حکمرانوں کو من چاہے فائدے اٹھانے کے مواقع فراہم کررہا ہے۔یہ
رویہ نہ صرف ان دونوں ملکوں کے کروڑوں عوام کے استحصال کا باعث بھی ہے بلکہ
کشمیری ہزاروں شہداء کے امین ہونے کے باوجود شہ رگ کی ضد اور اٹوٹ انگ کی
رٹ کے درمیان آج تک لٹک رہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام کشمیری
کارکنوں اور نوجوانوں کو ایک انقلابی تناظر فراہم کیا جائے جو کہ قومی نہیں
بلکہ بین الاقوامی سطح کا ہو۔ کشمیر میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس
مسئلے کے ایک انقلابی حل کےلئے کوشاں ہے۔ کےونکہ رجعتی قوتیں کشمیری مسئلے
کا کوئی حل آج تک پیش نہیں کر سکیں اور نہ ہی مستقبل میں ان سے کوئی امید
رکھی جا سکتی ہے ۔وقت آگیا ہے کہ جس طر ح کشمیریوں کی آزادی کی حمایت
پاکستان کے عوام کی رگوںمیں لہو کی طرح دوڑتی ہے کشمیر کی تحریک آزادی کو
مضبوط کرنے کےلئے کشمیری بھارت‘برطانیہ یورپ اور دنیا کے دیگر ملکوں کے
عوام کی یکجہتی بھی حاصل کریں۔ |