9 لاکھ کشمیری شہیدوں کا لہو پکار پکار کر کہہ رہا ہے ....آزادی ؟

تحریر : محمد اسلم لودھی

مذاکرات سے اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہونا ہوتا تو بہت پہلے حل ہوچکا ہوتا ۔ 64 سالوں سے اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کشمیر کا تنازعہ حل کرنے میں کبھی سنجیدہ نہیں رہا بلکہ وہ مختلف حیلے بہانوں سے وقت گزارتا چلا آرہا ہے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اب تک صرف کشمیر کی وجہ سے تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور ان جنگوں میں انسانی جانوں کی ضیاع کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ آج بھی دونوں ملک دفاع پر اربوں ڈالر خرچ کرنے پر مجبور ہیں لیکن اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کروانے میں نہ تو بھارت نے کبھی سنجیدگی دکھائی اور نہ ہی پاکستانی حکمرانوں نے دباﺅ ڈال کر اسے ایسا کرنے پر مجبورکیا ہے ۔جبکہ کشمیر کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر افراد بھی حکومتی مراعات سے انجوائے کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔ بلکہ موجودہ صدر آصف علی زرداری تو بھارت کی محبت میں یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو بھارت سے کوئی خطرہ نہیں ہے گویا بھارت نے جو ایٹم بم بنایا ہے وہ سنبھال کے رکھنے کے لیے بنایا ہے پیپلز پارٹی کی حکومت صرف یہی تک محدود نہیں رہی بلکہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم ، بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس کے پاکستانی مسلمان مسافروں کو جلانے کے اذیت اور وحشت ناک واقعات کے باوجود بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی جستجو بھی کرچکی ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کسی رکاوٹ کے بغیر کشمیریوں پر نت نئے مظالم ڈھانے میں مصروف ہے ۔ اس حوالے سے بین الاقوامی میڈیا کا کردار بھی انتہائی متعصبانہ دیکھنے میں آیا ہے انہیں مشرقی تیمور کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے عیسائیوں پر ظلم و ستم تو نظر آتے رہے لیکن وادی کشمیر میں بھارتی فوج کی انسان کشی اور دہشت گردی اس لیے دکھائی نہیںدیتی کہ یہاں اذیتوں کا شکار ہوکر مرنے والے مسلمان ہیں اور مسلمان ہی یہود نواز میڈیا کو ایک نظر نہیں بھاتے جن کی نسل کشی کے لیے پوری دنیا کو جہنم بنا دیا گیاہے ۔ کشمیر جسے حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا آج وہ حقیقی معنوں میں پاکستان کے ہاتھ سے پھسلتا ہوا دکھائی دے رہاہے ۔ اس سے نکلنے والے بیشتر دریاﺅں پر بھارت پہلے ہی قابض ہوچکا ہے جس سے پاکستان کی زراعت صنعت اور معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے ۔اب دریا ئے چناب ، جہلم اور سندھ کے پانی پر بھی ڈیم بنا کر پاکستان کو صحرا بنانے کی کامیاب جستجو میں مصروف ہے۔ دوسری جانب پاکستانی حکمران 5 فروری کو کشمیر ڈے پر قومی تعطیل اور کشمیر کانفرنس کا انعقاد کرکے ہی یہ تصور کر بیٹھے ہیں کہ انہوں نے اس طرح کشمیر سے اپنی وفاداری کااظہار کردیا ہے ۔شاید اسی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ دور دور تک حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ کشمیر صرف دریاﺅں ، پہاڑوں اور جھیلوں کا ہی نام نہیں ہے بلکہ وہاں ایک کروڑ سے زائد مسلمان صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں اور وہ ہندو کی غلامی سے آزاد ہوکر پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں ۔ لاکھوں قربانیوں کے باوجود انہیں یہ حق نہیں مل رہا ۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ہمسایے ہیں نہ بھارت خود کو کسی اور خطے میں لے جاسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان ۔
جب دونوں ملکوں کو ایک ہی خطے میں ہمیشہ رہنا ہے تو ان دونوں کی بقا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیر جیسے دیرینہ اور کشیدگی کا باعث بننے والے مسئلے کے حل میں ہی مضمر ہے ۔ معاملے کی سنگینی کو سمجھنے اور دونوں ملکوں کے مابین متوقع ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے بھی بھارت سنجیدگی اختیار نہیں کررہا اور ہمارے وزیر اعظم بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو مخلص قرار دے کر تمام پاکستانیوں اور کشمیریوں کے زخموںپر نمک چھڑک رہے ہیں ۔اگر حقیقت میں منموہن مخلص ہوتے تو اپنے 8 سالہ دور حکومت میں کشمیر میں استصواب رائے کروا کے ہمیشہ کے لیے دونوں ملکوں کے مابین دوستی کا رشتہ مضبوط بنا سکتے تھے لیکن منموہن ہو یا کوئی اور بھارتی وزیراعظم کوئی بھی کشمیرکو آزادنہیں کرنا چاہتا۔64 سال تو گزر چکے ہیں نہ جانے اور کتنے سال اسی طرح گزر جائیں لیکن حصول آزادی کے لیے 9 لاکھ کشمیری مسلمانوں کا لہو پکار پکار کر پوچھ رہا ہے کہ انہیں آزادی کب ملے گی اور کب وہ الحاق پاکستان کا خواب حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دیکھ سکیں گے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126939 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.