مسلح دستوں کو سنگین جرائم سے امان نہیں

ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں برپا مسلح شورش پر قابو پانے میں سیاسی قیادت اور سول حکام کے ناکام اور ریاستی پولیس طاقت کے ناکافی ثابت ہوجانے کے بعد ہماری جمہوری حکومت کو یہ سوجھا کہ مسلح فورسز جیسے فوج، بی ایس ایف اور سی آر پی ایف وغیرہ کو میدان میں اتارا جائے جن کی تربیت اصلاً اس طور پر ہوتی ہے کہ ملک کی سرحدوں پر بیرونی دشمن کا بے جگری سے مقابلہ کریں، جو مقابلے پر آجائے اس کے ساتھ کسی طرح کی رو رعایت نہ برتی جائے بلکہ اس کا جواب گولی سے دیا جائے۔

اب کیونکہ قانوناً فوج سے سول علاقوں میں پولیس کا کام نہیں لیا جا سکتا تھا اس لئے مسلح دستوں کو شہری علاقوں میں تعینات کرنے اور خود اپنے ہی ہم وطن برگشتہ عناصر کو کچل ڈالنے کے لےے ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ 1958-‘ (AFSPA) منظور کیا گیا۔ یہ ایک جوکھم بھرا اقدام تھا۔روز اول سے ہی یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس ایکٹ کے تحت مسلح دستوں کو تلاشیوں، گرفتاریوں اور’ بوقت ضرورت‘ گولی چلانے کے جووسیع اختیارات دئے گئے ہیں،ان کا بیجا استعمال ہوسکتا ہے۔چنانچہ جلد ہی یہ اندیشہ درست ثابت ہوگیا اور تسلسل کے ساتھ یہ شکایتیں آنے لگیں کہ اس کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ، خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتیاں، اغوا، اذیت رسانی(ٹارچر) حتیٰ کہ عصمت دری اورحراست میں قتل جیسے سنگین جرائم ہورہے ہیں۔حکومت نے کبھی ان جرائم کی پردہ پوشی کی، کبھی چشم پوشی سے کام لیا ،کبھی روک تھام کی جھوٹی تسلیاں دیں، مگر ان کے ازالے پر سنجیدگی سے توجہ نہیںدی۔ ہرچند کہ بعض علاقوںمیں اب حالات نارمل ہوچکے ہیں ، مگر حکومت عوام کے سروں پر لٹکی ہوئی اس ایکٹ کی تلوارکو ہٹانے پر آمادہ نہیں۔ اس کے خلاف منی پور کی ایک خاتون سماجی کارکن ارم شرملا چانو (ولادت 14مارچ1972 ) 2نومبر 2000سے کھانا پینا ترک کئے ہوئے ہے ، مگرسرکار پر بے حسی طاری ہے۔

1980کی دہائی میں کشمیر میں جب شورش بڑھی تومرکز کی وی پی سنگھ سرکار نے، جس میں مفتی سعید وزیر داخلہ تھے ،ایک نیا ایکٹ ’دی آرمڈ فورسز(جموں اینڈ کشمیر) اسپیشل پاورس ایکٹ 1990- منظور کیا، جس کے تحت شورش زدہ علاقوں میں وسیع اختیارات دے کر مسلح’ حفاظتی ‘دستوںکو تعینات کردیا گیا۔ مگر یہاں بھی اختیارات سے حد درجہ تجاوز کی شکایات آتی رہیں اور عملاًایسا لگا کہ یہ فورسز ’حفاظتی‘ کے بجائے ’قاتل‘ دستوں کا رول ادا کررہی ہیں۔ اس صورت میںعموماً نشانہ بھی وہی فورسزبنتی ہیں، حالانکہ انسانی حقوق کی ان سنگین پامالیوں کے لےے ان کو سرکار کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اور اس کے لےے اصلا سیاسی قیادت اور افسر شاہی ہی ذمہ دار ہے۔

کشمیر کی ایک مقامی خاتون صحافی افسانہ رشید نے اپنی دستاویزی کتاب"Widow and Half Widows" ( بیوائیں اور نصف بیوائیں) میں ان ظلم و زیادتیوں اور مقامی آبادی، خصوصا عورتوں اور بچوں پر اس کے شدید اثرات کی جوتصویرپیش کی ہے اس کو پڑھ کر حکومت کی بے حسی اور’حفاظتی‘ دستوں کی بے رحمی پر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اب تو یہ بات ’جموں و کشمیر ریاستی کمیشن برائے انسانی حقوق‘ نے بھی تسلیم کرلی ہے کہ ریاست کے شمالی علاقوں میں ایسی ہزارہا قبریں موجود ہیں جن کے بارے میںیقین کیا جاتا ہے کہ ریاست کے وہ مظلوم افراد دفن ہیں جن کو ’حفاظتی‘ دستے اٹھا کر لے گئے اور ان کو قانونی کاروائی کے لیے پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے قتل کردیاگیا۔ فرضی انکاﺅنٹروں کی شکایات بھی عام ہیں، جن میںمقامی باشندوں کو ہلاک کرکے یہ دعوا کیا گیا کہ پاکستانی درانداز تھے، جو مقابلے میں مارے گئے۔این ڈی اے کے دور حکومت میں ایسا ہی ایک معاملہ ضلع اننت ناگ کے دیہی علاقہ پتھری بل میں پیش آیا، جہاں 3 اپریل 2000 کو مسلح دستوں نے 5مقامی باشندوں کو ہلاک کرکے انکاؤئنٹر کا دعوا کیا اور یہ کہاکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے 20 مارچ 2000 کو اسی ضلع کے گاﺅں چھتی سنگھ پورہ میں34 سکھوں کو گھروں سے نکال کر ہلاک کردیا تھا۔ اس پر احتجاجوں کا سلسلہ دراز ہوا تب جانچ کا حکم ہوا۔پہلے جسٹس پانڈیان کی سربراہی میں عدالتی جانچ میں اور اس کے بعدسی بی آئی جانچ میںیہ ثابت ہوگیا کہ انکاﺅنٹر فرضی تھا، سی بی آئی نے 2007میں ایک برگیڈیر سمیت آٹھ فوجیوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا۔ مگر فوج عرضی پر سپریم کورٹ اس پر سماعت روک دی تھی ۔ فوج کاموقف یہ ہے کہ AFSPAکے تحت ان فوجیوں کو سول عدالتی کاروائی سے امان حاصل ہے اور ان کے خلاف کوئی مقدمہ مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر نہیںچلایا جا سکتا۔ فوج چند درچند وجوہ سے ان افسران کے خلاف کاروائی کی مزاحمت کررہی ہے اوراس کو مرکز کی تائید بھی حاصل ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ وہ کیا وجوہ ہیں، جن کا اظہار نہیں کیا جارہا؟

جب یہ واقعات پیش آئے لال کرشن آڈوانی نائب وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ تھے اور کئی مرتبہ اپنی فسطائی ذہنیت کا اظہار یہ کہہ کرکر چکے تھے کہ ’سارے مسلمان دہشت گرد نہ سہی، سارے دہشت گرد تو مسلمان ہیں‘ ۔چھتی سنگھ پورا کے سانحہ کے بعد جب انہوں نے سکھوںکو مزید سیکیورٹی فراہم کرنے کی پیش کش کی تو مقامی سکھوں نے یہ کہہ کر اس کو مسترد کردیا کہ مقامی مسلم آبادی سے ان کو کوئی خطرہ نہیں۔پاکستان نے اور وہاں کی بعض تنظیموںنے جو، کشمیر میں شورش کی پشت پناہی کرتی رہی ہیں، اس واقعہ کی فوری مذمت بھی کی۔ یہ واقعہ عین اس وقت پیش آیاتھاجب امریکی صدربل کلنٹن برصغیرکے دورے پرپہنچے تھے ۔ اس واقعہ کو پڑوسی ملک کے خلاف سفارتی فضا بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔لیکن کلنٹن نے خود امریکا کی پہلی خاتون خارجہ سیکریٹری میڈلین البرائٹ کی ایک کتاب پر دیباچہ میں اس کو ’ہندو دہشت گردوں‘ کے کارستانی بتایا ہے۔ چنانچہ اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ اس خونریزی میں’کچھ دال میں کالا تھا‘۔پتھری بل کا واقعہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ بہر حال تشویش کی بات یہ ہے کہ این ڈی اے کا دور ختم ہوجانے کے باوجود افسر شاہی کے اقدامات اور عدم اقدامات میں اسی سنگھی ذہنیت کی چھاپ نظر آتی ہے ۔ ہرچند کہ سابق مرکزی وزیر داخلہ شیوراج پاٹل کی فکر میں اپنے پیش رو کی فکر کا عکس نظرآتا تھا مگر افسوس یہ ہے کہ اس معاملہ میں نئے وزیر داخلہ بھی کمزور پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے مرکز میں سیاسی تبدیلی کے باوجود پالیسی میں تسلسل برقرار ہے اور اس میں اصلاح نہیں ہوئی ہے۔

تاہم پتھری بل کا معاملہ کیونکہ ریاست کے لےے بیحد حساس ہے، اس لئے موجودہ مرکزی حکومت اس کی پیروی اس طرح کررہی ہے گویا مظلومین کی دادرسی مقصود ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میںزیر غور ہے۔ مرکزی حکومت کے ایک سینیر وکیل سی بی آئی کی پیروی کررہے ہیں اور دلائل دے رہے ہیں کہ خاطی فوجیوں کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ دوسرے سینیر وکیل فوج کی طرف سے اس کے خلاف موقف کی پیروی کررہے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ مرکزی حکومت کا اصل موقف کیا ہے؟

اطمینان کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنی گزشتہ سماعتوں (23جنوری اور3فروری) میں اپنا عندیہ صاف کردیا ہے اور بتادیا ہے کہ AFSPAکے تحت عصمت دری اور قتل جیسے جرائم میں ملوّث ’حفاظتی‘ دستوں کو قانونی امان حاصل نہیں ہے۔ عدالت عالیہ نے فوج کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالسٹر جنرل پی پی ملہوترا سے سوال کیا: آپ AFSPAکے تحت کسی علاقے میں جاتے ہیں، وہاں عصمت دری کا ارتکاب کرتے ہیں، قتل کا جرم انجام دیتے ہیں، ایسی صورت میں (مقدمہ چلانے کے لےے مرکزی سرکار سے ) منظوری کا سوال کہاں ہے؟ یہ تو عام جرائم ہیں ، جن کے خلاف مقدمہ چلنا چاہئے ، اور یہی ہمارا موقف ہے‘۔ عدالت نے فوج سے پوچھا تھا کہ کیا وہ خود فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا چاہتی ہے؟ اس کے منفی جواب کے بعد عدالت نے یہ کہہ کر ناراضگی جتائی تھی: آپ(فوج) ایسی صورت پیدا کررہے ہیں کہ کوئی اقدام نہ کیا جاسکے۔ نہ آپ خود کچھ کررہے ہیں اور نہ دوسروں کو کچھ کرنے دینا چاہتے ہیں(جس سے خطاکاروں کی سرزنش ہوسکے اور مظلومین کو انصاف مل سکے)

مسٹرجسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس سوتنتر کمارکی بنچ کے اس واضح موقف کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے رویہ میں کوئی مثبت تبدیلی آتی ہے یا نہیںجس سے ظاہر ہو کو انسانی حقوق کی پامالی کی اس کو کچھ فکر ہے؟ جیسا کہ ہم نے گزشتہ ہفتہ اسی کالم میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ’ ’ہندستان نے ابھی تک نہ تو ان قوانین کوکالعدم کیا ہے اور نہ ان پالیسیوں کو بدلہ ہے جن سے قانوناً یا عملاً انسانی حقوق کی پامالیوں کی چھوٹ ملتی ہے ۔ ہندستان انتہائی سنگین وارداتوں میں صاف طور سے ملوث افراد کے خلاف قانونی کاروائی بھی نہیں کرسکا ہے“۔

رپورٹ میںمزید کہا گیا ہے:’ ہندستانی دفاعی انتظامیہ AFSPAکو کالعدم کرنے یا نظر ثانی کرنے میںمزاحم ہے۔ ہزاروںکشمیری گزشتہ دو دہائیوں میں لاپتہ ہوچکے ہیں، جبری گمشدگی کے مظلومین کی دادرسی میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کی ایک جانچ سے پتہ چلا ہے کہ 38مقامات پر کم از کم 2730 نامعلوم افراد دفن ہیں۔ان میں سے 574کی شناخت ہوگئی ہے جو کہ مقامی کشمیری ہیں۔ لیکن اس سے پہلے سرکاری طور پر یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ان قبروں میں اکثر پاکستانی دراندازدفن ہیں جن کی لاشیں مقامی حکام کے حوالے کی جاتی رہیں۔ لیکن بہت سے کشمیریوں کو یقین ہے ان قبروں میں ان کے گمشدہ عزیز دفن ہیں۔“

افسانہ رشید نے ان بدنصیب معلق نوجوان خواتین کو ’نصف بیوہ‘ (Half Widows) کی اصطلاح دی ہے ،جن کو یہ معلوم نہیںکہ ان کا شوہر زندہ ہے یا ’حفاظتی‘ دستوں کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت ہوچکا۔ تاریخ کے تاریک دور میں، جب سامراجی یا شخصی جابرانہ نظام رائج تھا،مظلوم عوام کو زیر کرنے کے لےے عصمت دری اور قتل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ کیا جمہوریت کے اس دور میں دنیا کی سب سے بڑے جمہوری ملک کی حکومت اورافسرشاہی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے ہی وطن میں اس حربہ سے کام لیں جس سے سامراجی طاقتیں دوسری اقوام کو زیر کرنے کے لیے لیتی رہی ہیں؟(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.