شہید کشمیر مقبول بٹ

مقبول بٹ شہید کے یوم شہادت پر بہت سے لکھنے والوں نے بٹ شہید پر لکھے گئے پچھلے مضامین اپنے کمپیوٹر ز میں محفوظ رکھے ہونگے جنھیں نکال کر تھوڑے بہت اضافے منہائی فقروں کے ساتھ انھیں پھر اخباروں کی زینت بنا دینگے ۔ کچھ ان پڑھ وزیر مشیر اپنے تنخواہ دار سکول ماسٹروں اور لفافہ صحافیوں سے لفاظی سے بھرپور مضامین لکھوا کراخباروں کے حوالے کر کے جمہوریت اور کشمیریت کا حق ادا کرینگے۔ آزادکشمیر میں پریس کانفرنس ہونگی ۔ شاید کچھ سمینار بھی ہوں مگر جلسے جلوس ضرور ہونگے۔ محاز رائے شماری، حریت کانفرنس اور خودمختار کشمیر والے ان جلوسوں کو رونق بخشیں گے۔ جبکہ جماعت اسلامی والے بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔ مجھے خطرہ ہے کہ پیپلز پارٹی والے مقبول بٹ شہید کو بھٹو شہید کا ساتھی نہ کہہ دیں چونکہ چند دن قبل وزیر اعظم پاکستان نے انکشاف کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی بنیاد ہی مسئلہ کشمیر پر رکھی گئی تھی۔ موصوف کتنے بے خبر ہیں ؟ انھیں لاہور میں گنگا طیارے کی تباہی اور پھر محاز رائے شماری والوں پر لاہور قلعے کے عقوبت خانوں میں ہونے والے مظالم یاد نہیں رہے ؟ کہ یہ سب پیپلر پارٹی کی حکومت کے ہی کارنامے تھے۔ دلائی کیمپ ، میانوالی جیل اور اٹک قلعے میں مسئلہ کشمیر کے حامیوں کا جو حشر بھٹو شہید کے دور میں ہوا اس سے خود تحریک آزادی کشمیر کی بنیادیں اکھڑ گئیں جبکہ شملہ سمجھوتے نے مسئلہ کشمیر کی بنیاد ہی ختم کر دی۔ بھٹو شہید کے بعد ضیاالحق نے بھی اس مسئلے کو مسئلہ سمجھا ہی نہیں جبکہ رہی سہی کسر مشرف شاہ صاحب نے نکال دی جس کو مزید توسیع زرداری ٹولہ بخش رہا ہے۔

مقبول بٹ شہید کے متعلق ایک روائتی مضمون لکھنا میرے نزدیک بدیانتی ہے۔ شہید کشمیر مقبول بٹ نہ روائتی لیڈر اور نہ ہی سیاستدان تھا۔ بٹ کی زندگی انوکھی اور اجلی تھی۔ بٹ ایک تناور اور سایہ دار درخت تھا جسکے سائے میں مجاہدوں کی ایک جماعت ہی نہیں بلکہ ایک نسل پل کر جوان ہوئی اور آزادی کی حرمت پر کٹ مری بٹ ایک چشمے کا نام ہے جسکی بوند بوند آب حیات ہے۔ بٹ ایک روح ہے جسنے تحریک آزادی کے بے روح جسم کو جان بخشی اور خود امر ہو گیا۔ بٹ ہوص اور حرص سے متبرک فضاءکا نام ہے جہاں شہیدوں کی روحیں قیام کرتی ہیں بٹ ایک روائت کا نام نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سچ کی روشنائی سے تاریخ میں لکھ دیا گیا ہے۔

بٹ شہید جیسے بے مثال اور غیر روائتی کردار پر لکھنا آسان نہ ہوا تو میں نے کتابوں کا سہارا لیا اور درجن کتابوں کے ورق الٹنے کے بعد کوئی ایک فقرہ بھی بٹ کی زندگی سے مطابقت کرتا نہ ملا انٹرنیٹ پر کل جماعتی حریت کانفرنس ، لبریشن فرنٹ، مسلم کانفرنس پی جبکہ مقبول بٹ کی جگہ امان اللہ اور یٰسین ملک براجمان ہیں۔ آزاد کشمیر کی ساری جیالی کابینہ نے کسی نہ کسی طرح اپنا رشتہ تحریک آزادی سے جوڑ رکھا ہے اور کھانے پینے کے نئے وسائل تلاشنے کے لیے آزادی بزنس کی ڈیلر شپ لے رکھی ہے۔ اور یہ سب اشتہارات انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

میڈیا میں امن کی آشا کا بھوت سوار ہے اور پاکستان میں جمہوری حکومت ہر حال میں بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ وزیر تجارت اور وزیر دفاع کو تجارت کا بخار ہے جس کی دوا صرف بھارت اور امریکہ کے پاس ہے ۔ کشمیر کمیٹی کے چئیر مین مولانا فضل الرحمان ہیں جن کی آنکھوں پر تناظرات کا چشمہ ہے۔ وہ ہر مسئلے کو تدبیراتی نہیں بلکہ تناظراتی آنکھ سے دیکھتے ہیں جس میں مفادات کو اولیت دی جاتی ہے ۔ مولانا نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ بھارت سے تجارت کو مسئلہ کشمیر سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت میں بہت لوگوں کو ان کی کوالیفیکیشن کے بر عکس عہدے دیے گئے ہیں جس بنا پر ادارے تباہ ہو رہے ہیں دیکھا جائے تو اس میں حقیقت بھی ہے ، مولانا فضل الرحمان کا کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے سوائے فنڈز کے ؟ انھیں افغان تجارت کمیٹی کا سربراہ ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ وزیر دفاع کیلیے تجارت کا محکمہ موزوں ہے چونکہ وہ ایک صنعت کار اور تاجر ہیں۔ ان کی سروس انڈسٹری فوجی جوانوں کے بوٹ بھی بناتی ہے شائد اسی بنا پر انھیں وزیر دفاع بنا دیا گیاہے۔ ہمارے وزیر تجارت ایک مخدوم ہیں اور بنیادی طور پر وہ ایک روحانی سلسلے اور جماعت کے سربراہ ہیں جن کے لیے موزوں ترین محکمہ حج اور اوقاف کا تھا۔ مگر انھیں تجارت کا قلمدان دیکر حکومت نے پریشان کر رکھا ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بھی بھارت اور امریکہ کی چال ہے اگر موزوں ترین لوگ محکموں اور اداروں کے سربراہ ہوتے تو بھارت من مانیاں نہ کرتا۔ اور مسئلہ کشمیر سرد خانے کی نذر نہ ہوتا نہ پاکستانی میڈیا بھارتی اشتہاروں، ایکٹروں اور دانشوروں کی یلغار ہوتی اور نہ ہی ہندو کلچر اور رسومات کو پاکستانیوں پر مسلط کرنے کی کاوش ہوتیں۔ اسی سلسے کی کڑی کچھ ٹی وی چینلز پر ستارہ و ہلال کے ساتھ ترنگا لہراناہے۔ تا کہ پاکستانی عوام ترنگے کی اہمیت اور قوت سے واقف ہو جائیں۔ کتابوں اور انٹرنیٹ سے مایوس ہو کر میں نے سوچا کہ شہید کشمیر کی زندگی اور شہادت پر لکھنے والوں کی کیا کمی ہے۔ بہت سے روائتی اور سرکاری لکھاڑی حسب دستور لکھیں اور بولیں گے تو اگر میں نے نہ بھی لکھا تو کیا فرق پڑے گا ؟ آخر میں مقبول بٹ کے متعلق کچھ ایسا کیوں لکھوں جو مبنی بر حقیقت ہو۔ اگر ایسا لکھوں بھی تو اسکا فائدہ کیا ہو گا، اسے کون پڑھے گا اور کس پر اسکا اثر ہو گا۔ آزاد کشمیر اور پاکستان میں سیاسی اور حکومتی نظام پر برادریاں ، فرقے ، مفاد پرست عناصر اور خاندان حاوی ہیں۔ برادری ازم کو جمہوریت اور خاندانی سیاست کا نام دیا گیا ہے اور عوام کو رعایا سمجھا جاتا ہے۔ ایسے خاندان ، برادریاں، فرقے اور مفاد پرست پریشر گروب جن کے مفادات بھارت سمیت ساری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں کسی نہ کسی صورت میں حکمران بھی ہیں تو ان کی حکمرانی کے شکنجے میں جکڑی رعایا کی کیا اہمیت ہے۔

آزادی کے بیس کیمپ آذاد کشمیر کا نظام سیاست و حکومت در حقیقت نظام تجارت و خدمت ہے۔ وہ لوگ جو سیاست کے کاروبار سے منسلک ہیں ان کے بڑے ڈیلر اسلام آباد میں بیٹھ کر آزاد کشمیر کی حکومت کی بولی دیتے ہیں اورجو برادری زیادہ مال لگاتی ہے اسے حکومت سونپ کر جمہوری حکومت ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے۔ جب جمہوریت تجارت اور سیاست آقاؤں کی خدمت بن جائے تو مقبول بٹ جیسے کرداروں کی بات مذاق بن جاتی ہے۔ مقبول بٹ کا سب سے بڑا قصور یہی تھا کہ انھوں نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی ساری آفرز ٹھکرا دیں جس میں تا حیات آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی گورنری سے لیکر کسی بھی ملک میں سفارت کاری اور دیگر مراعات شامل تھی۔ مقبول بٹ نے بھٹو کی صرف ایک آفر قبول کی اور مقبوضہ کشمیر جا کر تحریک آزادی کو دوبارہ متحرک کرنے کی ٹھان لی جسے اب کسی پاکستانی اور بھارتی لیڈر اور آزادکشمیر کے سیاسی ڈیلر کے لیے روکنا ممکن نہیں رہا۔

میں سوچ رہا تھا کہ مقبول بٹ کے فکر و فلسفہ پر لکھنے کے بجائے کیوں نہ آزادکشمیر کے کسی چوہدری اور پنجاب کے کسی بٹ کا قصیدہ لکھوں ؟ مگر پھر خیال آیا کی میں نہ تو بٹ ہواور نہ ہی جٹ آجکل پنجاب میں بٹوں اور آزاد کشمیر میں جٹوں کی حکمرانی ہے۔ اگر بٹ ہوتا تو پنجاب میں اچھی نوکری مل جاتی اور جٹ ہوتا تو کوٹلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، زکٰوة کمیٹی یا پھر میونسپلٹی کا چئیر مین ہوتا۔ ایم ڈی اے میں میرے پاس برا عہدہ ہوتا اور اب تک میں دس بارہ پلاٹ ہضم کر چکا ہوتا۔ اسلام آباد میں ایک کوٹھی اور لینڈ کروزر گاڑی ہوتی اور رعایا میرے گھر کے سامنے لائنیں لگا کر بیٹھی ہوتی۔

ابھی میں اسی سوچ میں تھا کہ من کی وادی میں آواز آئی اے کاش تو ایک اچھا انسان ہوتا؟ کیوں ، میں اچھا انسان نہیں ہوں ؟ میں نے خود کو جواب دیا۔ پھر آواز آئی قرآن پڑھو، میں نے کہا ۔ من بولا قارون کا واقعہ پڑھو۔ میں نے اٹھ کر قرآن کھولا تو لکھا تھا کہ قارون کے خزانے اور عیش و آرام دیکھ کر لوگ کہتے خواہش کرتے تھے کہ اے کاش ہم بھی قارون کی طرح ہوتے ہمارے پاس وسیع باغ اور ذرخیز زمینیں ہوتیں۔ غلاموں اور کنیزوں کے غول اردگرد خدمت کی لیے منڈلاتے ، لوگ ہمارے قصیدے لکھتے اور پڑھتے، ہمارے محل اور مکان ہوتے، سورایوں کے لیے عمدہ گھوڑے اور آرام دہ کشتیاں ہوتیں۔ ہم قارون کی طرح عیش کرتے۔ پھر رب کے بندے نے قارون کو مخاطب ہو کر کہا اے نفس کے غلام اللہ نے تجھے کیا کچھ نہیں دیا مگر تم متکبر اور نا شکرے ہو۔ تم اپنے مال سے رب کو حصہ نکالو اور اس کی راہ میں خرچ کرو۔ قارون نے تکبر کیا اور بولا اس میں رب کا کوئی کمال نہیں یہ میری محنت کا صلہ ہے۔ یہ سب میری کمائی ہے۔ اس پر صرف میرا حق ہے پھر رب کا عذاب نازل ہوا اور زمین دہنسنے لگی قارون کی ریاست ، حکومت، باغ، محل سب غرقاب ہونے لگے تو وہ لوگ جو اس کے مال کو دیکھ کر کاش کہتے تھے اب ان لوگوں نے کہا اچھا ہوا ہم قارون کی طرح نہ تھے ورنہ ہم بھی غرق ہو جاتے۔

اس سے پہلے کہ من کی وادی سے کوئی آواز آتی میں من کی بات سمجھ گیا ، بٹ نے حکمرانی ٹھکرائی اور شہادت پائی۔ اس نے اسلام آباد میں ایک بڑی کوٹھے میں رہنا ٹھکرا دیا اور تہاڑ جیل کی کال کوٹھڑی میں رہا۔ اس نے بھارتی حکمرانوں کی آفرز بھی ٹھکرا دی اور عزت و آزادی کا پرچم تھامے رکھا۔ اس کی بیگمات اور بچے کسمپرسی کی حالت میں رہے، مگر کسی حکمران سردار اور چوہدری کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو جس نے ٹانڈا ڈیم ریسٹ ہاؤس کوہاٹ میں طویل مزاکرات کے دوران شہید کشمیر کو تحریک آزادی کشمیر سے دستبرداری پر قائل کرنے کی کوشش کی اور پھر ناکامی پر اسے سرینگر جا کر تحریک کو منظم کرنے کا جھانسہ دیا یکسر مقبول بٹ اور اس کے خاندان کو بھول گیا ۔ کسی مجاہد اول اور آخر نے مقبول بٹ بے آسرا خاندان کی خبر نہ لی۔

وہ سب مادی فوائد جو مقبول بٹ ٹھکرا کر سرینگر گیا آج اسے سمیٹنے اور تحریک آزادی سے عملاً دستبرداری کیلیے ایک نہیں بلکہ سینکڑوں ڈیلر اور آزادی بزنس کے سوداگر اسلام آباد کے ایوانوں کے سامنے بیٹھے بولی کے منتظر ہیں۔ یہ ڈیلر اور سوداگر اسمبلی ٹکٹ، وزارت اور مشاورت سے لیکر صدارت تک خریدنے اور سارا آزادکشمیر بیچنے کیلیے تیار ہیں۔ یہ جس مہاراجہ کے ظلم و جبر کی کہانیاں سنا کر روٹیاں کھاتے ہیں عملاً اسی کے پیروکار ہیں۔جس طرح ڈوگرے اور سکھ اپنی برادریوں اور رشتہ داروں کو قومی خزانے سے نوازتے تھے آج جیالے اور متوالے ان سے بڑھ کر اقربا پروری کرتے ہیں اور شرماتے بھی نہیں۔ اسمبلیوں کی سیٹیں خاندانوں سے منسوب ہیں اور وزارتیں بولی پر ملتی ہیں کہتے ہیں کہ ایمن آباد کے دیوانوں کے پاس بہت پیسہ تھا۔ ڈوگروں نے جب انگریز سے کشمیر خریدا تو رقم ایم آباد کے دیوانوں سے ادھار لی۔ آج یہی حال آزاد کشمیر کا ہے۔ الیکشن سے پہلے کشمیری ڈیلر برطانیہ اور یورپ کا دورہ کرتے ہیں اور اپنی اپنی برادریوں سے سود پر رقم لیکر الیکشن جیتتے اور پھر سود سمیت اصل زر قومی خزانے سے نکال کر واپس کر دیتے ہیں۔

دیکھا جائے تو آج آزادی کا بیس کیمپ نیلامی کا اڈہ بن چکا ہے۔ آزادکشمیر کی حکومت کے بدلے سیاسی ڈیلروں نے گلگت و بلتستان کا سودا کیا اور ا ب وزیر اعظم آزاد کشمیر نے فرمایا کہ کچھ لوگوں کے پیٹوں میں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا خواہ مخواہ مروڑ پڑ رہا ہے۔ جس ملک کے وزیر اعظم کی یہ حالت ہو وہاں کی کابینہ کی سوچ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ وہ لوگ جو کشمیر ہاوسنگ سوسائٹی کے پلاٹوں کی بندر بانٹ کے اشتہار گلوں میں سجائے گلیوں میں پھر رہے ہوں ان کے آگے شہید کشمیر کے فلسفہ و فکر کی بات کرنا ، بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہے۔ پھر وہ لوگ جو نسل در نسل بھینسیں ہی چوری کرتے اور بیچتے رہے ہوں جب حکمران بن جائیں تو ان کیلیے انسانوں اور حیوانوں میں فرق کرنے کی تمیز نہیں رہتی۔
گل مزن کا گل مزن دیوار بے بنیاد را
خدمت یک سگ نہ ازآدم کمزاد را
آدم کمزاد گر عاقل شود
گردن زدن استاد
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 91148 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.