غربت اور سیاست

غربت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ دونوں کسی حد تک ایک دوسرے کے وجود کے لئے لازم وملزوم بھی ہیں۔ دونوں کی بقاءایک دوسرے کی بقاءہی میں مضمر ہے۔ جب سیاست لاغر ہونے لگتی ہے تو اس کی توانائیاں بحال کرنے کیلئے یار لوگ ”غربت کا معجون“ تجویز کرتے ہیں اور غربت کو ہشاش بشاش، تازہ دم اور توانا رکھنے کیلئے غربت کے ممنون سیاست کار ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور غربت کو دوام بخشتے ہیں اور غربت کیلئے ان کی یہ خدمات اس وقت تیر بہدف ہوتی ہیں جب غربت کے وجود سے کافی فاصلے پر ہوں اورغربت کےلئے دل میں زیادہ سے زیادہ درد رکھنے والے حضرات کا قدرت کے زیادہ سے زیادہ وسائل پر قبضہ ہو، تب غربت پھلتی پھولتی ہے اور پھر اپنی خدمات سیاست کیلئے وقف کر دیتی ہے۔

جب دونوں عناصر ایک دوسر ے کی پیداوار بھی ہوں اور ذمہ دار بھی تو ان کے جد لیاتی تعلق کو سمجھنا کافی حد تک ضرور مشکل ہو جاتا ہے۔ جب غربت کے توسط سے سیاست پھوٹنا شروع کرتی ہے تو سیاست کار(لفظ ” سیاست کار “کا استعمال اس لئے ناگزیر ہوگیا ہے کہ اس کار خیر میں اکیلے سیاستدان کے سر اس کا سہرا نہیں جاتا اور بھی لوگ اس کے مستحق ہیں)غربت کے خاتمے کے عزم کے ساتھ میدان میں اترتا ہے اورمروجہ طور طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جب منزل مقصود پر پہنچتا ہے تو اپنے ”محسن“ کو وہ کبھی نہیں بھولتا اور غربت کی ترویج، تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ دونوں کا جدلیاتی تعلق ایسا ہے جیسا کہ کسی فلم میں ہیرو اورولن کاہوتا ہے جو فلم کی عکس بندی کے بعدکسی ریستوران میں بیٹھ کر کافی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کے ڈائیلاگ اور حرکات وسکنات اورایک دوسرے کے خلاف ظاہر کی گئی نفرت کویاد کر کے ہنستے ہیں اور اگلے کنٹریکٹ پربھی بات کرتے ہیں۔

میں ایک ایسے سیاست کار کو جانتا ہوں جو شروع سے ہی غربت کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے ۔ سنا ہے اوائل عمری میں موصوف ایک جیب تراش کی حیثیت سے اپنے خدمات انجام دیتے رہے۔ بعد میں چھوٹے پیمانے پرغریب کاشتکاروں کو کیڑے مارادویات صرف سو فیصد سود پر بہم پہنچاتے تھے ،جلد ہی یہ کام بڑے پیمانے پر شروع کر دیا اور اس کام میں کافی حد تک جعلی ادویات کے تقسیم کنندگان کی خدمات بھی شامل حال رہے۔ بعد میں سرخ اناری یاقوت کے دانوں کی تسبیح انہیں کہیں سے تحفے میں ملی۔ انہوں نے قریبی مسجد میں بھی باقاعدگی سے آنا جانا شروع کردیا اور اکثر اوقات خوبصورت تسبیح کے دانے خاص ردھم کے ساتھ حرکت میں رہتے۔ ان سماجی اور مذہبی خدمات کے بل بوتے پر وہ مقامی عشروزکوٰة کمیٹی کے دسویں ممبر کے عہدے پر فائض ہوگئے۔ ایسے میں انہوں نے چند ہم نوا بھی ڈھونڈ لئے جو بلاناغہ اس کی دکان بلکہ آڑھت پر جاتے اور ازراہ مروت چائے نوش کرنے کے بعد مذکورہ سیاست کار کی مقامی زکوٰة کمیٹی اور مقامی یونین کونسل کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی گفتگو سنتے اور اس کی ذہانت ،علمیت اور خیر سگالی کے جذبات کی داد دے کر چلے جاتے اور گھر جا کر اپنی اپنی بیگمات سے حرف بہ حرف روایت کردیتے۔

اگلے بلدیاتی الیکشن میں موصوف کا نام ایک کونسلر کے حمایت کنندگان میں سرفہرست تھا جوہارنے والوں میں سب سے آگے تھا۔ ایسے میں موصوف کا کاروبار بھی کافی پھلا پھولا، آڑھت کیلئے جگہ بھی خرید لی، دکانوں اور چوبارے کی تکمیل بھی مکمل ہوگئی اور ساتھ ہی انہوں نے عالی شان سے کچھ کم درجے کی اپنی کوٹھی بھی تعمیر کر لی اور اس کے اوپر بڑے خوبصورت الفاظ میں ”ہذا من فضل ربی“بھی لکھوایا۔ اگلی سردیوں میں جب وہ ”ریکوری“ کیلئے دور دیہاتوں میں جاتے تو موٹر بائیک پر انہیں سردی لگتی تھی انہوں نے سوچا کہ اللہ نے دیا ہے تو کیوں نہ گاڑی بھی لے لی جائے اور وہ گاڑی میں صبح نکلتے وقت تلاوت کی کیسٹ چلا دیتے کہ اس میں دین ودنیا کی بھلائی ہے۔ کاروبار میں بھی ترقی ہوگئی اور آخرت میں اجر بھی ملے گا۔ مگر اس کے مقروض لوگ کاروبار کے معاملے میں اتنے بدیانت تھے کہ صرف سو فیصد سود پر ان کو کرم کش ادویات ملتی تھیں اور وہ اس کی گاڑی کو آتا دیکھ کر پتا نہیں کیوں کہیں چھپ جاتے تھے۔

اگلے سال انہوں نے فریضہ حج کی ادائیگی کی بھی سعادت حاصل کر لی۔ سفر حجاز سے واپسی پر ایک بڑی دعوت عام کا اہتمام کیا ۔ جس میں کاروباری شخصیات کے ساتھ ساتھ صوبائی اور قومی اسمبلی میں جانے کے خواہش مندحضرات کو بھی مدعو کیا گیا۔ عوام الناس سے خطاب کیلئے سب سے پہلے ایک مذہبی شخصیت کو دعوت دی گئی جنہوں نے پہلے تو مذکورہ سیاست کار پر اللہ عزوجل کی رحمتیں اور مہربانیاں گنوائیں، بعد میں موصوف کو نیک، صالح، مخّیر اور غریب پرور ثابت کرنے کیلے کئی مثالیں پیش کیں اور اپنے دلائل کی تائید کے لئے کئی کتابوں کے حوالے بھی دیئے۔ بعد میں ایک اسمبلی جانے کے خواہش مند کو بولنے کی زحمت دی گئی جو نہایت انکساری سے عوام الناس کے سامنے تشریف لائے اپنی ایک تولہ سونے کی انگوٹھی سے کھیلتے ہوئے یہ قیمتی رائے دی کہ غریب عوام کے مسائل کے پائیدار حل کیلئے ”حاجی صاحب“ جیسے نڈر، بے باک، تعلیم یافتہ، باکردار، مخیر، غریبوں کی ہمدرد اور بے خوف قیادت کا میدان سیاست میں آنا ناگزیر ہے۔ ”حاجی صاحب“ کے ایک قریبی ہم نوا نے کھڑے ہو کر خود بھی زورزور سے تالیاں بجائیں اور عوام الناس کو بھی یہ عمل کرنے پر اکسایا۔

حاجی صاحب کے اکثر نادہندگان کے دل واپسی پر نرم ہوچکے تھے اور وہ اپنی بیٹیوں کے زیورتک بیچ کر بھی اس کاقرض چکانے کا تہیہ کر چکے تھے۔ اگلے الیکشن میں موصوف واضح اکثریت سے یونین کونسل کے چیئر مین منتخب ہوگئے اور خوب عوام کی خدمت کی۔ وہ دن رات سماجی فلاح وبہبود میں مصروف رہے پھربھی ان کے کاروبار میں بے پناہ وسعت آئی۔

پچھلے دنوں میں وہ تحصیل ناظم کی سیٹ کیلئے انتخابی مہم پر تھے کہ تھوڑی دیرکے لئے ان کے ایک سیاسی جلسے میں شرکت کا مجھے بھی شرف حاصل ہوا۔ وہاں شہر کی ایک معروف شخصیت کو میزبانی کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے دیکھا بقول اس شخصیت کے کہ وہ بہت بڑے ادیب ہیں اور ادبی حلقوں کا جانا مانا نام ہیں اور کوئی بھی ادبی محفل ان کے بغیر ادھوری متصور ہوتی ہے۔ شاعری نہیں کرتے بلکہ شاعر حضرات کیلئے ایک ناقد کا درجہ رکھتے ہیں۔ عموماً وہ ادیبوں والی زبان استعمال کرتے ہیں اور ادیبوں کے کئی ایسے الفاظوں سے انہوں نے اپنی ایک جناتی زبان تخلیق کی ہوئی ہے جس کے مطالب ومعانی کا خود ان کو بھی علم نہیں ہوتا۔ ہر اس ادبی ،سیاسی اور مذہبی تقریب میں بولنا وہ اپنا فرض اولین اور استحقاق سمجھتے ہیں جہاں مائیک استعمال ہورہا ہو۔اولذ کر آڑھتی سیاست دان کے سیاسی جلسے میں موخدالذکر ادیب مائیک سنبھال کر بولنا شروع ہوگئے۔

”تمام سامعین ،ناضرین،حاضرین وغائبین،معززمہمان وشورشرابہ کنندگان ، بندہ ناچیز ،حقیر بے تقصیر کا سلام“

آج آپ جس سیاسی و ستیاناسی اکٹھ میں لائے گئے ہیں اس کو بے فضول مت سمجھئے، آج اس سٹیج پرہمارے رہزن ورہنما سیاستدان جلوہ افروز ہیں اور بطور خاص الحاج فلاں صاحب ذلت پارٹی کے روحِ رواں اور انشاءاللہ خواہش مند تحصیل نظامت ،اپنا روح فرسا خطاب فرمائیں گے۔

حاضرین وغائبین الحاج فلاں صاحب جیسی نابغہءروزگار ونا ہنجار ہستیاں کبھی کبھی جنم لیتی ہیں۔ الحاج انتہائی ذہین اور فاتر العقل ہیں، اور سامراج کے دکھ درد سے بخوبی آگاہ ہیں اورسامراج کیلئے ان کی خدمات ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔آج وہ شو مئی قسمت ہمارے درمیان موجود ہیں اور آپ کی سماع خراشی کیلئے خطاب کریں گے اورایسے میں منتظمین جلسہ میں سے ایک شخص نے پہلے تو اس کو قریب آکر انگلی سے ٹہو کہ دیا بعد میں باضابطہ طورپر کالر سے پکڑ کر پیچھے گھسیٹا اور سٹیج سے بے دخل کر دیا۔

تھوڑی دیر بعد بے دخل شدہ میزبان کے بقول نابغہءروز گار اور ناہنجار سیاست دان صاحب ڈائس پر تشریف لائے، اپنی ماضی کی خدمات کا تذکرہ کیا ،آئندہ کیلئے اپنی خدمات غربت وسیاست کیلئے وقف کر نے کے عزم کا اظہار کیا اور بجوائی گئی تالیوں کی گونج میں اپنی جگہ پرجا بیٹھے۔

الحاج فلاں صاحب اب کی بار تحصیل ناظم تو نہیں بن سکے البتہ اب بھی وہ صبح صبح گاڑی لے کر مبینہ مقروض لوگوں کی تلاش میں نکلتے ہوئے تلاوت کی کیسٹ ضرور چلاتے ہیں اوریاقوت کے دانوں کی تسبیح کار کے اندر لگے بیک مررمیں جھولتی رہتی ہے۔ اب مقروض لوگ اس سے زیادہ دیرکیلئے چھپے نہیں رہ سکتے اوردھر لیئے جاتے ہیں۔ جن کے گھر میں زیور ابھی تک باقی ہیں تو وہ اونے پونے بیچ کر گلو خلاصی کر اتے ہیں ،وہ جن کے پاس کچھ نہیں ہوتاوہ مناسب بے عزت ہونے کے بعد الحاج فلاں صاحب کے کسی ہم نوا کی ضمانت پر کچھ عرصہ بعد ادائیگی کے وعدے کے ساتھ جب اپنے مسائل بھرے گھر کے آنگن میں قدم رکھتے ہیں،مفلوک الحال بچوں کے سوکھے چہروں اور سوال کرتی نظروں کا سامنا کرتے ہیں تو خود اپنی نظروں میں بے توقیر ہو جاتے ہیں۔ مگر آڑھتی سیاستدان خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ خاصے پرعزم ہیں ان کا کاروبار بھی بہت وسیع ہو چکا ہے جبکہ کیڑے مار ادویات صرف پچیس فیصد اضافے کے ساتھ ایک سو پچیس فیصد سود کے ساتھ کسان بھائیوں کو فراہم کرر ہے ہیں۔ سیاست اور غربت کیلئے ان کی یہ کاوشیں ضرور رنگ لائیں گی۔ ان کی عوام میں بڑھتی ہو ئی مقبولیت سے خائف سیاسی مخالفین کچھ بھی کہتے رہیں۔
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را
Yasir Arafat
About the Author: Yasir Arafat Read More Articles by Yasir Arafat: 15 Articles with 12338 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.