میڈیا کے شور و غوغہ نے ہر چیز
کو غیر واضح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میڈیا دہائی دے رہا تھا کہ 19
جنوری پی پی پی کی حکومت کا آخری دن ہو گا اورو زیرِ اعظم سید یوسف رضا
گیلانی اس دن توہینِ عدالت کی شمشیرِ برہنہ سے گھائل کر دئے جائیں گئے۔
لیکن الٹی ہوگئیں سب تدبیریں دل نے کچھ نہ کام کیا کے مصداق سب کچھ میڈیا
کی خوا ہشوں کے برعکس ہو گیا جس کا ا نھیں سخت ملال ہے۔ و زیرِ اعظم سید
یوسف رضا گیلانی کمرہ ِ عدلت میں حاضر ہوئے عدلیہ کے سامنے خمیدہ سر ہو کر
اسکے احترام کا نادر نمونہ پیش کیا اور عدلیہ کےلئے اپنی آئینی کوششوں کا
بڑے دل پذیر انداز میں ذکر کیا جسے عدالتِ عظمی نے بہت سراہا۔ و زیرِ اعظم
سید یوسف رضا گیلانی کمرہ ِ عدالت سے باہر آئے تو وزیرِ اعظم پاکستان کی
حیثیت سے باہر آئے ، عدالت میں اپنی حاضری کے استثناءکا پروانہ بھی انکے
ہاتھ میں تھا اور عدالتِ عظمی سے تعریف و توصیف کی سند اسکے علاوہ تھی جب
کہ میڈیا ن کی برطرفی کی ہوائیاں چھوڑ رہا تھا ۔ عدالتِ عظمی کےلئے ضروری
تھا کہ و زیرِ اعظم کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کرتی اور عدالتِ عظمی نے
ایسا ہی کیا۔ یہ ایک قابلِ فخر لمحہ تھا کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کا
نمائندہ عدالت کے روبرو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کےلئے حاضر ہو اتھا اور یہ
کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔عدلیہ کی تاریخ میں ایسے تاریخی لمحات کبھی کبھی
آیا کرتے ہیں جب ملک کا چیف ا گزیکیٹو خود چل کر عدالت میں حاضر ہو جائے
اور عدلیہ سے اپنے مقدر کے بارے میں فیصلہ طلب کرے۔حاسدین کی حالت دیدنی
تھی وہ تو اپنی حسد کی آگ میں جل رہے تھے اور اپنی خفت ، پشیمانی اور عداوت
میں اپنی انگلیاں کاٹ رہے تھے۔ وہ تو اس امید پر عدالت آئے تھے کہ آج و زیرِ
اعظم سید یوسف رضا گیلانی توہینِ عدالت کی شمشیرِ برہنہ سے گھائل کر دئے
جائینگے ،پی پی پی کی قائم کردہ حکومت کا محل خود بخود ہی زمیں بوس ہو
جائےگا اور یوں گیلانی خاندان کا صدیوں کا عوامی خد مت کا سفر اپنے عبرت
ناک انجام سے دوچار ہو جائےگا۔ کیسا خواب تھا اور کیسی تعبیر سامنے آئی تھی۔
جسے مارنے کی آرزو لئے عدالت میں حاضر ہوئے تھے وہ تو اور بھی توانا ہو کر
عدالت کے کمرے سے باہر آیا تھا اور ایسا اسکے عمل کی بدولت ممکن ہو ا تھا
لہذا حاسدین کا جل جانا یقینی تھا اور ایسا ہی ہوا۔ حاسدین ابھی تک اس صدمے
کی حالت میں ہیں کہ و زیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی توہینِ عدالت کے وار
سے کیسے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کیونکہ انکی نظر میں و زیرِ اعظم
کی ہلاکت یقینی تھی۔ معمول کی کاروائی کے بعد عدالت نے دو فروری کی نئی
تاریخ مقرر کی۔ دو فروری کو بیر سٹر چوہدری اعتزاز احسن نے مقدمے پر اپنے
دلائل دئے لیکن عدالت ٹس سے مس نہ ہو ئی اور و زیرِ اعظم سید یوسف رضا
گیلانی کو توہینِ عدالت کا ملزم نامزد کر کے انھیں 13 فروری کو عدالت میں
حاضر ہو نے کا حکم صادر کر دیا ۔ دو فروری کے فیصلے کے خلافبیر سٹر چوہدری
اعتزاز احسن نے انٹرا کورٹ اپیل بھی کی جسے عدالت نے خارج کر کے اپنے ود
فروری کے فیصلے کو برقرار رکھا اب توہین عد الت کی چارج شیٹ 13 فروری کو
پڑھ کر سنائی جائیگی اور پھر پتہ چلے گا کہ اونٹ کس کرو ٹ بیٹھتا ہے اور و
زیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے مقدر میں کیا آتا ہے۔
19 جنوری کو وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے عدالت میں مختصر خطا ب بھی
کیا تھا اور آئین و قانون سے اپنی بے پناہ محبت کا ذکر بھی کیا تھا ۔انھوں
نے کہا تھا کہ پی پی پی 1973 کے آئین کی خالق جماعت ہے۔ طالع آزماﺅں کے شب
خونوں نے آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیاتھا لیکن تین عشروں کی جدو جہد کے
بعد ایک دفعہ پھر پی پی پی کو ہی 1973 کے اصلی آئین کی بحالی کا اعزاز حاصل
ہوا ہے جو آئین سے ہماری کمٹمنٹ کا غماز ہے۔ پی پی پی کے بانی چیر مین
ذولفقار علی بھٹو شہید ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ، بیگم نصرت بھٹو اور
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے عدالتوں کا سامنا کیا اور عدالتوں کے
احکامات پر عمل پیرا رہے لہذا پی پی پی توہینِ عدالت کا تصور بھی نہیں کر
سکتی۔ ذولفقار علی بھٹو شہید کو سپریم کورٹ نے ایک جھوٹے مقدمے میں سزائے
موت سنائی لیکن پی پی پی نے پھر بھی اس کو تسلیم کیا۔ پوری دنیا اس سزا کو
عدالتی قتل سے موسوم کرتی ہے لیکن پی پی پی نے پھر بھی عدلیہ کے خلاف کسی
معاندانہ کاروائی کا آغاز نہیں کیا اور نہ ہی اس پر چڑھا ئی کی ۔ دنیاکے
کئی ممالک ذولفقار علی بھٹو کو اپنے ہاں پناہ دینے کےلئے تیار تھے لیکن
ذولفقار علی بھٹو نے اپنے ملک میں رہ کر سزا کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا
اور سپریم کورٹ کے حکم پر سرِ دار جھول گئے ۔ آئین و قانون سے ذوالفقار علی
بھٹو کی اسی بے پناہ محبت نے انھیں ایک یسے قائد کا مقام عطا کر دیا جو آج
بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ مجھے خود سپریم کورٹ سے پانچ سال کی سزا
ہوئی جسے میں نے آئین و قانون سے اپنی محبت کی بدولت بڑی خو ش دلی سے کاٹا۔
میں نے جیل کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن کسی بھی مرحلے پر
قانون کی عملداری سے بغاوت نہیں کی ۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے اپنی
زندگی کے ساڑھے گیارہ سال زندانوں کی بے رحم ساعتوں کے حوالے کئے لیکن کبھی
بھی ا ن کی جبین پر کو ئی شکن پیدا نہیں ہوئی کیونکہ آئین و قانون کا
احترام ہم سب کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے جسے ہم خود سے کبھی بھی جدا نہیں کر
سکتے۔آئین سے محبت اور اس کا احترام پہلی ذمہ داری ہے جسے ہم نے ہر حال میں
پورا کرنا ہے۔ یہ آئین ہی تو ہے جس نے مجھے اس ملک کا چیف ایگزیکیٹو بنا یا
ہے لہٰذا آئین سے روگردانی کا سوچنا میرے لئے کسی گناہ سے کم نہیں ہے اور
میں ذاتی طور پر گناہوں سے پر ھیز کرنے والا انسان ہوں۔
وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ آئین سب سے بالا دست اور مقدس
دستاویز ہے اور ہم سب کو آئین کی بالا دستی کو یقینی بنا نا ہے۔ ملک کے
سارے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی اصل روح کے مطابق اس کے اطلاق کو
یقینی بنائیں ۔ اسی سوچ کے پیشِ نظر میں نے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا
کیونکہ آئین کا آرٹیکل 248 صدرِ پاکستان کو استثناءعطا کرتا ہے ۔ سوئیس
حکام کو خط نہ لکھنا توہینِ عدالت نہیں ہے کیونکہ آئین کی بالادستی کو
یقینی بنا نا توہینِ عدالت نہیں ہو تی۔ ہاں جب آصف علی زرداری صدرِ پاکستان
نہیں رہیں گے اور عدالت مجھے سوئیس عدالتوں کو خط لکھنے کا حکم صادر فرمائے
گی تو میں ایک لمحے کی پس و پیش کے بغیر یہ خط لکھ دوں گا کیونکہ اس وقت
آئین کا آرٹیکل 248 میری راہ میں رکاوٹ نہیں ہو گا لیکن جب تک آصف علی
زرداری صدرِ پاکستان ہیں مجھے آئینِ پاکستان خط لکھنے کی اجازت نہیں دے
رہا۔کیونکہ وزیرِ اعظم پاکستان ہو نے کی حیثیت سے آئین کی حفاظت کی ذمہ
داری میرے شانوں پر بھی ہے اور مجھے اس ذمہ داری سے ہر حال میں عہدہ براءہو
نا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اسی آئین کے تقدس کی خاطر اپنی جان کا
نذرانہ پیش کیا تھا۔ اگر وہ اس وقت جنرل ضیا الحق کے آمرانہ شب خون کو جائز
سمجھ کر اس کے سامنے جھک جاتے تو پھر پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل تاریک
ہو جاتا ۔ آئین کے تقدس کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ڈٹ جانے کی عظیم
روائیت کا آج میں امین ہو ں لہذا مجھے بھی آئین کی پاسداری کا ہر حال میں
علم بلند رکھنا ہے اور سوئس حکام کو خط نہ لکھنا اسی علم برداری کا اظہار
ہے جسے توہینِ عدالت نہیں کہا جا سکتا۔خط نہ لکھنے میں توہینِ عدالت کا
کہیں بھی کوئی احساس،شائبہ اور تصور نہیں ہے ۔۔
میڈیا جسطرح لوگوں کو مس گائڈ کر رہا ہے اسے اس سے پرھیز کرنی چا ئیے ۔یہ
سچ ہے کہ این آر او کا فیصلہ دسمبر 2009 میں سنایا گیا تھا لیکن یہ بھی تو
سچ ہے کہ متاثرہ فریق ہر فیصلے پر نظر ثانی پٹیشن داخل کرنے کا حق بھی
رکھتا تھا اور وفاقی حکومت نے وہ حق استعمال کیا۔ نظر ثانی پٹیشن میں کافی
عرصہ لگ گیا اور فائنل فیصلہ آئے ہوئے ابھی چند دن ہوئے تھے جس کے بعد
سپریم کورٹ نے فیصلے پر عمل درآمد کےلئے گیارہ جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی
تھی لیکن حکومت کے عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں سات ججز کا نیا بنچ بنا
کر 19 جنوری کی تاریخ مقرر کر دی گئی جس میں و زیرِ اعظم سید یوسف رضا
گیلانی کو توہینِ عدالت کے الزام میں خود پیش ہونے کا حکم صادر کیا گیا تھا
لہذا یہ کہنا کی پچھلے دو سالوں میں این آر او کے فیصلے پر عملدر آمد نہیں
ہو رہا بالکل جھوٹ ہے۔سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے بہت سے وکلاءحضرات سچ کا
اظہار کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ قانون کے محافظ ہی اگر غلط بیانی سے کام
لیں گئے اور حقا ئق کو توڑ مروڑ کر پیش کریں گئے تو عوام کنفیوز ہو جائیں
گئے ۔ قانونی ماہرین کو عوام کو بتا نا ہو گا کہ دیوانی اور فوجداری مقدمات
میں زمین و آسمان کا فرق ہو تا ہے لہذا ان پر ایک طرح کے قوانین کا اطلااق
نہیں ہو تا ۔ آئینِ پاکستان صدرِ پاکستان کو فوجداری مقدمات میں استثنی عطا
کرتاہے جس کی پابندی کرنا عدالتِ عظمی پر فرض ہے۔ اب اگر عدالت ہی آئین کی
تشریح ذاتی پسند و ناپسند کے پیشِ نظر کرنا شروع کر دے گی تو پھر آئین کے
تقدس کی حفاطت کےلئے فر شتے آسمان سے اتریں گئے۔2008 میں جنرل پرویزمشرف کے
استثنی پر جو بحث سپریم کورٹ میں ہو ئی تھی اور جس میں بیر سٹر چوہدری
اعتزاز احسن نے بھر پور دلائل دئے تھے وہ دیوانی مقدمات کے حوا لے سے تھے
لیکن اس وقت معاملہ دیوا نی نہیں بلکہ فوجداری ہے جس میں آئین صدرِ پاکستان
کو استثنی عطا کرتا ہے۔ ساری دنیا میں صدور کو استثنی حاصل ہے اور یہی
قانون پاکستان میں بھی لاگو ہے لیکن پی پی پی دشمنی میں کچھ حلقوں کی جانب
سے اس قانون کو متنا زع بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تا کہ پی پی پی کی
حکومت کے خا تمے کےلئے عدالتوں کے کندھوں کو استعمال کیا جا سکے۔عدالتیں
اگر سیاسی تنازعات میں خود کو الجھا لیں گی تو ان کی غیر جانبداری پر حرف
آنے کا اندیشہ ہے لہذا عدالتوں کو سیاسی وکٹوں پر کھیلنے سے اجتناب کر نا
چاہیے کیونکہ وہ ججز جو سیاسی بنیادوں پر فیصلے صادر کرتے ہیں عبرت کی
علامت بن جاتے ہیں جس کی واضح مثال مولوی مشتاق اور انوارا لحق ہیں ۔ اگر
کسی کو استثنی کا قانون پسند نہیں ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ آئین میں ترمیم
کر کے استثناءکے قانون کو بدل ڈالیں لیکن آئینی استثناءکی موجودگی میں پی
پی پی کو قربانی کا بکرا بنا کر عدالتوں کو متنازع بنانے سے گریز کیا جانا
ضروری ہے۔۔۔۔ |