سمندری آلودگی، آبی حیات کی اموات کا باعث

دنیا بھر میں آلودگی کے باعث انسانی اموات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ انسان خود ہی اپنے ماحول کو آلودہ کر کے مرنے کا بندوبست کر رہا ہے، سب کچھ جانتے ہوئے بھی احتیاط نہیں کرتا۔ درختوں کی کٹائی، کوڑے کا ڈھیر، فیکٹریز، گاڑیوں و بسوں کا دھواں، سمندروں نہروں اور ندی نالوں میں فیکٹریز کے گندے پانی کا بہاﺅ یہ سب انسان خود ہی کر رہا ہے۔درختوں کا کٹاﺅ کر کے انسان خود آکسیجن کی کمی کر رہا ہے۔ دنیا میں روزانہ کروڑوں کی تعداد میں درختوں کا صفایا کر دیا جاتا ہے۔ آخر کیوں ہم آلودگی پھیلا رہے ہیں کیا ہمیں اپنی زندگی پیاری نہیں؟

آلودگی دنیا میں رہنے والی اقوام کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے آلودہ ماحول انسان کی زندگی کے لئے خطرہ ہے، اس سے نجات انتہائی ضروری ہے۔ انسان آلودہ ماحول میں سانس لے کر اپنے جسم میں بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔دنیا میں ماحولیاتی آلودگی میں انتہائی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس پر قابو پانا نہ صرف انسان بلکہ زمینی و آبی جانوروں کی زندگیوں کے لئے بھی ضروری ہے۔

سمندروں میں آلودگی کے باعث آبی حیات تیزی سے مر رہی ہیں، متعدد اقسام ناپید ہو گئی ہیں۔ سمندروں میں بہایا جانے والا پلاسٹک جانور خود اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں جس سے ان کی اموات ہو جاتی ہیں۔ ہر سال کئی سو بحری پرندے، مچھلیاں اور کچھوے پلاسٹک کھانے سے مر جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 43 فی صد بحری جانوروں، 86 فی صد سمندری کچھووں اور 44 فی صد سمندری پرندوں کے پیٹ میں پلاسٹک پایا جاتاہے یا ان کے گرد لپٹاہوتا ہے۔ عالمی سطح پر سمندروں میں پلاسٹک کی ردی کے پھیلاو اور آبی حیات اور انسانوں پر بحری آلودگی کے منفی اثرات کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

پاکستان کا ساحل سمندر 1050 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان ہر سال سمندری سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں اور سمندروں، جھیلوں و دریاؤں سے مچھلیاں پکڑ کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ مگر اب اس میں تیزی سے کمی آ رہی ہے جس کی وجہ آبی آلودگی ہے۔ پاکستان کے سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ کراچی میں مچھیروں کی جانب سے ڈالی جانے والی مردہ مچھلیاں، جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیر ٹریٹمنٹ کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلہ ہیں۔

ماہرین کے مطابق سمندری و نہری آلودگی کے باعث ملک میں کھکا اور بچھوال نسل کی مچھلیاں نایاب ہو گئی ہیں۔ دریاﺅں میں گندے پانی کی خطیر مقدار موجود ہونے کی وجہ سے یہ اقسام تیزی سے مر رہی ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مچھلیوں کی نسلوں کو بچانے اور ان کی برورش کے لئے فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی جبکہ نہری و سمندری آلودگی کو روکنے کے لئے قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میںدریائے سندھ سے 25 سے 30 نایاب ڈولفن مردہ حالت میں ملی ہیں۔ یہ ڈولفنز روہڑی کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے سے محکمہ وائلڈ لائف کو ملیں۔ اس کے علاوہ کچھ ہی عرصہ پہلے کراچی کے ساحل پرویل مچھلی اور دیگر سمندری جانوروں کا مردہ حالت میں پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں سمندری صورتحال کتنی آلودہ ہے اور سمندری جانوروں پر آلودگی کے باعث کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے جنوبی صوبے کے بڑے علاقے سمندری پانی سے پہلے ہی تباہ ہو چکے ہیں جو کہ دریائے سندھ کے طاس میں پانی کے بالائی بہاؤ میں 57 کلومیٹر تک آگے آ چکا ہے۔ سمندر کے آگے بڑھنے کے عمل سے لاکھوں ایکڑ قیمتی زرعی اراضی تباہ ہو رہی ہے، دریا میں موجود نباتات اور حیوانات صفحہ ہستی سے مٹ رہے ہیں، آب اندوخت تہیں زہر آلود ہو رہی ہیں اور ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع (دریاوں کی آلودگی،شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی وغیرہ) دس فیصد موسمیاتی اوردس فیصد بحری ذرائع ہیں۔ کیسپین سی میں گرنے والا 60 فیصد گندا پانی صاف کئے بغیر سمندر کا حصہ بن رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق روزانہ کراچی اور لاہور کا پانچ سو ملین گیلن اور صنعتوں سے خارج ہونے والا 97 فیصد تک گندا پانی نالوں اور دریاوں کے ذریعے سمندر کا حصہ بن رہا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا 82 فیصد گندا پانی صاف کئے بغیر ہی سمندر کی نذر کیا جارہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہر سال 12 ملین میڑک ٹن سمندری پانی پیٹرولیم، تیل کے ٹینکز سے رسنے سے بندرگاھوں پر ان کی صفائی اور تیل پھرنے سے آلودہ ہوجاتا ہے۔ جس سے سمندری آلودگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے ادارے جو آلودہ پانی کا تجزیہ کر رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی تحقیق میں خردنامیوں کے حصول اور انکی خام تیل تحلیل کرنے کی صلاحیت کا مطالعہ کریں کیونکہ آلودگی کے بعد اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ سمندر کی عام حردنامی آبادی جس میں سمندری آلودگی ختم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اس میں جینییاتی تبدیلیاں بھی رونما ہوسکتی ہیں۔

سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پر مشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیات انسانی کیلئے ضروری ہے، ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔ عالمی سطح پربڑھتی ہوئی حدت کے سبب سطح سمند میں نمایاںتبدیلیاں محسوس کی جارہی ہیں جس سے نہ صرف جزائر کیلئے خطرہ لاحق ہوگیا ہے بلکہ دنیا بھر میں سمندکے کنارے آباد ی کیلئے بھی مسائل پیدا ہوگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بحیرہ عرب خشکی کی جانب بڑھتا چلا آرہا ہے۔
Syed Muhammad Abid
About the Author: Syed Muhammad Abid Read More Articles by Syed Muhammad Abid: 52 Articles with 71833 views I m From Weekly Technologytimes News Paper.. View More