گذشتہ ماہ کے آخر میں ممبئی میں
ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد اچانک بھارت کا لہجہ تبدیل ہوگیا تھا اور
بھارت نے جنگی جنون میں مبتلا ہوکر نہ صرف پاکستان کو جنگ کی دھمکی دیدی تھی
بلکہ اس نے انتہائی رعونت بھرے انداز میں پاکستان کے خلاف از خود کاروائی کو
عندیہ بھی دیدیا تھا۔ لیکن حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کے جرات مندانہ اور
دانشمندانہ فیصلے نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ نہ تو بھارت امریکہ ہے اور نہ
ہی پاکستان افغانستان ہے۔ کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا جواب موثر طور پر دیا
جائے گا۔ اس کے بعد بھارت کا لہجہ بالکل بدل گیا اور وہ بھارتی وزیر خارجہ جو
بلند و بانگ لہجے میں دھمکیاں دے رہا تھا اچانک بکری کی طرح ممیانے لگا بقول
شاعر-یہ وقت کس کی رعونت پر خاک ڈال گیا -یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں۔
بہرحال فوری جنگ کا خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن اگر ہم ٹھنڈے دل سے اپنا جائزہ لیں
تواور پھر فیصلہ کریں کہ کیا واقعی بھارت کو ہم سے جنگ کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ
گذشتہ ایک ماہ میں بھارت کے طوفانِ بد تمیزی اور جنگ کی دھمکی کے باوجود ہم نے
غیرتِ ملی کا کماحقہ ثبوت نہیں دیا ہمارے گھروں میں کیبل کے ذریعے بھارت کی
نشریات جاری رہیں، ہمارے سینما گھروں میں بھارتی فلمیں نمائش پذیر رہیں، سی ڈیز
پر بھاری فلموں کی آمد جاری رہی، بھارت کے ساتھ تجارت مکمل طور پر جاری رہی
تاققتیکہ اس نے خود اس سلسلہ کو بند نہ کردیا۔ ان سب چیزوں کے بعد بھارت کو ہم
سے جنگ لڑنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اس نے ہمارے ذہنوں کے مسخر کرنے کا کام شروع
کردیا ہے۔کیا بھارت کی جنگ کی واضح دھمکی کے بعد ہمیں بھارت کی تمام مصنوعات کا
بائیکات نہیں کردینا چاہیے تھا۔کیا ہم بھارت کی فلمیں اور ڈرامے دیکھے بغیر
نہیں رہ سکتے۔بھارت نے اپنی تہذیبی یلغار کے ذریعے ہمارے ذہنوں کو بدلنا شروع
کردیا ہے۔آج یہ عالم ہے کہ ہمارے نوجوانوں اور نو عمر بچوں کے اتنے انبیائے
کرام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسم مبارک نہیں یاد ہونگے جتنے
ہندوئو کے دیوی اور دیوتاوں کے نام یاد ہونگے۔اسلامی شعار اور اسلامی تہذیب کے
رسم رواج کا پتہ نہیں مگر دیوالی، ہولی، بیساکھی کا اچھی طرح علم ہے۔اردو زبان
سے واقفیت نہیں ہے مگر ہندی زبان کے الفاظ ہمارے گھروں میں غیر محسوس انداز میں
جگہ بنا رہے ہیںمثلا بیواہ کی جگہ ودواہ،عظیم کی جگہ مہان، حل کی جگی اپائے،
سمت یا رستہ کے بجائے دِشا، معافی کی جگہ شما اور اسی طرح کے کئی الفاظ ہمارے
روز مرہ کی گفتگو میں مستعمل ہیں۔ کیا اس سب کے بعد بھی بھارت کو ہم سے جنگ کی
ضرورت ہے اپنی تہذیب اور تمدن سے دور رہ کر نہ تو کوئی قوم ترقی کرسکتی ہے اور
نہ ہی اسے کسی مزید دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبان کے حوالے سے چین کی مثال ہمارے
سامنے ہے کہ چین کے لوگ بہترین انگریزی بولتے ہیں مگر جب وہ کسی ملک کا دورہ
کرتے ہیں یا ان کے ملک میں کسی ملک کا وفد آتا ہے تو وہ انگریزی کے بجائے
چائنیز میں ترجمان کے زریعے بات چیت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ایک واقعہ مشہور
ہے کہ عظیم چینی رہنما چو این لایئی ایک دفعہ ایک ملک کے سفیر سے ملاقات کے
دوران جب ان کے ترجمان نے ان کے ایک جملے کا انگریزی میں غلط ترجمہ کیا تو
انہوں نے اس کو روک کر اس کی تصحیح کی اسپر مہمان نے حیرانگی سے پوچھا کہ جب آپ
اتنی اچھی انگریزی بول سکتے ہیں تو پھر مترجم کی کیا ضرورت ہے اس پر انہوں نے
جواب دیا کہ جناب چین گونگا نہیں ہے۔اب میرا اپنے ہموطنوں سے سوال ہے کہ کیا
پاکستان گونگا ہے؟ میری اپنے تمام ہم وطنوں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ اپنی
تہذیب اور ثقافت کو چھوڑ کر پرائی تہذیب اور ثقافت کو خدارا نہ اپنائیں۔اور میں
ان سے یہی اقبال عظیم کی اس نظم کے ذریعے التجا کرونگا کہ
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
فنا ہوجائو گے افسانوں میں ڈھل جائو گے
اپنی ہی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پر چلو گے تو پھسل جاؤ گے
|