سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں
ایک اصطلاح“انتہا پسندی “کے نام سے متعارف کرائی گئی جو کہ آج بھی استعمال کی
جاتی ہے۔انتہا پسندی کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی جانب
سے کسی فرد یا معاشرے کی اجتماعی سوچ اور نظریات اور مرضی کے خلاف اپنے نظریات
مسلط کرنا اور جو لوگ ان نظریات کے خلاف آواز اٹھائیں یا مزاحمت کریں تو ان کو
تشدد کا نشانہ بنانہ، اس وقت ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی کی یہی تعریف بیان
کی جاتی ہے۔ اگر اس مروجہ تعرف سے رو دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کے کئی طبقات
اس کی زد میں آتے ہیں، اس میں ہر حکومت بھی شامل ہوتی ہے کہ پاکستان میں اکثر
حکومتیں عوام اور معاشرے کی مرضی کے بر خلاف فیصلے مسلط کرتی ہیں اور اس وقت
بھی اس کا سلسلہ جاری ہے اگر یقین نہ ہو تو عوام کے مسائل کا جائزہ لیکر دیکھا
جاسکتا ہے کہ عوام کے مسائل کیا ہیں اور حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔اس تعریف کی
زد میں خود سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف بھی آتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آٹھ سالہ
آمرانہ دور میں عوام کی اکثریت کی رائے اور مرضی کے برخلاف شعائر اسلام کا مذاق
اڑایا، خلاف اسلام قوانین کا نفاذ کیا، اور ملک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے
نام پر ایک نہ ختم ہونے والی آگ کا ایندھن بنا دیا کہ جس آگ کی تپش آج ہمارے
اپنے ملک میں محسوس کی جارہی ہے اور اس تعریف کی زد میں وہ نام نہاد دانشور
حضرات بھی آتے ہیں جو کہ اپنے قلم کی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے کسی بھی
مذہبی جماعت یا مذہبی رجحان والے فرد کے انفرادی فعل کی آڑ میں تمام لوگوں اور
اسلام کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں المیہ یہ ہے کہ یہ انتہا پسندی کسی کے لیے باعث
تشویش نہیں ہے اور انتہا پسندی کو اسلام کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے اور جو لوگ
جہاد یا اسلام پسندی کی بات کرتے ہیں یا وہ صرف انفرادی طور پر ہی اسلام کی
تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر انتہا پسندی کا لیبل لگا
دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ڈاڑھی والا یا مذہبی رجحان رکھنے والا یا کسی مدرسہ کا
فارغ التحصیل فرد اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اس کے ذاتی فعل کو بنیاد بنا کر نام
نہاد دانشور حضرات اسلام پر حملے شروع کردیتے ہیں۔ اس کو انتہا پسند قرار دیکر
اس کی ذات کے بجائے مدارس کے نظام پر تنقید شروع کردی جاتی ہے اور مدارس کو
انتہا پسندی کے مرکاز قرار دے کر ان پر پابندی عائد کرنے کی بات کی جاتی ہے۔
دیکھیں اچھے برے لوگ ہر معاشرے اور معاشرے کے ہر طبقہ میں پائے جاتے ہیں اور
مجرم کوئی بھی ہو اس کو اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے لیکن اس کی آڑ میں پوری
کمیونٹی کو بد نام نہ کیا جائے مثال کے طور پر اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں
تو ایک ہولناک حقیقت ہمارے سامنےآتی ہے کہ اس وقت معاشرے میں اکثر جرائم(سگنل
توڑنے سے لیکر قتل تک) میں جدید تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ افراد ملوث ہوتے
ہیں۔ کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کا طالبعلم سگنل کی لال بتی پر رکنا اپنی شان
کے خلاف سجھتا ہے اور عمومی طور پر یہ نوجوان سگنل توڑتے رہتے ہیں، گرلز اسکول
اور کالجز کے باہر طالبات کو تنگ کرنے والے، لڑکیوں کو موبائل پر فحش ایس ایم
ایس بھیجنے والے، بھولی بھالی معصوم لڑکیوں کو ورغلا کر ان کی فحش تصاویر اور
ویڈیو بنا کر نیٹ پر جاری کرنے والے، اکثریت میں انہی جدید تعلیمی اداروں کے
فارغ التحصیل نوجوان ہوتے ہیں، موبائل چوری کرنے اور موبائل چھیننے کی اسی فیصد
وارداتوں میں یہی تعلیم یافتہ نوجوان ملوث ہوتے ہیں۔ اسی طرح ڈکیتی کی پچاس سے
ساٹھ فیصد واداتوں میں تعلیم یافتہ نوجوان ملوث ہوتے ہیں۔ اسی طرح غیرت کے نام
پر بے گناہ اور معصوم عورتوں کو قتل کرنے والے، ڈاکٹر شازیہ اور مختار مائی
جیسی خواتین کو بے آبرو کرنے والے، اپنی زمینوں پر نجی جیلیں قائم کرنے والے،
ملک کی دولت اور زرِمبادلہ لوٹنے والے ان میں سے کسی کا بھی تعلق کسی مذہبی
جماعت، گروہ یا مدرسے سے تعلق نہیں ہے۔ اب اگر ان تمام حقائق کو مدِ نظر رکھتے
ہوئے اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرے کہ جناب چونکہ جدید تعیلمی اداروں سے وابستہ
افراد ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں لہٰذا تمام جدید تعلیمی اداروں پر پابندی لگا
دی جائے تو کوئی بھی ذی الشعور شخص اس کی حمایت نہیں کرے گا بلکہ ایسا مطالبہ
کرنے والے کی عقل پر ماتم کرے گا۔ اور ہونا بھی یہی چایے کہ جس فرد نے بھی جرم
کیا ہو اس کو اس جرم کی سزا ملنی چاہیے اور اس کے فعل کی مذمت کرنی چاہیے لیکن
اس کی آڑ میں پوری کمیونٹی کو بد نام نہ کیا جائے اور کسی فرد واحد کے انفرادی
فعل کی بنیاد پر پوری کمیونٹی کونشانہ بنانا ہی دراصل انتہا پسندی ہے |