وجھ شھرت
غازی علم الدین شہید ایک گستاخِ رسول ہندو راجپال کو کتے کی موت مار کر خود
تختہ دار پر چھڑھ گئے۔کچھ لوگ چھوٹی سی زندگی میں اتنا بڑا کام کر جاتے ہیں
کہ ان کا نام تا قیامت زندہ رہتا ہے انہیں میں سے ایک غازی علم الدین شہید
تھے۔غازی علم الدین شہید 3دسمبر 1908کو محلہ چابک سواراں لاہور میں پیدا
ہوئے ۔والد کا نام میا ں طالع مند تھا جو نجاری یعنی لکڑی کا کام کرتے تھے
غازی علم الدین نے نجاری کا فن اپنے والد سے اور بڑے بھائی میاں محمدا لدین
سے سیکھا ۔پھر 1928میں کوہاٹ چلے گئے اور والد کے ساتھ بنوں بازار کوہاٹ
میں فرنیچر کا کام کرنے لگے۔ غازی علم الدین نے مشہور بدنام زمانہ کتاب
رنگیلا رسول کے ناشر راج پال کو ٹھکانے لگایا اور تختہ دار پر چڑھ گئے ۔اس
واقعہ کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ہندووں کی شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں
کو یاد رکھنا ضروری ہے جو 1920کی دہائی میں شروع کی گئی تھیں ۔اس سلسلہ میں
ہندووں نے دلآزار لٹریچر شائع کرنا شروع کیا ۔مہاشہ کرشن مدیر پر تاپ لاہور
نے ایک کتاب رنگیلا رسول کے نام سے لکھی ۔مصنف نے مسلمانوں کے غم و غصہ سے
بچنے کے لئے اپنی بجائے پروفیسر چمپوپتی لال ایم اے کا فرضی نام بطور مصنف
لکھ دیا ۔تاہم اس کتاب پر راج پال ناشر ہسپتال روڈ لاہور کا نام درست اور
واضح لکھا ہوا تھا۔مسلمانوں نے اس کتاب کو تلف کرنے کی درخواست کی ۔اس کے
انکار پر مسلمانوں نے دفعہ 153الف کے تحت فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے
الزام میں مقدمہ دائر کیا ۔مجسٹریٹ نے ناشر کو چھ ماہ قید کی سزا دی۔مگر اس
نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا۔اس
سلسلے میں مسلمانوں نے جلسے کئے۔متعدد جلوس نکالے لیکن حکومت نے دفعہ
144نافذ کر کے مسلمان لیڈروں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔فرنگی حکومت کے
انصاف سے مایوس ہونے کے بعدمسلمانوں نے اپنی قوت بازو سے کام لینے کا مصمم
ارادہ کیا ۔چنانچہ راج پال کو ٹھکانے لگانے کے لئے سب سے پہلے ایک نوجوان
غازی عبد العزیز کوہاٹ سے لاہور آیا۔پوچھتا پوچھتا ناشر کی دوکان پر جا
پہنچا ۔اتفاق سے اس وقت دوکان پر راج پال نہیں بیٹھاتھا بلکہ اس کی جگہ اس
کا ایک دوست جتندر موجود تھا۔عبد العزیز نے ایک ہی وار میں اس کا کام تما م
کردیا ۔انگریزی حکومت نے کچھ قانونی تقاضوں اور مصلحتوں کے پیش نظر
عبدالعزیز کو چودہ سال کی سزا دی ۔راج پال اپنے آپ کو ہروقت خطرے میں محسوس
کرتا ۔اس کی دراخوست پر دو ہندو سپاہی اور ایک سکھ حوالداراس کی حفاظت کے
لئے متعین کئے گئے ۔راج پال لاہور چھوڑ کر ہردوا کاشی اور متھرا چلاگیا
لیکن دوچار ماہ بعد واپس آکر اپنا کاروبار دوبارہ شروع کردیا۔چنانچہ غازی
علم الدین 6اپریل 192کو لاہور آئے اور ایک بجے دوپہر راج پال کی دوکان واقع
ہسپتال روڈ انار کلی نزد مزار قطب الدین ایبک پہنچ کر آپ نے راج پال کو
للکارا اور کہا اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور دلآزار کتاب کو تلف کردواور
آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز آجاو۔راج پال اس انتباہ کوگیڈر بھبکی سمجھ
کر خاموش رہا ۔اس پر غازی علم الدین نے ایسا بھر پور وار کیا کہ وہ اف تک
نہ کرسکا۔اس وقت دوکان میں دو ملازم بھگت رام اور کدار ناتھ بھی موجود تھے
۔کدار ناتھ نے انار کلی پولیس سٹیشن میں قتل کی اطلاع درج کروائی ۔پولیس نے
لاش پر قبضہ کرکے کدار ناتھبھگت رام اور دیگر گواہوں کے بیانات لئے ۔چونکہ
ملزم اقبالی تھا اس لئے مقدمے کی تفتیش اور چالان میں نہ توکوئی دقت پیش
آئی نہ کوئی رکاوٹ ہوئی ۔اس واقعہ کے بعد شہر میں خاصاخوف وہراس پھیل گیا
تھا ۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے دفعہ 144نافذ کر کے ہندو مسلم کشیدگی پرقابو پانے
کی کوشش کی۔تاہم ہندووں نے راج پال کی ارتھی کا جلوس نکالا اور پورے احترام
کے ساتھ رام باغ نزد بادامی باغ نذر آتش کر کے اس کی راکھ کو دریائے راوی
میں بہا دیا ۔مقدمہ مسٹر لوئیس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش
ہوا۔انہوں نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے اس کا بیان لیا اور بغیر صفائی کے
مقدمہ سیشن کے سپرد کردیا۔مسٹر نیپ سیشن جج تھے ۔مسٹر سلیم بارایٹ لانے
غازی علم الدین کے حق میں معقو ل دلائل پیش کئے مگر عدالت نے دفعہ 302کا
فرد جرم عائد کرکے مورخہ 22مئی 1929کو پھانسی کی سزا کا حکم سنایا ۔مسلمانان
لاہور میں کئی جلسے کر کے فیصلہ کیا کہ سیشن جج کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ
میں اپیل ضرور کی جائے ۔مسٹر محمد علی جناح اس مقدمے کی پیروی کی غرض سے
بمبئی سے لاہور آئے ان کی معاونت مسٹر فرخ حسین بیر سٹر نے کی ۔مقتول کی
طرف سے جے لال کپور اور دیوان رام لال سرکا ر کیطرف سے پیش ہوئے ۔مسٹر
براڈوے اور مسٹر جان سٹون جج ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت کی ۔15جولائی
1929کوغازی علم الدین کی اپیل خارج کردی اور سیشن کورٹ کے فیصلے کو بحال
رکھا۔ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ جب غازی علم الدین کو جیل میں سنایا گیا تو
انہوں نے مسکراکر کہا شکرو الحمد للہ۔میں یہی چاہتاتھا ۔بزدلوں کی طرح قیدی
بن کر جیل میں گلنے سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر رسول برحق رسالت ماب
پر اپنی حقیر جان کو قربان کرنا موجب ہزار ابدی سکون وراحت ہے۔مسلمانوں نے
ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پریوی کونسل لندن میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا
اس اپیل کا مسودہ قائد اعظم کی نگرانی میں تیار ہوا لیکن پریوی کونسل نے
بھی اپیل نامنظور کردی غازی علم الدین کو جونہی اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا
انہوں نے حسب سابق خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔صوبے کے امن وامان
کوملحوظ رکھتے ہوئے حکام وقت نے فیصلہ کیا کہ غازی علم الدین کو فوری طور
پر صوبے کی کسی محفوظ اور دوردراز جیل میں منتقل کردیاجائے ۔چنانچہ اس مقصد
کے لئے میانوالی جیل کو منتخب کیا گیا۔4اکتوبر 1929کو آپ کو لاہور سے منتقل
کر کے میانوالی لے جایاگیا اور 31اکتوبر 1929کو بروز جمعرات آپکوپھانسی دی
گئی۔مجسٹریٹ نے آپ سے پوچھا آپ کی آخری خواہش کیا ہے۔آپ نے کہا صرف دو رکعت
نماز شکرانہ ادا کرنے کی اجازت دی جائے ۔اس پر آپ نے دورکعت نفل پڑھے اور
خود سوئے دار بصدشوق چل پڑے ۔انگریز حکومت کا خیال تھا کہ اگر غازی علم
الدین کی لاش کو لاہور بھیجا گیا تو یقینا ہندو اور مسلمان مشتعل ہو کر
فساد پر آمادہ ہوجائیں گے۔اس لئے اس کی پاک میت کو بغیر جنازہ ایک گڑھے میں
دبادیا گیا ۔لیکن مسلمانوں نے ان کی میت کو لینے کے لئے شدید مطالبہ
کیا۔اور لاہور میں مسلسل جلسے جلوس اور ہڑتالیں ہوتی رہیں۔4نومبر1929کو
مسلمانوں کا ایک وفد گورنر پنجاب سے ملا ۔اس وفد میں سر میاں محمد شفیع٬
میاں عبدالعزیز ٬مولاناظفرعلی خاں ٬سر فضل حسین ٬خلیفہ شجاع الدین ٬میاں
امیر الدین ٬سر محمد اقبال ٬اور مولاناغلام محی الدین قصوری سرفہرست
تھے۔گورنرنے سخت شرائط پر نعش کی واپسی کی اجازت دی۔مسلمانوں کا ایک وفد
سید مراتب علی شاہ اور مرزا مہدی حسن مجسٹریٹ کی قیادت میں 13نومبر کو
میانوالی پہنچا دوسرے دن علی الصبح نعش کو گڑ ھے سے نکال کر ڈپٹی کمشنر
راجہ مہدی زمان خان کے بنگلے پر لایا گیا وفد اور میانوالی کے لوگوں کا
بیان ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود نعش میں ذرا بھی تعفن نہیں تھا۔بلکہ
جسم صحیح وسالم تھا۔چہرے پر جلا ل وجمال کا امتزاج تھا اور ہونٹوں پر
مسکراہٹ تھی۔نعش بذریعہ ٹرین 15نومبر1929کو لاہور چھاونی کے پاس
پہنچی۔محکمہ ریلوے نے یہ نعش محکمہ جیل کے احکام کے حوالے کی اور محکمہ جیل
نے وہ صندوق مسلم لیگ کے دونمائندوں سر محمد شفیع اور سر محمد اقبال کے
حوالے کیا۔غازی علم الدین کے جنازے پر ایک محتاط اندازے کے مطابق چھ لاکھ
انسان شامل ہوئے۔اخبار انقلاب کے مطابق جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا
تھا ۔نماز جنازہ قاری محمد شمس الدین خطیب مسجد وزیر خاں نے پڑھائی ۔باقی
نمازیں دیگر علماکرام نے پڑھا کر فرض کفایہ ادا کیا ۔ مولانا دیدار شاہ اور
علامہ محمد اقبال نے میت کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا ۔لوگوں نے عقیدت
سے اتنے پھول نچھاور کئے کہ میت ان میں چھپ گئی۔اس کے بعد کچی اینٹوں سے
تعویذ کو بند کر دیا گیا اور کلمہ شہادت اور کلمہ تمجید پڑھ کر قبر پر مٹی
ڈال دی گئی۔غازی علم الدین شہید کا مقبرہ میانی صاحب قبرستان میں بہاولپور
روڈ کے کنارے نمایاںمقام پر ہے۔ مزار کے چاروں طرف ایک مسقف بر آمدہ ہے مگر
خود مزار بغیر چھت کے ہے۔ مزار کے مشرق میں غازی کے والد، والدہ اور رؤ ف
احمد بھتیجے کی قبریں ہیں ۔ تایا میاں میر بخش اور ان کی اہلیہ کی قبریں
مغرب کی طرف ہیں۔ تعویذ کے شمال میں سنگ مرمر کا ایک کتبہ ہے جس کے اندرون
رخ پر غازی کی تاریخ پیدائش 3دسمبر 1908اور تاریخ وفات 31اکتوبر1929درج ہے۔
کتبے پر پنجابی اور اردو میں بے شمار اشعار کندہ ہیں۔ |