عمروبن عاص ازقلم:

ابو عثمان جاحظ
ابو عثمان عمر وبن بحر الفقیمی
نام ابو عثمان عمر وبن بحر الفقیمی
تاریخ پیداش 776ئ
وجھ شھرت
انکی تصانیف میں سب سے زیادہ اہم کتاب؛الحیوان؛ہے جو اس نوعیت کی پہلی کتاب تھی۔اس نے جاحظ کی شہرت کو چار چاند لگا دیے

جاحظ ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔لیکن اللہ تعالی نے خزانہ کی کنجی ہاتھ میں دے کر اس کو دنیا میں بھیجا تھا۔جاحظ کا نام سائنسدانوں کے بہت کم تذکروں میں ملتا ہے بعض کتابوںمیں اس کا نام ایک عالم دین اسلام ،دانا اور ایسے ادیب کی حیثیت سے درج ہے ۔جس کو عربی نثر لکھنے میں کمال حاصل تھا اس لئے یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ جاحظ کا سائنسدانوں میں شمار کہاں تک درست ہے کیونکہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا فکری رجحان سائنس سے زیادہ ادب کی طرف ہے ۔اس کی اکثر تصانیف ،یہاں تک کہ کتاب الحیوان تک پر بعض دفعہ یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ تفریح طبع کے لئے لکھی گئی ہے ۔اس کے باجود انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ علم الحیوانات کے میدان میں اس کی کوشش کو نظر اندازنہ کیا جائے ۔ابو عثمان عمر وبن بحر الفقیمی 776 میں عراق کے شہر بصرہ میں ایک حبشی خاندان میں پیدا ہوا ۔پیدائشی طور پر اس کی انکھوں کے ڈھیلے باہر نکلے ہوئے تھے اس لئے لوگوں نے اسے جاحظ کہنا شروع کر دیا ۔اس کی ابتدائی تربیت گاہ بصرہ ٹھری ،جس نے اس پر ایسا رنگ جمایا کہ ایک عمر گزارنے کے بعد بھی وہ اس کے سحر سے آزاد نہ ہو سکا ۔جاحظ ایک معمولی گھرانے میںپیدا ہوا تھا جہاں نہ روپے پیسے کی ریل پیل تھی اور نہ علم اور فصاحت وبلاغت ہی کے دریا بہتے تھے ۔لیکن اللہ تعالی نے خزانہ کی کنجی اس کے ہاتھ میں دے کر اس کو دنیا میں بھیجا تھا ۔وہ بے پناہ ذہین تھا اور اس کے تجسس کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا ۔علم وحکمت کو ہم درسگاہوں کی چاردیواری یا کتابوں کے اور اق میںقیدنہیں کر سکتے ۔جاحظ کے لئے کل دنیا اور زندگی درسگاہ تھی ۔اس کو نت نئے لوگوں سے ملنے اور باتیں کرنے کا چسکا تھا ۔کبھی وہ ملاحوں سے ان کے پیشے اور زندگی کے بارے میں سوال جواب کرتا اور کبھی خانہ بدوشوں سے ان کے نظریات اور طرز زندگی کے بارے میں گفتگوکرتا نظر آتا جب یہ ممکن نہ ہوتا تو مسجد میں جابیٹھتاجہاں لوگ جمع ہو کر محتلف مسائل پر اظہارخیال اوربحث ومباحثہ کیا کرتے تھے پہلے تو کسی نے اس طرف دھیان نہیں دیا لیکن رفتہ رفتہ لوگوںنے غور سے بات سننے والے لڑکے کی موجودگی کو سنجیدگی سے محسوس کرنا شروع کر دیا۔ شایدیہی وجہ ہے کہ زندگی کے محتلف شبعوں ، پیشوں طبقات اور نظریات کے متعلق اس کی رائے بڑی صائب ہے کچھ ہی دنوں میں وہ لسانی تحقیقاتی اور اسی طرح کے دوسر ے علمی اور ادبی حلقوں میں شرکت کرنے لگایہ سب تو اس کی عملی تعلیم کا قصہ ہے ۔اس کے علاوہ اس کو مطالعہ کا جنون تھا۔ جو کتاب ہاتھ لگتی اسے پڑہے بغیرنہ چھوڑتا تھا۔یونانی تعلیمات اس کے لئے اجنبی نہیں تھیں اور وہ ارسطو سے متاثر تھا ۔خوش بختی سے اس کو الاصبعی ،ابوعبید اور ابو زیدجیسے با کمال اساتذہ سے فیض اٹھانے کا موقع ملا ۔ بعد میں کسی وقت وہ بصرے سے بغداد چلا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کابیشتر وقت بغداد اور سامرہ میں گزرا ۔بغداد اس وقت اپنے عروج پر تھا۔وہاں کی علمی فضا کاجاحظ کی شخصیت کی تراش خراش میں بڑا حصہ رہا ۔اگراس کی فکری تاریخ میں بصرے کی چھاپ انمٹ تھی تو بغداد کا نقش بھی کچھ کم گہرا نہیںتھا جو بیج بصرے میں بویا گیا تھا اس کی آبیاری بغداد میں ہوئی ۔فکری اعتبارسے جاحظ کا تعلق معتزلہ سے تھا۔اس کے اس ملک کو بغدادمیں مزید تقویت ملی ۔وہ عقلیت پرست ہے اور ہر بات کو تسلیم کرنے سے پہلے عقلی دلائل طلب کرتا ہے ۔اس کو روایت پرستی سے نفرت ہے اور کسی کے قول کو بغیر تفتیش وتحقیق کے نہیں مانتا بلکہ ان لوگوں پر کڑی تنقید کرتا ہے جو آنکھ بند کر کے ہر ایک کی بات کایقین کر لیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے نظریات وعقائد اکثر ہمعصروں کے نظریات وعقائد سے برسرپیکار نظر آتے ہیں۔عربی کتب میں جاحظ کی تقریبا دو سوتصانیف کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے بیشتر وستبرد زمانہ ہو گئیں ۔اب با مشکل تیس دستیاب ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی تصانیف بڑے لوگوں کے ناموں سے منسوب کر کے ان سے معقول رقمیں وصول کیا کرتا تھا ۔بہر حال یہ طے ہے کہ اس نے جو کچھ کمایا اپنے زور قلم سے کمایا کیونکہ اس کی مستقل ملاز مت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔اگرچہ اسے گاہے گاہے دربار سے وظیفے ملتے رہتے تھے اور ایک طرح کا غیر رسمی مشیر تھا ۔اس کے علاوہ خلفاکے ساتھ نہیںلیکن امرااور سربرآوردہ شخصیتوں کے ساتھ اس کے گہرے مراسم تھے ۔ اس کی تصانیف ہر قسم کی اور مختلف موضوعات پر مبنی ہیں ۔ بعض بہت طویل ہیں کچھ بہت محتصر اورکچھ کی خضامت اوسط درجہ کی ہے اس کے پسندیدہ موضوعات ادب ?الہیات مذہب اور سائنس ہیں ۔ نظریات اور تجربات کی حد تک اس کو کیمیامیں بھی دخل ہے لیکن سونا بنانے میں وہ کوئی خاص دلچپسی ظاہرنہیں کرتا اس کی تمام تصانیف کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ایک حصہ تو دوسرے ادییوں اور مصنفوں کی تحریروں کے انتخاب اور ان کے تبصروں پر مبنی ہے دوسرا حصہ طبعزاد تصانیف اورمقالات پر مشتمل ہے ۔یہ تصانیف اپنے عنوانات کے تنوع کے اعتبار سے نہایت دلچسپ ہیں :
کتاب الحیون ،کتاب البیان والطیبین ،کتاب العثمانیہ،المعادالمعاش ،السر وحفظ اللسان،کتاب الردعلی الضاری ،رسالہ فی مناقب اترک اور کتاب الربیع والقدویر۔ان تصا نیف میںسب سے زیادہ اہم کتاب الحیوان ہے ۔ہمارے علم میں یہ اس مو ضوع پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی ۔یہ ضخیم کتاب سات حصوں پر مشتمل اور نا مکمل ہے ۔اس کے کئی ایڈ یشن شائع ہو چکے ہیں ۔اگرچہ ان میں سے ایک بھی مستند نہیںہے ۔اس کے باوجود اس کا انگریزی ہسپانوی اور دوسرے یورپی زبانوںمیںترجمہ ہو چکا ہے ۔کتاب کی ضخامت اور موضوع دیکھ کر قاری کوخیال ہوتا ہے کہ یہ علم الحیوان کے بارے میں کوئی جامع تصنیف ہو گی ۔لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔کہ جا حظ نے صرف ان جانوروں کا تذکرہ کیا ہے جن سے اسکو خود دلچسپی ہے یا جو اسکے مشاہدے میں باآسانی آتے ہیں،باقی تمام جانوروں کویکسر نظر انداز کر دیا ہے ۔مثلا بڑے ممالیہ جانوروں ،کچھ پرندوں اور حشرات یعنی مکھیوں ، مچھروں ،بچھووں اور جووں کا ذکر ہے لیکن مچھلیوںکا تذکرہ نہیںہے۔شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ اس کے پاس مچھلیوں کے بارے میں مستند مواد نہیں تھا ۔وہ ارسطو کے نظریہ حیوانات سے متاثر نظر آتا ہے لیکن اس پر مکمل انحصار نہیں کرتا اس کتاب میں بھی ادبی اور ثقافتی رنگ نمایاں ہے ۔اس نے جانوروں کے بارے میں تمام قصے ،کہانیاں ،لطیفے اور توہمات بھی بیان کی ہیں جو عربوں میں مشہورہیں ۔ان سب باتوں کے باوجود جاحظ کے مطالعہ کی گہرائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔اس نے جن حیوانات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں نہایت دلچسپ اور قابل قدر معلومات مہیاکی ہیں کہ کون سے جانور دوڑتے ہیںکون سے رینگتے ہیں کون سے تیرتے ہیں اور کون سے اڑتے ہیں۔اس نے ممالیوں کی جگالی کے عمل کی بھی وضاحت کی ہے ۔وہ جانور کو ضرر رساں اور بے ضرر کے خانوںمیں تقسیم کرنے کے خلاف ہے ۔وہ کہتا ہے کہ ضروری نہیںوہ جانور جن کو انسان نقصان دہ سمجھتا ہے نقصان دہ ہی ہوں۔ہو سکتا ہے کہ ان جانور وں سے کسی اور مخلوق کو کسی اور طرح فائدہ پہنچتا ہو ۔اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے کوئی چیز بغیر کسی وجہ کے پیدا نہیںفرمائی ۔ہر مخلوق کا کا رو بار دنیا میں کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے اس لئے اللہ کی کسی مخلوق کو نقصان دہ قرار دینا غلط ہے ۔اس کے بجائے وہ جانوروں کو ان کی خوراک کی بنیاد پر یعنی گوشت خور سبزی خور کے گروہوں میں تقسیم کرتا ہے ۔پرندوں کو اس نے شکاری اور اپنا بچاو نہ کر سکنے والے پرندوں میں بانٹا ہے ۔اس کو جانوروں کی اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت میں دلچسپی ہے اس نے ایک اور نظریے پر بھی بحث کی ہے اس کے خیال میں اللہ تعالی کے نظام میں بغیر ماں باپ کے پیدا ہونے کی گنجائش موجود ہے ورنہ برف میں سے مینڈک بر آمد نہ ہوتے ۔اس نے جانوروں کی جنسی زندگی اور جنسی بے قاعدگیوںمیں بہت دلچسپی لی ہے ۔اپنے ان تمام موضوعات کی وضاحت کے لئے اکثر وہ تصویروں کا سہار ا لیتا ہے ۔سوائے ایک تصویر کے باقی تمام تصویریں ایک رنگ کی ہیں رنگین تصویر میں ایک شتر مرغ کو انڈوں پربیٹھا دکھایا گیا ہے ۔ جاحظ کا خیال ہے کہ جانور جو آوازیں نکالتے ہیں وہ بے معنی شور نہیں بلکہ باقاعدہ بولیاں ہیں جن کے یقینا کوئی نہ کوئی معنی ہوتے ہیں ۔اس کے خیال میں انسان میں ہر جانور کی کوئی نہ کوئی خصوصیت موجود ہے ۔اس لئے انسان کو ایک چھوٹی سی کائنات کہا جا سکتا ہے ۔بیسویں صدی عیسوی نے جہاں اور بہت سے کام کئے وہاں ماضی کے دفینوں کو منظر عام پر لانے کا کارنامہ بھی سر انجام دیا ہے ۔ علم کے متلاشی پرانے مخطوطات کی کھوج میں رہتے ہیں ۔جاحظ کے بہت سے قیمتی نسخے دریافت ہو کر شائع ہو چکے ہیں ۔امید ہے کہ ایک نہ ایک دن ؛کتاب الحیون؛کا بھی کوئی مستند نسخہ ضرور شائع ہو گا
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1283061 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.