حضرت امام شافعی


نام حضرت امام شافعی
تاریخ پیداش 804
آپ بحرشریعت و طریقت کے تیراک اور رموز حقیقت کے شناسا تھے فراست و ذکاوت میں ممتاز اور نفقہ فی الدین میں یکتائے روزگار تھے۔آپ نے تیرہ سال کی عمر میں ہی بیت اللہ میں فرما دیا تھا کہ جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو 'اور پندرہ سال کے سن میں فتوی دینا شروع کر دیا تھا۔ حضرت امام احمد بن حنبل آپ کابہت احترام اور خدمت کیا کرتے تھے۔ جب کسی نے یہ اعتراض کیا کہ آپ جیسے اہل علم کے لئے ایک کم عمر شخص کی مدارات کرنا مناسب نہیں آپ نے جواب دیا کہ ''میرے پاس جس قدر علم ہے اس کے معانی و مطالب سے وہ مجھ سے زیادہ با خبر ہے 'اور اسی کی خدمت سے مجھے احادیث کے حقائق معلوم ہوتے ہیں۔
اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو ہم علم کے دروازے پر ہی کھڑے رہ جاتے اور فقہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند رہ جاتا۔ اور اس دورمیں وہ اسلام کا سب سے بڑا محسن ہے۔ وہ فقہ معانی اور علوم لغت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا اور حضور اکرم کے اس قول کے مطابق کہ ہر صدی کی ابتدامیں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا کہ اہل علم اس سے علم دین حاصل کریں گے اور اس صدی کی ابتدا امام شافعی سے ہوئی ہے ''

حضرت سفیان ثوری کا قول ہے کہ امام شافعی کے دور میں ان سے زیادہ دانشور اور کوئی نہیں۔ حضرت بلالخواص کا قول ہے کہ میں نے حضرت خضر سے پوچھا کہ امام شافعی کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے !فرمایا کہ ان کا شمار اوتاد میں ہوتا ہے۔

امام شافعی ابتدائی دور میں کسی کی شادی یا دعوت میں شریک نہ ہوتے 'مخلوق سے کنارہ کش ہو کر ذکر الہی میں مشغول رہتے 'حضرت سلیم راعی کی خدمت میں حاضر ہو کر فیوض باطنی سے فیض یاب ہوتے اور آہستہ آہستہ ایسے عروج کمال تک رسائی حاصل لی کہ اپنے دور کے تمام مشائخ کو پیچھے چھوڑ دیا۔عبداﷲ انصاری کا قول ہے کہ گو میرا شافعی مسلک سے تعلق نہیں لیکن امام صاحب کے بلند مراتب کی وجہ سے ان کے عقیدت مندوں میں ہوں۔آپ کی والدہ بہت بزرگ تھیں اور اکثر لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس بطور امانت رکھوا دیتے۔ ایک دفعہ دو آدمیوں نے کپڑوں سے بھرا ہوا ایک صندوق آپ کے پاس بطور امانت رکھوایا۔اس کے بعد ایک شخص آکر وہ صندوق لے گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد دوسرے شخص نے آکر صندوق طلب کیا تو آپ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھی کو وہ صندوق دے چکی ہوں۔ اس نے کہا جب ہم دونوں نے ساتھ رکھوایا تھا تو پھر آپ نے میری موجودگی کے بغیر اس کو کیسے دے دیا اس جملہ سے آپ کی والدہ کو بہت ندامت ہوئی لیکن اسی وقت امام شافعی بھی گھر میں آگئے اور والدہ سے کیفیت معلوم کر کے اس شخص سے کہا کہ تمہارا صندوق موجود ہے لیکن تم تنہا کیسے آگئے 'اپنے ساتھی کو ہمراہ کیوں نہیں لائے ہو۔ پہلے اپنے ساتھی کو لے آئو۔ یہ جواب سن کر وہ شخص ششدر رہ گیا۔جس وقت آپ امام مالک کے پاس پہنچے تو آپ کی عمر سترہ سال تھی چنانچہ آپ ان کے دروازے پر اس نیت سے کھڑے رہتے۔ جو شخص امام مالک سے فتوے پر دستخط لے کر نکلتا تو آپ بغور اس کا معالعہ کرتے۔ اگر جواب صحیح ہوتا تو اس شخص کو رخصت کر دیتے اور کوئی خامی نظر آتی تو واپس امام مالک کے پاس بھیج دیتا اوروہ غور کرنے کے بعد نہ صرف اس خامی کو دور کر دیتے بلکہ امام شافعی کے عمل سے بہت مسرور ہوتے۔خلیفہ ہارون رشید اور اس کی بیوی میں کسی بات پر تکرار ہو گئی تو زبیدہ نے کہا کہ تم جہنمی ہو اور ہارون رشید نے کہا کہ اگر میں جہنمی ہوں تو تیرے اوپر طلاق ہے۔ یہ کہہ کر بیوی سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن محبت کی زیادتی کی وجہ سے جب جدائی کی تکلیف برداشت نہ ہو سکی تو تمام علما کو بلا کر پوچھا کہ میں جہنمی ہوں یا جنتی ؟لیکن کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔امام شافعی بھی کم سنی کے باوجود ان علما کے ساتھ تھے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس کا جواب دوں اور اجازت کے بعد خلیفہ سے پوچھا کہ آپ کو میری ضرورت ہے یا مجھے آپ کی ؟خلیفہ نے کہا کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم تخت سے نیچے آجائو کیونکہ علما ء کا مرتبہ تم سے بلند ہے۔ چنانچہ اس نے نیچے آکرآپ کو تخت پر بٹھا دیا۔ پھر آپ نے سوال کیا کہ تمہیں کبھی ایسا موقع بھی ملا ہے کہ گناہ پر قادر ہونے کے باوجود محض خوف الہی سے گناہ سے باز رہے ہو ؟اس نے قسمیہ عرض کیا کہ ہاں ایسے مواقع بھی آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم جنتی ہو۔ علما نے اس کی حجت طلب کی تو فرمایاکہ خدا تعالی کا ارشاد ہے کہ قصد گناہ کے بعد جو شخص خوف خدا سے گناہ سے رک گیا اس کا ٹھکا نہ جنت ہے ''ایک روایت کے مطابق حاکم روم کچھ رقم سالانہ ہارون رشید کے پا س بھیجاکرتاتھا لیکن ایک مرتبہ چند راہبوں کو بھیج کر یہ شرط لگا دی کہ اگر آپ کے دینی علما مناظرے میں ان راہبوں سے جیت گئے تو میں اپنی رقم جاری رکھوں گا ورنہ بند کر دوں گا۔ چنانچہ خلیفہ نے تمام علما کو مجتمع کر کے حضرت امام شافعی کو مناظرہ پر آماد ہ کیا۔ آپ نے پانی کے اوپر مصلی بچھا کر فرمایا کہ یہاں آکر مناظرہ کرو۔ یہ صورت حال دیکھ کر سب ایمان لے آئے۔ جب اس کی اطلاع حاکم روم کو پہنچی تو اس نے کہا کہ یہ بہت اچھا ہوا 'اس لئے اگر وہ شخص آجاتا تو پورا روم مسلمان ہو جاتا۔امام شافعی حافظ نہیں تھے اور کچھ لوگوں نے خلیفہ سے شکایت کر دی کہ آپ حافظ نہیں ہیں۔ اس نے بطور آزمائش رمضان میں آپ کو امام بنا دیا۔ چنانچہ آپ دن بھر میں ایک پارہ حفظ کر کے رات کو تراویح میں سنا دیا کرتے تھے۔ اس طرح ایک ماہ میں پورا قرآن حفظ کر لیا۔آپ ایک حسینہ پر فریفتہ ہو گئے اور اس سے نکاح کرنے کے بعد صرف صورت دیکھ کر اور مہر ادا کرکے طلاق دے دی امام شافعی نے امام حنبل سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ آپ کے نزدیک عمدانماز ترک کر دینے والا کافر ہو جاتا ہے تو اس کے مسلمان ہونے کی کیا شکل ہے ؟انہوں نے جواب دیا کہ نماز ادا کرے۔ امام شافعی نے جواب دیا کہ کافر کی تو نماز ہی درست نہیں۔ یہ سن کر آپ ساکت رہ گئے۔ایک شخص نے آپ سے نصیحت کی درخواست کی تو فرمایا کہ دوسروں کے برابر دولت جمع کرنے کی سعی مت کرو بلکہ عبادت میں برابری کی کوشش کرتے رہو کیونکہ دولت تو دنیا میں رہ جاتی ہے اور عبادت قبر کی ساتھی ہے کبھی کسی مردے سے حسد نہ کرو کیونکہ دنیا میں سب مرنے کے لئے آئے ہیں۔ایک مرتبہ آپ گزرے ہوئے وقت کی جستجو میں نکلے تو صوفیا کی ایک جماعت نے کہا کہ گزرا ہوا وقت تو ہاتھ نہیں آتا 'لہذا موجودہ وقت ہی کو غنیمت جا نو۔ آپ نے فرمایا کہ مجھ کو مراد حاصل ہوگئی کیونکہ تمام دنیا کا علم مجھ کو حاصل نہیں ہوا اور میرا علم صوفیا کے علم تک نہیں پہنچا اور صوفیا کا علم انہیں کے ایک مرشد کے اس قول تک نہیں پہنچا کہ موجودہ وقت شمشیر قاطع ہے۔عالم نزع میں آپ نے وصیت نامہ میں تحریر کر دیا تھا اور زبانی بھی لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ فلاں شخص سے کہنا کہ مجھے غسل دے۔ لیکن وفات کے بہت عرصہ بعد وہ شخص مصر سے واپس آیا تو لوگوں نے وصیت نامہ اور زبانی وصیت اس تک پہنچا دی۔چنانچہ وصیت نامہ میں تحریر تھا کہ میں ستر ہزار کا مقروض ہوں۔ یہ پڑھ کر اس شخص نے قرض ادا کیا اور لوگوں سے کہا کہ غسل سے آپ کی یہی مراد تھی۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381853 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.