لاپتا افراد کا معاملہ سنگین قومی المیہ

لاپتا افراد کی بازیابی کا معاملہ سنگین قومی المیے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، گزشتہ 10 سالوں سے لوگ اپنے ہی ملک میں ”اغوا“ ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ لاپتا افراد کی بازیابی کے سلسلے میں ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے زیر اہتمام پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر ایک دھرنا کیمپ لگایا گیا ، جس میں سیاسی و سماجی شخصیات کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے جمعے کے روز چوہدری نثار، اسحق ڈار و دیگر کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کیا، اس موقع پر انہوں نے لاپتا افراد کے خاندانوں کے لیے 50 لاکھ روپے امداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں میں پیش کیے گئے” لاپتا “افراد کی حالت دیکھ کر پوری قوم کو دکھ ہوا، ان سے انسانیت سوز سلوک برداشت نہیں کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ جلد لاپتا افراد کے معاملے پر قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کرے گی جو جماعت اس قرار داد کی مخالفت کرے گی وہ قوم کے سامنے بے نقاب ہوجائے گی۔

اس سے قبل 13 فروری 2012ءکو اڈیالہ جیل سے” لاپتا“ ہونے والے 11 قیدیوں میں سے زندہ بچ جانے والے 7 قیدیوں کو سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا، یہ ڈھائی سال سے خفیہ اداروں کی حراست میں تھے جب کہ ان کے ساتھ اٹھائے گئے دیگر 4 قیدی ایجنسیوں کی حراست میں انتقال کرچکے ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایجنسیوں کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کر قیدیوں کی حالت دیکھ کر اللہ سے ڈر رہا ہوں، آپ کو بھی اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے ان قیدیوں کے مقدمے کے فیصلے تک انہیں دوبارہ تفتیشی مرکز منتقل نہ کرنے اور انہیں چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت یکم مارچ تک ملتوی کردی۔

کسی شخص کو محض الزامات کی بنیاد پر اٹھاکر غائب کردینا کہاں کا انصاف ہے؟ لاپتا افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے انتظار میں روز مرتے اور جیتے ہیں، اس غیر انسانی فعل کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں جنگل کا قانون رائج ہے۔ بالفرض لاپتا افراد اگر کسی جرم میں ملوث بھی ہیں تو انہیں تاریک کوٹھریوں میں بند کرکے کون سا قانون ان پر تشدد کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ کسی کو مجرم قرار دیے بغیر محض الزامات کی بنیاد پر اسے اپنے اہل خانہ سے دور رکھنا اور اس کا ٹرائل کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اگر کوئی واقعی مجرم ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور اگر اس پر جرم ثابت ہوجائے تو اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔ اور ان ”لاپتا“ ملزموں سے جو سلوک کیاگیا ہے مہذب معاشروں میں مجرموں کے ساتھ بھی یہ سلوک روا رکھنے کی اجازت نہیں دی جا تی تاہم عدالتوں کو بائی پاس کرکے کسی کو اغواءکرنا بھی جرم ہے۔ جس کی وجہ سے خفیہ اداروں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔

اس صورت حال کی ذمہ داری ہماری سیاسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے اس اہم معاملے پر زبانی جمع خرچ کے سوا کیا کیا ہے؟ صرف بیان بازی سے تو لاپتا افراد کے اہل خانہ کی اشک شوئی نہیں کی جاسکتی۔ یہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بیان دے کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ 18 ویں، 19 ویں اور 20 ویں ترمیم پر مک مکا کرنے والے سیاست دان بتائیں کہ انہوں نے لاپتا افراد کو بازیاب کرنے کے سلسلے میں کون سے عملی اقدامات کیے ہیں؟ آئین میں ترمیم کرنے والے اور اسے کارنامہ قرار دینے والے حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں نے خفیہ اداروں کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا قانون سازی کی ہے؟ اس کی وضاحت کی جائے کہ ان آئینی ترمیموں سے قوم کو کیا فائدہ پہنچا اور کیا اس میں عوام کو ریلیف دینے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ایک بھی شق شامل کی گئی؟ اپنے مفادات کے لیے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو ہدف تنقید کا نشانہ بنانے والے وزیراعظم نے لاپتا افراد کے مسئلے پر چُپ کیوں سادھ لی ہے؟ کیا شہریوں کے جان و مال اور املاک کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت وقت کی نہیں؟ یا لاپتا کیے جانے والے افراد حکومت کی عملداری میں نہیں آتے؟

لاپتا افراد کے اہلخانہ کے ساتھ ہمدردی جتانے والے نواز شریف سے سوال ہے کہ وہ اتنے طویل عرصے تک خاموش کیوں رہے؟ کیا نواز لیگ نے اس معاملے پر بات چیت کرنے اور اس کے حل کے لیے کسی سیاسی جماعت کو دعوت دی؟ پارلیمنٹ کی بالادستی کا شور مچانے والے عوامی نمایندے اور حکمران جماعت کے ارکان نے اس توہین پر چُپ کا روزہ کیوں رکھا ہوا ہے؟ کیا یہ اقدام ماورائے آئین اور قانون نہیں؟ کیا یہ پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں کی توہین کے زمرے میں نہیں آتا؟ کچھ عرصہ قبل تک لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بیان دینے والے عمران خان کو کیا ہوگیا؟ امریکی سفیر سے چند ہی ملاقاتوں نے اس کی ترجیحات کی فہرست بھی تبدیل کردی؟ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نیٹو سپلائی کی بحالی کا بیان دینے والے وزیر دفاع پہلے اپنے شہریوں کے حقوق تو پورے کریں، لاپتا افراد کو بازیاب کروانے اور انہیں منظر عام پر لانے کے لیے کردار تو ادا کریں۔ کیا لاکھوں مسلمانوں کے قاتل امریکی اور اس کے اتحادی ہی انسانی ہمدردی کے مستحق ٹھہرے؟ جن لوگوں کے مینڈیٹ اور ووٹ کی بدولت آپ وزیر بنے، پارلیمنٹ میں آئے، کیا آپ نے ان کے تمام حقوق ادا کردیے؟

ان تمام سوالوں کا جواب یقینا نفی میں ہے، تو خدا کے لیے پہلے ان ٹوٹے دلوں کو جوڑنے اور ان کا دکھ درد بانٹنے کے لیے خلوصِ نیت سے اقدامات تو کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر معاملے میں دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے والے ہمارے سیاست دان ناکام ہوگئے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے والے پہلے اپنی ناکامی کا اعتراف کریں۔ قوم نے اپنے مسائل کے حل کے لیے ان سیاست دانوں کو مینڈیٹ دیا تھا، لیکن گزشتہ 4 سالوں کے دوران حکمرانوں نے مہنگائی، بدامنی اور قوم کی مشکلات میں اضافے کے علاوہ کیا کیا؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑچکی ہے اور بلوچستان ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو سب سے پہلے ان سیاست دانوں کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے قوم کے مسائل کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 78309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.