چند سا ل بیشتر شہر کی گہما گہمی
سے دور اپنی فیملی کے ہمراہ بلو چستان کے ایک فا رم ہاؤس جا نے کا اتفا ق
ہوا مگر افسوس کہ ہما را وہ سفر انتہا ئی دکھ اور تکلیف بھرا ثابت ہوا ۔فا
رم ہا ﺅس کی حدتک تو زندگی بڑی سر سبزو پر بہا ر دکھا ئی دیتی تھی لیکن اس
کے با ہر چٹختی سنگلا خ سر زمین بلو چستان اپنی بھوک،غربت ،بے چا رگی اور
مجبوری کی داستان سنا تی ایک ایسی کہانی تھی جو بیا ن سے با ہر ہے بڑوں کی
تو چھوڑیے ان کی آنے والی نسل کی با ت کریں توخو شیوں سے آزاد لڑکپن کی عمر
کے معصوم بچے محسوس ہو تا تھا کہ اپنی زندگی کے تما م ما ہ وسال گزار چکے
ان بچوں کی صحت، حلیے،ناخن، چہرے ،بال ان کی زندگی کے کئی دھا ئیاں طے کر
چکے تھے اگر یہ کہا جا ئے کہ یہ بچے بچپن میں بو ڑھے ہو چکے تھے تو بلکل
غلط نہ ہوگا انھیں زندگی کی کوئی بنیا دی سہو لتیں حاصل نہ تھیں وہ زندہ تو
تھے لیکن زندوں سے بد تر !وہ یقینا آگے زندگی کا سفر حیا ت طے کر یں گے
لیکن ایک بد تر زندگی ! لیکن وہ کیوں ایسی بد تر زندگی گز اریں ؟ان کا قصور
کیا ہے َ؟ کیوں ڈر ڈر کر سہم سہم کر جئیں ؟ روٹی ،کپڑے، پا نی ،صحت اور
تعلیم سے محروم رہیں ان کے حصے کی تما م خوشیا ں کیو ں دوسرے لوٹ کر لے جا
ئیں ہما رے تما م سیا ت دان کب تک وعدے تسلی اور دلا سوں سے بلو چ عوام کو
بہلا تے رہیں گے ؟کب تک بلو چستان کو خوبصورت لفظوں کی سولی پر لٹکا ئے
رہیں گے ؟۔
قدرت کی عطا کردہ معدنی خزانوں سے لبر یز صو بہ بلو چستان آج سما جی معا شی
اور سیا سی بحران کا شکا ر ہے بلو چستان کی داستاں الم بہت پر انی ہے جس
میں ٹو ٹے ہو ئے وعدوں کی کہا نی ، بلند وبا نگ دعوﺅں کی کہا نی شامل ہے ،
جس کی سنگلا خ چٹا نو ں کے نیچے چھپے خزانوں پرتو سب نے اپنا حق سمجھا
لیکن! فر ض پر کسی کا دھیا ن نہیں گیا ۔بلو چستا ن جو صوبے اور رقبے کے لحا
ظ سے پا کستا ن کا سب سے بڑ اصوبہ ہے مگر آبا دی کے لحا ظ سے پا کستا ن کا
تقریبا دس فی صد ہے اس کی سر زمین کواللہ تعا لیٰ نے قدرتی وسائل سے مالا
مال کیا ہے یہاں تیل ،گیس ،کوئلہ، سونے چاندی ، قیمتی ما ربل اور دیگر دھا
توں کے وسیع ذخائر مو جو دہیں لیکن !کبھی کبھی انسان کے لیے قدرت کی دی ہو
ئی نعمتیں بھی زحمت بن جا تی ہیں جس طر ح ما ضی میں اور آج بھی تیل کی دولت
جن ممالک کو حا صل ہے وہ مغربی مما لک کے سا زشوں کے جا ل میں جکڑے ہو ئے
اپنے ہی لو گو ں کی ریشہ دو انیوں کا شکا ر ہیں بلکل یہی حالات بر سوں سے
صو بہ بلو چستا ن کو در پیش ہے۔قیا م پا کستا ن کے بعد اگر درست زاویے سے
اس کی منصو بہ بند ی کی گئی ہو تی تو شائد اس صوبے کا ہر با شندہ خو شحال
آسودہ ہو تااور زندگی کی بنیا دی ضرورتوں سے آزاد ہو تا مگر اس صو بے کی بد
قسمتی دیکھیے کہ پو رے پا کستا ن میں سب سے زیا د بھوک، غربت ، تعلیم
،اوربیما ری کے علا ج سے محروم یہ صوبہ ہی نظر آتا ہے زندگی کی بنیا دی سہو
لتوں کے لیے دیگر صوبوں کے دست نگر ہے ستم ظریفی یہ کہ اس کے وسائل پر پورا
ملک ہی نہیں بلکہ غیر ملکوں نے بھی اپنی حر یص نظریں جما ئی ہو ئی ہیں ۔
ہمارے اقتدار ایوان میں بیٹھے ہو ئے مہربان چین کی با نسری بجا تے نیروکی
روایات کو زندہ رکھے ہو ئے ہیں کہ آخر روم جل رہا تھا اور نیرو بھی تو با
نسر ی بجانے میں مصروف تھا ۔
بلو چستا ن کی تبا ہی وبر با دی کی جب با ت آتی ہے تو ہمیشہ سرداری نظام
اوران کی اجا رہ داری کو مورد الزام ٹہرا یا جا تا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ پا
کستا ن کے تما م حکمرانوں نے اپنے مفا دات اور مر اعات کے پیش نظر اسے ایک
سیا سی صو بہ بنا نے کے بجا ئے سرداری صوبہ بنا نے کی کو شش کی جب بھی
صوبائی حکو متیں تشکیل دی جا تیں وہاں سرداری حاکمیت رہی۔ان سرداری حاکمیت
نے بلو چستان کے عوام کو اپنی حاکمیت سے آگے کوئی حق نہیں دیا۔عوام کے تما
م مسائل بے انصا فی کی نذرر ہے ہما رے حکمرا نوں کی اسی مجر مانہ غفلت کا
نتیجہ ہے کہ بلو چستان جو ہما را اندورونی معاملہ تھا اب بیرونی دنیا اس پر
کھلے عام مدا خلت پر آمادہ ہے بلو چی عوام جو حکو متی رویئے سے بہت دل بر
داشتہ اور شاکی ہو چکے ہیں ان کو ور غلا نے اور علیحدہ کرنے کی سا زشیں کی
جا رہی ہیں اس کے کئی ثبوت بھی ملے ہیں ہما رے دشمن ممالک جو پا کستان کو
ایک مضبو ط ملک کی صورت میں برداشت نہیں کر سکتے انھیں ہماری کمزوری بلوچ
عوام کی صورت میں ہا تھ آگئی ہے یہ صورت حال افسوس نا ک تو ہے ہی لیکن اس
میں قصور بھی ہما ری غلط پا لیسیوں کا ہے مشرف دور حکومت سے لا پتہ بلو چ
نو جو انوں کو جس انداز سے اغوا اور قتل کیا گیا نواب اکبر بگٹی کو شہید
کیا گیا اس نے نفرت کی آگ پر تیل کا کام کیا پاکستان دشمن قو توں کو کھل
کھیلنے کا مو قع ملا اسی سلسلے میں امریکی ایوان نمائندہ گا ن نے ایک قرار
داد جمع کر وائی جس میں کہا گیا کہ بلو چ عوام کو اپنے لیے الگ ملک بنا نے
کا حق حا صل ہے اس میٹنگ میں بلو چستان کی حما یت میں پاکستان کے خلا ف زہر
اگلا گیا گو اس کے جواب میں ہما رے وزیر اعظم صا حب نے اس قرار داد کی شدید
مذمت کی کہ یہ پا کستان کی سا لمیت پر حملے کے مترادف ہے ۔ لیکن دشمن ہمارے
خلاف سازش کر نے میں مصروف ہیں کہ کسی طر ح بلو چستان کے معدنی ذخا ئر کا
خزانہ ہما رے ہا تھ لگ جا ئے ادھر ہما ری بد قسمتی دیکھئے کہ اپنی مٹی کو
سونا کر نے کی صلا حیت پیداکر نے کے بجا ئے پو ری دنیا میں کشکول لیے پھرتے
ہیں اگر پا کستا ن کی حکو مت ا پنی نگرانی میں اپنے بل بو تے پر دیا نت
داری سے ان ذخا ئر کا استعمال کرئے تو بلو چ عوام کے مسا ئل ان کی محرو
میوں کا ازالہ ہو سکتا ہے ان کے صوبے میں بھی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پا
نی ، خوارک ، صحت ،تعلیم اور روزگار جیسی اہم ضرورتوں کو پو را کیا جا سکتا
ہے آخر ان کے وسائل پر ان کا پورا حق ہے ا س وقت صوبہ بلو چستا ن میں جولا
قانو نیت ، شدت پسند ی ،معا شی اور سیا سی بحران نظر آتا ہے اس کا وا حدحل
یہی ہے اسے طا قت کے بل ختم کر نے کے بجا ئے ان کے مسائل پر ہمدردانہ توجہ
دی جا ئے اب عملی اقداما ت کا وقت ہے اپنی غلطیوں کی اصلا ح کا وقت! ایسے
عمل کا وقت کہ جس سے بلوچ عوام کے زخموں کی داد رسی ہو سکے آخر کب تک ہم
بلوچ عوام کو دلفریب وعدوں او ر خوبصورت لفظو ں کی سولی پر لٹکا ئیں رہیں
گے کہ با ت اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھ گئی ہے ۔۔ |