خون کے پیاسے

پاکستان جیسے ممالک میں حکمرانوں کا کردار ایک جیسا ہی ہوتاہے ۔ان ممالک کے عوام کا کردار بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتا۔ ان ممالک میں حکمرانوں کے طرز حکمرانی میں بھی حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے اور شہریوں کے اپنے حکمران طبقہ کے بارے میں خیالات بھی ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ان ممالک پر حکمرانی کرنیوالے سامراج کی انگلیوں سے بندھی ڈوریوں پر حرکت کرتی ہوئی کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں ،جو کبھی جمہوریت کے راگ الاپتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں میں نمودار ہوتے ہیں ، کبھی آمریت کے لبادوں میں تخت نشین نظر آتے ہیں اور کبھی کبھی انقلاب کی تیز لے پر تھرکتے ہوئے کرسی اقتدار کی طرف بڑھتے ہیں ۔ان ممالک میں حکمرانی کے مزے لوٹنے والوں کا طریقہ واردات بھی ایک جیسا ہی ہوتاہے ۔اقتدار کے حصول کے لئے یہ لوگوں کو غربت ، ناانصافی اور پسماندگی سے نجات دلانے کے دعوے کرتے ہیں اور انہیں ترقی ، خوشحالی اور امن کے خواب دکھاتے ہیں ۔ لوگ ایک بہتر مستقبل کی آس میں اقتدار ان جھولی میں ڈال دیتے ہیں لیکن اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہی ان کا کردار ، ان کا رویہ اور ان کامقصد اپنے پیشرو جیسا ہوجاتاہے ۔ اپنے چہروں کی لالی برقرار رکھنے کے لئے یہ اپنے ہی لوگوں کا لہونچوڑنے لگتے ہیں ۔ لہوہی ان کی زندگی ہے ۔لہوپینا ہی ان کا مشغلہ ہے ۔لہو کا چسکا ہی انہیں اقتدار کے لئے بے چین رکھتاہے ۔ملک اور عوام کے لئے یہ کچھ اور نہیں بس ویمپائر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خون آشام ویمپائر !سامراج بھی ویمپائر بن کر ان ممالک کا خون چوس رہاہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک بھی ویمپائر ہیں جن کے دانت ایک دفعہ کسی ملک کی شہ رگ میں اتر جائیں پھر اسے یرقان زدہ کئے بغیرباہر نہیں آتے ۔مشرق وسطیٰ کے بدن کا لہوان کے چہروں کو گلنار کئے ہوئے ہے اور ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ مشرق بعید نے بڑی مشکل سے اپنی گردن ان کے دانتوں سے بچارکھی ہے،اگرچہ یہ اس پراب بھی دانت کچکچا رہے ہیں لیکن پاکستان ایشیا کے ان ممالک میںسب سے نمایاں ہے جس کے بدن پر بے شمار ویمپائروں نے اپنے خونی دانت گاڑرکھے ہیں ۔ سامراج ، ملٹی نیشنل کمپنیاں ، آئی ایم ایف ، حکمران ،انتہاپسند ، سمگلر ، سرمایہ دار اور جاگیردار ان کا شمار مشکل ہے ۔ پینسٹھ سال سے لگاتار خون چوسنے والوں کے چہروں پر تو شفق دن بدن بڑھتی جارہی ہے لیکن دھرتی کا وجود لاغر سے لاغر تر ہوتاجارہاہے ۔

کچھ عرصہ سے توان ویمپائروں نے خون پینے کے علاوہ اس ملک کو خون میں نہلانے کی روش بھی اختیار کررکھی ہے ۔سوات ، دیر اور چترال جیسے خوبصورت علاقوں کے درودیوار پر خون کے چھینٹوں نے ان کے حسن کو گہنادیاہے ۔خیبر سے لے کر کراچی تک انسانی خون کے چھینٹے اڑ رہے ہیں ۔ کراچی کا خون چوسنے والے ویمپائر تو سانس بھی لینا گوارا نہیں کرتے ۔بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں سرگرم ویمپائر تو خون پینے کے علاوہ خون کی ہولی کھیلنے کے شوقین بھی ہیں ۔پنجاب کی رگوں سے لہو چوسنے والے ویمپائر قدرے چالاک اور مکار ہیں ، اپنا کام انتہائی مہارت سے سرانجام دے رہے ہیں ۔ یہ خون کے پیاسے پوری دنیا میں پھیلے ہیں ۔ پاکستان کے علاوہ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک کی گردن پر انہوں نے اپنے دانت جمارکھے ہیں لیکن پھربھی نمایاں تر مثال اسی ملک کی ہے کہ یہاں یہ اپنی تمام تر سفاکی کے ساتھ چاروں سمت سے حملہ آورہیں ، ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور ان سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ان سے نجات دلانے والا کوئی نہیں کیوں کہ حکمران طبقہ بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ خون پینے میں مصروف ہے ۔ دھوکہ ، فریب اور چالاکی سے کام لے کر جب یہ اقتدارنشین ہوتے ہیں تو فوری طورپر اپنی بے دخلی کے خوف میں مبتلاہوجاتے ہیں ۔ انہیں ہروقت یہ اندیشہ دامن گیر رہتا ہے کہ اچانک کسی دن رخصت کی گھنٹی بجے گی اور انہیں یہ کرسی اقتدار چھوڑ نا ہوگی ۔لہٰذا وہ اپنے اقتدار کے ہرلمحہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے پوری تندہی سے ملک او رعوام کا خون چوسنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ حکمران طبقہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہی عوام کے ساتھ کئے ہوئے وعدے فراموش کردیتاہے کیونکہ انہیں اپنی زندگی کو دوام بخشنے کے لئے تازہ خون کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے یہ سب کچھ بھول بھال کر اسی فکر میں غلطاں رہتا ہے ۔

ہردفعہ جب حکمرانوں کو اقتدار کے ایوانوں سے بے دخلی کا پروانہ تھمایاجاتاہے ، ان کی جگہ آنیوالے حکمران بڑے طمطراق کے ساتھ تخت نشین ہوتے ہیں ۔عوام کو ان کے ساتھ بڑی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور وہ انہیں امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن یہ پہلی فرصت میں ہی ان کا خون پینے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔پاکستان میں حکومت دوسال بعد بدلے یا دس سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔حکومت جمہوریت کی چھتری تلے قائم ہو یا اس پر مارشل لاءکا ٹھپہ لگاہو اس کے کارپرداز لہو پینے والوں کی نئی کھیپ کے جلو میں اقتدار کی راہداریوں میں دندناتے نظرآتے ہیں ۔ آ ج ایک بار پھر حکومت بدلنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں ۔ خون کے پیاسوں کی نئی کھیپ اپنے لنگر لنگوٹ کس کر اپنے دانت کچکچا رہی ہے تاکہ موقع ملتے ہی اپنے خونی دانت ملک اور قوم کی شہہ رگ میں اتار سکے ۔ حکومت بدلنے کا یہ کھیل بہت دلچسپ ہے ، اس ملک اور اس کے شہریوں کا خون بہت مزیدار ہے ۔(ختم شد)
Arshad Askari
About the Author: Arshad Askari Read More Articles by Arshad Askari: 5 Articles with 4195 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.