پاک وطن کے مجبور اور بے کس عوام
کو مہنگائی کا سرکاری پالتو زہریلا سانپ امسال بھی ڈس رہا ہے اور اس زہر کا
ٹیکہ ہر پل لگ رہا ہے۔ امسال کے مہنگائی کے جن نے پچھلے چونسٹھ سال کا
ریکارڈ مات کرڈالا ہے۔ سیمنٹ اور چینی کے بحرانوں کے بعد آٹا کا بحران
غریبوں کا مکمل گھر اجاڑ کر گلے کا طوق بن گیا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور فلور
ملز مالکان کی ملی بھگت کی وجہ سے 18کروڑ عوام آج بھی آٹا 580سے 590روپے فی
20کلوکا تھیلا خریدنے پر مجبور ہیں۔ بعض علاقوں میں 600روپے تک کا 20کلو
آٹا کا تھیلا بھی بک رہا ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں چونکہ سیمنٹ ،
چینی اور آٹا کے بحرانوں کی ذمہ دارہمہ مقتدر شخصیات اہم عہدوں پر فائز اور
براجمان ہیں۔ اس لئے چور وی کہندے چور اوئے چور!کے مصداق صوبائی حکومتیں
مرکز کو اور مرکز صوبائی حکومتوں کو ذمہ دار گردانتے رہتے ہیں۔ عوام کاان
چکی کے دو پاٹوں کے درمیان گِھس گِھس کر اور پِس پِس کر کچومر نکلا جارہا
ہے۔ او رملکی ضرورت سے زائد کا بتا کرحکومت گندم ایکسپورٹ کرنے کا پروانہ
جاری کردیتی ہے۔اس طرح سود خور سرمایہ دار گندم باہر بھیج کر حرام مال
کمانے کی انتہا کرڈالتے ہیں۔اور پھر وہی حکومتی کارپرداز صنعت کار و سرمایہ
دار یہی گندم دوگنی قیمت کے حساب سے درآمد کرنے والے بن جاتے ہیں ”شرم تم
کو مگر نہیں آتی“پہلے ڈکٹیٹرطاقتور فوجی آمر حکمرانوں اور آج جمہوری آمروں
کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ حکومت کے روایتی اعلانات کہ ذخیرہ
اندوزوں ، گراں فروشوں، کو گرفتار کیا جائے گا۔ اگر چند سود خور ڈھول نما
پیٹ رکھنے والے سیٹھوں کو حکومت مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی میں گرفتار
کرلیتی۔ تو ریٹ معقول سطح پر آجاتے۔ مگر وہ انہی کے دائیں بائیں بیٹھے
انہیں اپنی معقول تجاویز” برائے طوالت اقتدار،عوامی خون چوسنے اور سرکاری
بینک لوٹنے “دے رہے ہیں۔ ان کے خلاف کاروائی یعنی اپنے آپ کے خلاف کاروائی
کون کرے گا۔ عوام ایسے سرمایہ داروں کا حکومتی احتساب کروانا اور خود ان کے
منہ پر تھوکنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ کیسے دستیاب ہوں کہ وہ تقریباً سارے کے
سارے حکومتی بندوقوں کی حفاظت میں گھوم رہے ہیں۔ محلات نما کوٹھیوں پر
کرائے کے گن مین ان کے پہرہ دار ہیں اور عام آدمی ڈاکوؤں اور اغواءکاروں کے
رحم وکرم پر ہیں۔ جبکہ ان باوردی غنڈوں کی تنخواہوں ،عیش وعشرت کیلئے
سرمایہ غریب عوام سے ہی مہنگائی کا جن وصول کرتا ہے۔ صورتحال بہ ایں جا
رسید کہ دس روپے کلو والی سبزیاں 90/-روپے کلو تک پہنچ گئی ہیں۔ تمام
کھوکھلے حکومتی اقدامات اور جعلی نعروں کے باوجود صارفین کوانار 180/-روپے
کلو،سیب 200 روپے کلو،کیلا 100 روپے درجن تک کی قیمت پر میسر ہیں۔لہسن 70
سے 90 روپے کلو،بریلرمُرغی 240 روپے کلو ، دیسی مُرغی 400 روپے کلو، بڑا
گوشت 220 روپے کلو،بکرا گوشت 400 سے 450 روپے کلو، مچھلی 250 سے 300 روپے
کلو، گھی 175 سے 200، چاول 80 سے 110 روپے کلو، اس کے علاوہ پٹرول 102 روپے
لٹر،مٹی کا تیل 110 روپے لٹر،ڈیزل 107روپے ِلٹر گھریلو گیس کا سلنڈر 1750ہے
اور یہ تمام اشیاء۴ سال قبل وردی پہنے مارشل لائی حکومت سے ۳ سے ۴گُنا
مہنگا ہو چکی ہیںاب امسال مہنگائی کا جن اور زہریلا سانپ قدآوردیو اور
اژدہا بن چکا ہے اگر آمدہ انتخابات میں پِسے کچلے ہوئے غریب عوام نے نئی
رجسٹرڈ سیاسی جماعت اللہ اکبر تحریک کو منتخب کر ڈالا تو ان کے منشور کے
مطابق کھانے پینے کی تمام اشیاءخود بخود 1/5 قیمت پر اور تمام تیل اور
CNGگیس1/3 قیمت پر سبسڈی کے زریعے ملیں گی حتیٰ کہ بجلی،گیس،علاج،تعلیم ہر
فرد کو مفت مہیا ہو گی۔ دراصل امریکہ ، کینیڈا اور یورپی ممالک کی روشن
خیالی میں تو نقالی کی جارہی ہے۔ مگر وہاں موجود قانون کہ جو سیٹھ اجارہ
داری قائم کرکے مصنوعات کی قیمت بڑھانے کا ذمہ دار ہوگا اسے تین سال تک کی
سزا دی جاسکے گی۔ یہاں نافذ العمل کیوں نہ ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ من
مانیوں کی ماہر ملٹری ، بیورکریسی اور سرمایہ دار افراد کی تکون ہر صورت
مقتدر رہتی ہے۔ جب محافظ حکومتی کارپرداز ، تھانوں کے انچارج ہی باوردی
ہوکر ڈکیتیاں، چوریاں کرنے لگ جائیں تو پھر انہیں کون کیسے پکڑے گا اور کس
کا محاسبہ ہوسکے گا؟ واضح ہے کہ یہ سب حالات ایمرجنسی یامارشل لاءکی جانب
نہیں بلکہ کسی خونی انقلاب کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔(خاکم بدہن) کہ جس میں
مقتدر افراد کو شہنشاہ ایران کی طرح دفن ہونے کیلئے پاک سرزمین میں جگہ بھی
میسر نہ ہوسکے گی۔ راقم الحروف پہلے بھی واضح کرچکا ہے کہ صنعت کاروں اور
سرمایہ داروں سے ملیں حکومتی تحویل میں لینے ، انہیں نیشنلائز کرنے یاان کی
نجکاری کر ڈالنا مسئلہ کا حل نہ ہے۔ بلکہ صرف اور صرف حل یہی ہے کہ
ورکرزاورمزدوروں کو ملوں کے منافع کا کم از کم 90%بطور تنخواہ/معاوضہ کے
طور پر دیا جائے انہیں باقاعدہ حصہ دار بنایا جائے۔ بقیہ 10%منافع مل مالک
کو دیا جائے۔ یعنی جمہوری طور پر منتخب مزدور یونینز کو ملوں کو چلانے کی
مکمل ذمہ داری سنبھال دی جائے۔ تو وہ جان لڑا کر کام کریں گے اس سے ملکی
معیشت ترقی پذیر ہوگی۔ واحد اجارہ دار کی جگہ ہر ملازم مزدور جب مالک کی
حیثیت اختیار کرجائے گا تو ذخیرہ اندوزی کا مکمل خاتمہ ہوگا اور من مانی
قیمتیں مقرر نہ کی جاسکیں گی۔ کہ ہر شخص مالک بھی ہوگا ذمہ دار اور راز دار
بھی ۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہ ہے کہ مہنگائی کے سانپ کے ڈسے
ہوئے نیم مردہ لوگوں میں خود کشیوں کا رجحان مزید ترقی پاجائے گا اور مقتدر
لوگ اسے ہی ملکی ترقی گردانا کریں گے مہنگائی کا جن اور اس دور کا زہریلا
ناگ آمرحکمرانوں اور موجودہ دور کے بار بار الٹی قلابازیاں لگانے والے
تقریباً تمام سیاستدانوں کی انہی غلطیوں سے ہی پل پل کر اژدہا بن چکا ہے نہ
تو سیاسی جماعتوں کے منشور وں میں مہنگائی روکنے کا کوئی پلان ہے اور نہ ہی
وہ عملاً کوئی جدوجہد کررہے ہیں یہ لوگ صرف اپنے ذاتی پیٹوں کو ہر جائز
ناجائز مال سے بھرنے کا غلیظ عمل مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں اور نعرہ زن
عوام ان کو سوتے ،اٹھتے، بیٹھتے ”زندہ باد “ کہہ رہے ہیں حتٰی کہ بلوچستان
میں موجودہ شورش جمہوری آمروں کی ہی نا اہلی کا بین ثبوت ہے اس سے واضح ہے
کہ تاریخ کی کتابوں کے سیاہ حروف انہی کے رو سیاہ کی ہی سیاہ سیاہی سے لکھے
جائیں گے۔سب عوام دعا گو ہیں کہ اے اللہ مہنگائی کے جن کودفع دور کر ۔ اور
اللہ اکبر تحریک کو مقتدر کر |