پاکستان کی تباہی کا”واٹر سکینڈل“

بھارت کے معروف سیاستدان اور راجیہ سبھا کے رکن مانی شنکرائیار ،جو ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں، نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ”نومبر 1978ءمیں مجھے کراچی میں بھارتی حکومت نے پہلے قونصل جنرل کے طور پر تعینات کیا۔ایک مرتبہ جی ایم سید نے ملنے کی خواہش ظاہر کی میں نے ملنے کے بجائے اپنے آدمی کو بھیج دیا جس نے جی ایم سید سے ملاقات کی اورہمارے آدمی نے ان سے پوچھا کہ جئے سندھ بنتا ہے تو آپ کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی۔ جس پر جی ایم سید نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کا پہلا نکتہ یہ ہوگا کہ ہم آتے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے سندھ طاس معاہدے کو ختم کریں گے جس پر ہمارا نمائندہ کافی پریشان ہوا کیونکہ ہمارے پنجاب کی ہریالی اسی معاہدے کی وجہ سے ہوئی۔ ہمارے نمائندے نے کہا کہ جناب ہمارے لئے تو یہ مشکل ہوجائے گا۔“

پاکستان اور بھارت کے درمیان ”انڈس واٹر ٹریٹی“ در اصل جواہر لعل نہرو کے ذہن کی پیداوار ہے ۔نہرو نے1951ءمیں بجلی پیدا اور سپلائی کرنے والی ایک بڑی امریکی کمپنی ”ٹینیسی ریور اتھارٹی“ کے ایک سابق چیئر مین ڈیوڈ لینئنتھال( جو اس وقت کے ورلڈ بنک کے صدر ڈیوڈ بلیک کا دوست بھی تھا) کو خصوصی طور پر بھارت بلایا اور اسے بھارت کے حق میں دور رس معاشی ، سیاسی و جغر افیائی اثرات پر مبنی پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کے ایک معاہدے کا منصوبہ پیش کیا۔ نہرو کے اس منصوبے میں ریاست کشمیر کی تقسیم کو عالمی سطح پر’ جوں کا توں‘ کی بنیاد پر حل کرنے کا اقدام بھی پوشیدہ تھا جو اب واضح ہو رہا ہے ۔ڈیوڈ لینئنتھال نے واپس امریکہ جانے سے پہلے پاکستان کا دورہ بھی کیا اور امریکہ پہنچ کر ورلڈ بنک کے صدر کو نہرو کے تصورات کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے ایک مخصوص معاہدے کا محرک بننے پر رضامند کر لیا ۔

یہ حقیقت اب بے نقاب ہو چکی ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے ذریعے مملکت پاکستان کی تباہی و بربادی کی ایک عالمی سازش کی گئی اور اس سازش کو پایہ تکمیل پہنچانے تک اس کے ثمرات سے پاکستان کو محروم رکھنے کے لئے آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اور پاکستان میں معینہ مدت تک ڈیم تعمیر نہ ہونے دیئے گئے۔آٹھ نو سال کے مزاکرات کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے۔اس معاہدے کی رو سے 2008ءتک پاکستان کو وقت دیا گیا کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے مطلوبہ ڈیم تعمیر کر لے ،اس کے بعد بھارت کشمیر کے ان دریاﺅں پر ڈیم بنا سکے گا۔آج کی مہذب دنیا تو کیا انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ کسی قوم ،ملک نے پیسوں کے عوض دریا بیچ دیئے ہوں۔اس معاہدے کے لئے عالمی بنک کی نگرانی میں مئی1952ءسے مزاکرات شروع ہوئے۔پاکستان اور بھارت نے معاہدے کے لئے دریاﺅں کے پانی کی تقسیم سے متعلق اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ورلڈ بنک نے اپنی تجاویز بھی دیں لیکن 1958ءتک معاہدہ نہ ہو سکا۔ پھر1958ءمیں جنرل ایوب کا مارشل لاءلگنے کے بعد1960ءمیں پاکستان کی طرف سے ورلڈ بنک کی تجاویز کو قبول کرتے ہوئے یہ معاہدہ طے پا گیا۔ جنگ کے بعد دو ملکوں کے درمیان تمام معاہدے ختم ہو جاتے ہیں ،1965ءکی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان نیا معاہدہ ہو ا لیکن سندہ طاس معاہدہ برقرار رہا،1971ءکی جنگ اور پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد بھی سندھ طاس معاہدہ کسی بری تقدیر کی طرح قائم و دائم رہا۔بھارت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی اس حقیقت کا ادارک کرنا ہو گا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا کوئی بھی حقیقی اور منصفانہ معاہدہ مسئلہ کشمیر کے پرامن ،منصفانہ حل سے ہی منسلک ہے اور ان امور کو الگ الگ ڈیل نہیں کیا جا سکتا۔اس معاہدے کے ذریعے پاکستان کے وسیع تر مفادات اورمسئلہ کشمیر کو کو نظر انداز بلکہ کشمیر پر قبضے کی صورتحال کو ’جوں کا توں‘ رکھتے ہوئے پاکستان کو ’واٹر بم ‘ سے تباہ کرنے کی بنیاد رکھی گئی اور آج ہم اس کی بھیانک صورت کے تباہ کن اثرات کو مستقبل قریب میں محسوس کر سکتے ہیں۔

’ انڈس واٹر ٹریٹی‘ کے ذریعے جہاں پاکستان کے خلاف تباہ کن اور سنگین سازش رچی گئی وہاں اس کے ساتھ ساتھ یہ پاکستان کے ارباب اختیار کی طرف سے بالواسطہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے دستبرداری کا اعلان بھی تھا۔یہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور منشور کی خلاف ورزی بھی ہے کہ ایک ایسی متنازعہ ریاست کے آبی وسائل دو ملک آپس میں بانٹ لیں جس کے مستقبل کا فیصلہ عوامی رائے شماری کے ذریعے ہونا ابھی باقی ہے ۔ دوسری طرف سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے پندرہ سال پہلے تک بھارتی زیر انتظام کشمیر کو سالانہ چھ ارب سے زائد کا نقصان ہو رہا تھا۔کشمیری کشمیر کے دریاﺅں سے دونوں ملکوں کو روشن اور سرسبز کرنے کے مخالف نہیں لیکن یہ بڑی زیادتی ہے کہ کشمیر ،کشمیریوں کے دیرینہ،سنگین مسئلے کو لٹکائے رکھتے ہوئے دونوں ملک کشمیر کے وسائل سے مستفید ہوتے رہیں اور مقامی ریاستی حقوق کو پامال کیا جائے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق آئندہ پانچ سے دس سال کے دوران بھارت مقبوضہ کشمیر میں اتنے ڈیم تعمیر کر لے گا کہ اسے پاکستان جانے والے دریاﺅں پر مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔یوں زرعی ضروریات کے وقت کشمیر سے آنے والے دریاﺅں میں پانی نہیں ہو گا اور بارشوں میں سیلابی کیفیت کا سامنا ہو سکتا ہے۔کشمیر سے متعلق ایک اجلاس میں سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے مسئلہ کشمیر کے موضوع کے حوالے سے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر پنجاب اور صوبہ سرحد میں دلچسپی ہو سکتی ہے لیکن سندھ میں کشمیر کے مسئلے سے دلچسپی کم ہے،سندھ کا مسئلہ پانی ہے۔اس پر میں نے عرض کیا کہ اگر بھارت کشمیر میں درجنوں ڈیم بنا کر دریاﺅں پر کنٹرول حاصل کر لے تو سندھ کا پانی بند ہونے پر سندھ سب سے پہلے اس مسئلے کو اپنا مسئلہ قرار دے گا۔

گزشتہ دو عشروں کے دوران ہمارے ارباب اختیار کی طرف سے کئی بار یہ بات سامنے آئی کہ”ان تمام امکانات کو ختم کیا جارہا ہے کہ جس سے بھارت کے ساتھ جنگ کا کوئی بھی خطرہ باقی رہے“۔ اس وقت جدوجہد آزادی کشمیر کو رول بیک کرنے کا عمل بھی جاری تھا۔اس وقت اعلٰی حکام کی بند کمروں کی بریفنگ میں یہ بتایا جاتا تھا کہ بھارت سے کشمیر سمیت جنگ کے تمام امکانات ختم کئے جا رہے ہیں لیکن پانی کا مسئلہ ابھی جنگ کے خطرات لئے ہوئے ہے۔اس کے بعد سب نے دیکھا کہ کشمیر سے آنے والے دریاﺅں پر بھارت کی طرف سے درجنوں ڈیم بنانے کے دوران حکومت پاکستان کی سرگرمیاں غیر موثر انداز میں جاری رہیں اور اب آ کر پتہ چلا کہ انڈس واٹر کمیشن، جماعت علی شاہ،ان کے اسسٹنٹ موجودہ قائمقام کمشنرو انچارج بگلیارڈیم شیراز جمیل اور صدر زرداری کے دوست وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے پانی مجید اللہ کئی با اثر شخصیات کی ایماءپر ملک و قوم کے مفادات کے خلاف استعمال ہوئے۔جماعت علی شاہ اپنا نام ایگزسٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہونے کے باوجود آرام سے بیرون ملک بھاگ گیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف اس سنگین واٹر سیکنڈل میں صرف انڈس واٹر کمیشن ہی نہیں بلکہ ہمارے ملک کے کئی ”کرتا دھرتا“ بھی شامل ہیں اور اس سیکنڈل میں کہیں بھی ان کا نام نہیں،ان کے نام سامنے کیسے آ سکتے ہیں،وہاں تو ہمارے’ قانون کے بھی پر جلتے ہیں‘۔کیا پاکستان کی سلامتی اور بقاءسے منسلک اس ”واٹر سیکنڈل“ کا اس لئے کوئی نوٹس نہیں لیا جائے گا کہ ذمہ دار ہمارے ہی ارباب اختیار ہیں۔اقتدار کی لڑائی تو عدلیاتی موضوع بنتا ہے لیکن پاکستان کے اس ’واٹر سیکنڈل‘ کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا جس سے پاکستان کو بنجر،فاقہ زدہ اور پانی و توانائی سے محروم کیا جا سکتا ہے۔یوں سندھ طاس معاہدہ نہرو کی اس سوچ کا عکاس ثابت ہورہا ہے کہ پاکستان لڑائی کے بغیر ہی بھارت کی جھولی میں گر جائے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698967 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More